دور حاضرکے جن فتنوں نے عالمگیر سطح پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور جن سے مسلم معاشر ہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ان میں سرفہرست گلوبلائزیشن ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر محسوس فتنہ ہے جس کا ظاہر انتہائی پرفریب اور خوشنما ہے لیکن اس کے اثرات دین و ایمان، اخلاق و تہذیب اور مذہبی اقدار کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔ دیگر فتنوں کی طرح یہ فتنہ بھی مغربی دشمنانِ اسلام کے راستہ سے آیا ہے اور اس کی آبیاری کرنے والے یہود و نصاریٰ ہیں جن کی اسلام دشمنی ظاہر و باہر ہے۔
گلوبلائزیشن، گلوب سے ماخوذ ہے جس کے معنی کائنات کے ہیں۔ گلوبلائزیشن کا ترجمہ عالمی بنانا ہے۔ اردو میں اس کے لیے عالم کاری کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ گلوبلائزیشن کی اصطلاح سے پہلے مغرب نے نیوورلڈ آرڈر(نیاعالمی نظام ) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ جن مقاصد کے لیے مغربی طاقتوں نے نئے عالمی نظام کا نعرہ بلند کیا تھا گلوبلائزیشن انہی مقاصد کی تکمیل کا نام ہے۔ گلوبلائزیشن اگرچہ تجارت کو بین الاقوامیانے کے لیے بولا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد خالص معاشی بتایا جاتا ہے لیکن اس کے اہداف انتہائی گہرے اور پہلودار ہیں۔ دین، اخلاق، تہذیب، تمدن اور قدریں سب اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی تعریف اور اس کی وضاحت کے لیے محققین کی آراء کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
گلوبلائزیشن کی ایک تعریف یوں کی گئی ہے کہ گلوبلائزیشن سرمایہ دار تجارت کو بین الاقوامیانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس عمل کے لیے دوسرا لفظ آزاد تجارت کا استعمال ہوتا ہے۔( آئی او ایس جرنل جلد 12 جنوری تاجولائی 2000ء)
عرب مصنف علی المزروعی گلوبلائزیشن کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
’’ گلوبلائزیشن کیا ہے؟ یہ ان طریقوں کے لیے بولا جاتا ہے جو عالمی پیمانے پر باہمی انحصار اور دور دراز کے علاقوں سے تیز تر رابطہ اور تبادلہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ گلوبلائزیشن خود ہی بالکل نیا لفظ ہے لیکن حقیقت میں اس کا آغاز صدیوں پہلا ہوگیا تھا۔ چار قوتیں گلوبلائزیشن کی گاڑی کو آگے بڑھانے میں خاص رول ادا کرتی ہیں۔ دین و مذہب،معیشت، ٹکنالوجی اور ریاست۔( امریکہ کا گلوبلائزیشن پر خاص نمبر 1989ء )
فری عرب وائس کے ایک مضمون میں گلوبلائزیشن کی تعریف یوں کی گئی ہے :
’’گلوبلائز یشن صاف طورپر ایک معاشی اسٹراٹیجی ہے جو دنیا پر ثروت مند اور صنعتی ملکوں کے ذریعہ مسلط کی گئی ہے۔ اس کا مقصد ان عالمی کارپوریشن کے مفادات کا حصول ہے جن کا جال ہر طرف بکھرا ہوا ہے اور جن کو ٹرانس نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیاں کہا جاتا ہے۔ اس معاشی اسٹراٹیجی کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کو اپنے لیے کھولا جائے۔ ان کے بہترین وسائل و ذرائع اور ثروت کو ان کارپوریشن کے تحت کردیا جائے جو کسی قید و شرط اور حدود کے پابند نہ ہوں۔
(اسلامےۃ المعرفۃ ابراہیم ابو ربیع ص ۱۷)
ہندوستان کے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی لکھتے ہیں :
’’گلوبلائزیشن کے ظاہری معنی پوری دنیا کو ایک مارکٹ بناناہے اور ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو بین الاقوامی تجارت میں حائل ہیں تاکہ سرمایہ بلارکاوٹ ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کرسکے اور جس جگہ بھی اس کی ضرورت ہو وہاں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ اس طرح محنت بھی ہر جگہ کا سفرکرسکے اور جہاں بھی اس کو زیادہ اجرت ملے وہاں اپنی خدمت پیش کرسکے۔ اس میں سرمایہ اور محنت دونوں کا بھلا ہے۔ (زندگی نو، نومبر؍دسمبر2000)
امریکہ اور یوروپ کے اکثر ممالک عرصہ دراز سے گلوبلائزیشن کے علمبردار ہیں۔ البتہ کمیونزم اس کا مخالف تھا۔ جہاں تک ایشیاء اور تیسری دنیا کے ممالک کی بات ہے تو انہوں نے 80 کی دہائی میں کمیونزم کے زوال کے بعد گلوبلائزیشن کو گلے سے لگایا۔ 1991ء سے جب معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہوا ہندوستان بھی گلوبلائزیشن کے راستہ پر گامزن ہوا۔ مصری اسکالر ھناء محمد گلوبلائزیشن کے آغاز پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’ ثقافتی طورپر گلوبلائزیشن کی اصطلاح گذشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں میں مشہور ہوئی ہے لیکن عملاً اس کی بنیاد 1965ء ہی میں پڑگئی تھی۔ جب الجمع المسکونی کی دوسری میٹنگ کے تمام کیتھولک چرچوں کے اتحاد پر زوردیاگیا تھا تاکہ وہ متحد ہوکر اسلام کا مقابلہ کرسکیں اور 90کی دہائی میں اسے روئے زمین سے نیست و نابود کرسکیں۔ 1978ء میں ایسی دوسری المسکونی کانفرنس کلوراڈو میں ہوئی جس میں خاموش طریقہ سے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی تدابیر کے سلسلہ میں چالیس نکات پر بحث و مباحثہ ہوا۔ (المجتمع،9مارچ2007)
جہاں تک عالمگیر برادری کے تصور کی بات ہے تو اگرچہ اسلام سے پہلے عیسائیت نے بھی اس تصورکو اپنایاتھالیکن تاریخ کے کسی دور میں وہ اس کا عملی مظاہرہ نہ کرسکے۔ پھر بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں کمیونزم نے بھی عالمی برادری کا تخیل پیش کیا لیکن چونکہ اس کی بنیاد انکار مذہب پر رکھی گئی تھی اس لیے اس کو دوام حاصل نہ ہوسکا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس جب دو سوپر پاور بن کر ابھرے تو انہوں نے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک بار پھر عالمگیر برادری کا نعرہ بلند کیا اور اس مقصد کے لیے مجلس اقوام کا قیام عمل میں لایاگیا چونکہ اس کے قیام میں نیک مقاصد کار فرما نہ تھے اس لیے بہت جلد پوری دنیا کو ایک خطرناک جنگ میں جھونک دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور امریکہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کی شکل میں سامنے آئے لیکن دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے اس لیے دونوں میں سرد جنگ کی فضاء قائم ہوئی اور دنیا دو حصوں میں بٹ گئی۔ کچھ دوسرے درجہ کی طاقتوں نے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک بار پھر عالمگیر برادری کی آواز اٹھائی۔ اس طرح اقوام متحدہ وجود میں آیا لیکن اس پر مفادات غالب آگئے اور اس کے پانچ دائمی ارکان کے ہاتھوں میں حق تنسیخ دے دیاگیا۔ جنگ خلیج کے بعد امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر عالمی نظام کا نعرہ بلند کیا گیا اور اس کے ساتھ گلوبلائزیشن کی اصطلاح رواج پاگئی۔
گلوبلائزیشن کے نقصانات
گلوبلائزیشن پر خود مغربی دانشوروں کی جانب سے بھی منفی اور مثبت موقف کااظہار کیا جارہا ہے۔ مغرب کے کچھ اصحاب علم نے گلوبلائزیشن کو انسانی معاشرہ کے لیے مفید اور ترقی کا باعث گردانا ہے تو مغربی دانشوروں کے ایک بڑے طبقہ نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ گلوبلائزیشن کی تائید میں لکھنے والے مغربی مفکرین میں جیزے فاچس اور تھامس فرائیڈے کافی مشہور ہیں۔ ان کی نگاہ میں گلوبلائزیشن انسانی برادری کے لیے مثبت اثرات رکھتا ہے ۔ غریب ممالک میں بیرونی سرمایہ کی آمد سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جس سے غربت کے خاتمہ میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں عصری ٹکنالوجی اور مصنوعات کی فراہمی سے عوام کا معیار زندگی اونچا ہوتا ہے۔ صنعتی ترقی کے سبب روزگار کے جدید مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ صحت عامہ میں بہتری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں مہیا ہوجاتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے حامیوں کے نزدیک گلوبلائزیشن سے حقوق انسانی، حقوق نسواں اور انسانی قدروں کو فروغ ملنے سے جمہوریت کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے لیکن یہ اس کے ظاہری منافع ہیں۔ ان سے ہٹ کر گلوبلائزیشن کے نقصانات اور منفی اثرات انتہائی تباہ کن ہیں۔ گلوبلائزیشن کے ظاہری نقصانات میں یہ ہے کہ اس سے ملکی صنعتیں ٹھپ پڑجاتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں دنیا بھر کی کمپنیاں اور تجارتی ادارے ملک میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بیرونی اشیاء کے ملک میں داخلہ سے مقامی صنعتیں بری طرح متاثر ہوجاتی ہیں۔ جن مقامی صنعتوں میں بیرونی اشیاء کے مقابلہ کی سکت ہوتی ہے وہ ٹک پاتی ہیں بقیہ مصنوعات اور ان کی فیکٹریاں راستہ سے ہٹ جاتی ہیں۔ اس سے مزدوروں کے حقوق متأثر ہونے لگتے ہیں۔ جان رب، نوم چومسکی وغیرہ گلوبلائزیشن مخالفین کا کہنا ہے کہ:
’’گلوبلائزیشن سے بلاشبہ کسی ملک کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن چونکہ دولت منصفانہ طورپر تقسیم نہیں ہوتی اس لیے عدم مساوات پیدا کرتی ہے۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں آنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سرمایہ اور خوشحالی کا فائدہ صرف اس چھوٹی سے اقلیت کو ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ اور پیشہ وارانہ قابلیتوں سے آراستہ ہوتی ہے ،چونکہ اس عمل کے نتیجہ میں معیشت کے روایتی ذرائع یعنی زراعت، چھوٹی تجارت، گھریلو صنعتیں وغیرہ متاثر ہوتی ہیں اس لیے آبادی کابڑا حصہ خصوصاً غریب اور کمزور طبقات شدید نقصان اٹھاتے ہیں۔ دیہی معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور چند لوگوں کی خوشحالی کیلے عوام کی اکثریت کو بھاری قربانی دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح گلوبلائزیشن کا عمل ملک کے اقتدار اعلیٰ کو متاثر کرتا ہے۔ حکومت کے اختیارات کم ہوجاتے ہیں۔وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں ا ور بااثر عالمی اداروں کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں۔ اور چونکہ حکومت کے برخلاف ملٹی نیشنل کمپنیاں یا عالمی ادارے جمہوری طریقوں سے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل نہیں ہوتے اس لیے وہ نہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اور نہ عوام کے مسائل و مفادات سے انہیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ اس طرح گلوبلائزیشن کا عمل سیاسی سطح پر جمہوریت کی بنیادی روح کو ختم کردیتا ہے۔‘‘ (رفیق منزل رہنمائے عہد نو خصوصی اشاعت جنوری 2008ء)
گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا نقصان تہذیب و تمدن اور قدروں کی بربادی کی شکل میں ہورہا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ پہلو سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی نظر میں تہذیب و تمدن کی کوئی اہمیت نہیں اس لیے کہ ان کی اپنی کوئی تہذیبی شناخت نہیں ہوتی لیکن اسلام کی اپنی مستقل تہذیب ہے۔ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں ساری دنیا پر مغربی تہذیب کا تسلط قائم ہونے لگا ہے۔
’’دنیا بھر میں مغربی تہذیب کے غلبہ اور مقامی تہذیبوں کے خاتمہ کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ماس پروڈکشن کے اس دور میں بڑی کمپنیاں ایسی اشیاء کو فروغ دے رہی ہیں جو خالصتاً مغربی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے میں مغربی طریقوں کو ساری دنیا پر مسلط کیا جارہا ہے۔ ہندوستان کے بہت سے دیہاتوں میں بھی نئی نسل روایتی مقامی مشروبات سے ناآشناہوتی جارہی ہے اور پیپسی کولا کی دیوانی ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح ماس میڈیا پر عالمی طاقتوں کے غلبہ کے باعث رہن سہن طرز ہائے حیات خیالات اور لوگوں کے تصورات پر بھی بیرونی تہذیبی عناصر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم جنسی، عریانیت اور جنسی بے قاعدگی جیسے معاملات جن سے مشرقی معاشرے ناآشنا تھے اب تیزی سے ان معاشروں میں بھی عام ہوتے جارہے ہیں۔ ‘‘(رفیق منزل عہد نوخصو صی اشاعت جنوری 2008ء)
گلوبلائزیشن سب سے زیادہ مسلم خاندانی زندگی پر اثر انداز ہورہا ہے۔ اسلام خاندانی زندگی کے استحکام پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ خاندانی و عائلی زندگی کا استحکام، آپسی رشتوں کے احترام، محبت و مودت، خیر خواہی وہمدردی، باہمی الفت اور حقوق کی ادائیگی سے ہوتاہے۔ خاندانی زندگی میں عورت کا اہم رول ہوتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کی پامالی یا انہیں بے لگام کردینے سے عائلی ڈھانچہ کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔ گلوبلائزیشن سے خاندانی زندگی پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ مصری اسکالر ہناء محمد گلوبلائزیشن کے اس خطرناک پہلو پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’گلوبلائزیشن نیو ورلڈ آرڈر گلوبل ولیج اور لارج میڈل ایسٹ‘‘ ان تمام اصطلاحات کا ایک مشترک ہدف ہے اور وہ ہے اسلام کی عزت و شوکت کو نابود کرنا اور اسلام کے ا س نظام خاندان کو ختم کرنا جو اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ اہل مغرب باوجود اپنی ترقی یافتہ تہذیب کے ایسا نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اسلام کے نظام خاندان میں عورت کو مرکزیت حاصل ہونے کی وجہ سے وہ ان سازشوں کا اوّلین ہدف بنی ہوئی ہے۔ جن کے تانے بانے خفیہ طریقے سے بنے جارہے ہیں تاکہ اسے اس کے دینی تشخص سے عاری کردیاجائے اور ثقافتی طورپر گلوبلائزیشن کے تقاضوں کا پابند بنادیاجائے۔‘‘ (المجتمع۳؍مارچ۲۰۰۷ء)
گلوبلائزیشن کے ذریعہ مسلم خاتون اور اسلامی نظام خاندان کو کس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ہنا محمد لکھتی ہیں کہ:
’’ اس کے لیے متعدد وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مثلاً عورتوں کی مقامی تنظیموں کے لیے بیرونی دولت فراہم کی جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ گلوبلائزیشن کے منصوبوں کو نافذ کیا جاسکے۔ اسی طرح عورتوں سے متعلق بین الاقوامی قرار دادوں اور اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کی تجاویز کے نفاذ کے لیے معاشی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تجاویزآوارگی کو فروغ دیتی ہیں اور ناجائز تعلقات کے لیے بھی فائدہ کا اعلان کرنے والی ہیں۔ عورتوں کو مارکٹنگ کے لیے وسیلہ کے طورپر استعمال کرکے انہیں سامان تجارت کی حیثیت دے دی جارہی ہے۔ فحش اور عریاں گانوں کے ذریعہ عورتوں کو بے حیا بنایاجارہاہے۔ عورتوں سے متعلق ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کی دستاویزات میں دینی و اخلاقی تحفظات کو ختم کردینے پر زور دیاگیا اور یہ باور کرایاگیا ہے کہ مذہب بس ایک موروثی سلسلہ ہے جسے بے چون و چراں قبول کرنے پر عورت بے چاری مجبور ہے۔ اسی طرح ان قراردادوں میں یہ بھی کہا گیا کہ زوجیت اور امومت عورت پر جبر کے ذرائع ہیں۔ گھریلو کام میں عورت ایسی مشقت میں مبتلا رہتی ہے جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔حتی کہ بعض مسلم خواتین گلوبلائزیشن کے پروپگنڈہ سے متاثر ہوکر اساسیاتِ دین پر تنقیدیں کرنے لگی ہیں اور بعض بنیادی تعلیمات مثلاً وراثت، عورت کی گواہی اور عدت وغیرہ کو منسوخ کرنے کا تک مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ ‘‘(حوالہ سابق)
مسلم خاندان پر گلوبلائزیشن کے اثرات صاف محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں مسلم خاندان اختلاف و انتشار کا شکار ہورہے ہیں۔ افراد خاندان میں باہمی مدد کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ربط و تعلق کمزور ہورہا ہے ،خود غرضی اور مفاد پرستی بام عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ہر فرد کو خاندانی مفاد و استحکام سے زیادہ ذاتی مفاد عزیز ہورہا ہے۔ اولاد میں والدین کی نافرمانی تشویشناک حدتک بڑھتی جارہی ہے۔ اولاد ماں باپ کو پسماندہ اور پرانے خیالات کا تصور کرنے لگی ہے۔ دوسری جانب خود ماں باپ میں اولاد کے تئیں ذمہ داریوں کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب ماں باپ اولاد کو اپنی پرتعیش زندگی کے لیے رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں۔ شفقت پدرانہ اور ماں کی ممتا مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی تعمیر سیرت اور روحانی تربیت سے دامن بچاتے ہیں۔ ایک ہی جگہ اور ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے لوگ پڑوسیوں سے کٹے ہوئے رہتے ہیں۔ لفٹوں اور سیڑھیوں سے چڑھتے اترتے بارہا آمنا سامنا ہوتا ہے لیکن بات چیت تو دور سلام تک نہیں کرتے۔ پڑوسیوں کا حسن سلوک قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔ ہر خاندان دوسرے خاندان سے کٹا ہوا زندگی گزار رہا ہے۔ خاندان کے بزرگوں سے نیازمندانہ روابط اور ان کا ادب و احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب گھر کے نوجوان بوڑھوں اور بزرگوں کو بوجھ خیال کرنے لگے ہیں۔ بیت المعمرین جدید کلچر کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ گھر کے بوڑھوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں بیت المعمرین میں شریک کرایا جاتاہے۔
خاندانی انتشار اور خود غرضی اور مفاد پرستی کی بڑھتی وباء نے خاندانی جرائم میں خوب اضافہ کیا ہے۔ باپ کا اپنی اولاد کو قتل کرڈالنا اور اولاد کا باپ کو قتل کرنا، شوہر کا بیوی کو اور بیوی کا شوہر کو قتل کردینا اور محرم رشتہ داروں کے ساتھ بدکاری عام ہورہی ہے۔ گلوبلائزیشن کے ان اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے دینی شعور کی بیداری اور مضبوطی کے ساتھ دین پر عمل آوری ضروری ہے ۔ گلوبلائزیشن دراصل دین بیزاری اور دین سے آزادی کی دعوت ہے۔ اس کا مقابلہ دین پسندی اور شریعت پر سخت عمل آوری کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں علماء اور داعیانِ امت پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مسلم معاشرہ کوگلوبلائزیشن کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اپنی دعوتی و اصلاحی کوششوں میں تیزی لانی ہوگی۔
گلوبلائزیشن کافتنہ اور مسلم خاندانوں پر اس کے اثرات
ADVERTISEMENT