دینی مدارس کی جدید کاری——ایک لمحہ فکریہ

ملک میں قائم ہزاروں دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے. یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان مدارس نے تحریک آزادی میں کلیدی رول ادا کیا ہے. تحریک خلافت ہو یا ریشمی رومال کی تحریک,1857 کی جنگ ہو یا کالا پانی کی سزا ہر میدان میں مدارس کے علماء نے فداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں .دلی کے چاندنی چوک سے لیکر لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر کسی نہ کسی عالم دین کی نہ نعش لٹکی ہو. ملک میں سب سے پہلے علماء ہی نے جنگ آزادی کا طبل بجایا. شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا. شاہ صاحب کے اس فتوی نے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جہاد کی روح پھونکی. مسلمانوں نے اس وقت انگریزوں سے جہاد کا آغاز کیا تھا جب برادران وطن کا خیال بھی ادھر نہیں جاتا تھا.حضرت سید احمد شہید ہوں یا نواب سراج الدولہ یہ سب شخصیات کاروان آزادی کے اولین قافلہ سالار تھے.
آزادی کی جنگ میں مدارس کی اس قدر روشن تارخ کا تقاضہ تھا کہ ملک کی حکومتیں دینی مدارس کو سر آنکھوں پر بٹھاتیں. اور ان کی خدمات کا صدق دل سے اعتراف کرتیں لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے.دینی مدارس ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کی نگاہوں میں ہمیشہ کھٹکتے رہے ہیں. ویسے مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کاسلسلہ بی جے پی کی واجپائی سرکار کے دور ہی سے جاری ہے جب مدارس میں دہشت گردی کا جائزہ لینے کے لیے وزارتی گروپ تشکیل دیا گیا تھا کانگریس دور حکومت میں بھی فرقہ پرستوں نے خوب شور مچایا لیکن موجودہ مودی سرکار اپنی دوسری میعاد میں بہت کچھ حکومتی مداخلت کے عزائم رکھتی ہے. مدارس میں مداخلت اور ان کی خود مختاری پر کاری ضرب لگانے کے لیے حکومت نے مدارس کی جدید کا حسین عنوان تلاش کرلیاہے. ملک کے تعلیمی نظام کو زعفرانے کے لیے ایک طرف نئی تعلیمی پالیسی وضع کی گئی دوسری جانب دینی مدارس کی روح کو مجروح کرنے کے لیے مدرسہ جدید کاری کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے.حکومت کا یہ کہنا کہ جدید کاری سے مدارس کو فائدہ ہوگا محض ڈھکوسلہ ہے.حکومت کو اگر فی الوقع مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ عصری تعلیم میں مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کا منصوبہ بناتی. ملک کی مسلم اقلیت تعلیم میں کس قدر پسماندہ ہے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں .اس کے لیے سچر کمیٹی کی رپورٹ دیکھ لینا کافی ہے. حالیہ نئی تعلیمی پالیسی میں زیادہ سے زیادہ تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ کرنے کامنصوبہ تیار کیا گیا ہے.جس سے غریب مسلمانوں اور دیگر پسماندہ اقوام کے لیے حصول تعلیم جوے شیر لانے سےکم نہ ہوگا. تعلیم کو خانگیانے کا عمل ملک میں فروغ تعلیم کے بجاےاسے اور مشکل بنادے گا.
ملک بھر میں اردو میڈیم اسکولوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں بہار اور دیگر ریاستوں میَں مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے اداروں کی خستہ حالی سے کون نا واقف ہے. مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی پسماندگی کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بنانے کے بجاے جدید کاری کے نام پر دینی مدارس پر حکومتی شکنجہ کسنے کی کاوشیں کسی طور اخلاص پر مبنی قرار نہیں دی جاسکتی.
ویسے مدارس کی جدید کاری کی بات بی جے پی کے مختلف قائدین کی جانب سے بارہا کہی جاتی رہی ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسے عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کرچکی ہے.مدارس کی جدیدکاری کا آغاز بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں عملاً ہوچکا ہے. گزشتہ 5 ستمبر کو ریاست کرناٹک میں اس سلسلہ کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں سرکاری افسران اور ریاست کے نمائندہ علماے کرام نے شرکت کی. میٹنگ میں اقلیتی بہبود کے سیکریٹری ابراھیم اڈور اسکیم کے نوڈل افسر عطاء الرحمان اور ریاستی وقف بورڈ کے خصوصی افسر مجیب اللہ ظفاری نےشرکت کی .مجیب اللہ ظفاری نے اسکیم کی تفصیلات علماء کے سامنے پیش کیں انہوں نے بتایا کہ اس اسکیم کا مقصد مدارس میں معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے.سوال یہ ہے کہ کیا تاحال مدارس میں معیاری تعلیم کا فقدان تھا.دینی مدارس کا مقصد دینی تعلیم کا فروغ ہے اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہیں.معیاری تعلیم سے مراد اگر عصری مضامین کا اضافہ ہے تو بیشتر مدارس میں عصری مضامین کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے. میٹنگ میں اسکیم کے نوڈل آفیسر عطاء الرحمان نے کہا کہ یہ کوئی نئی اسکیم نہیں ہے.مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل میں پہلے سے یہ اسکیم موجود ہے لیکن ڈیڑھ سال قبل اس اسکیم کووزارت فروغ انسانی وسائل سے مرکزی وزارت اقلیتی امور میں منتقل کردیاگیا اسکیم کے نوڈل افسر نے اسکیم مزید روشنی ڈالتے ہوے کہا کہ اس اسکیم کے ذریعہ منتخب مدارس کو ایک وقتی گرانٹ جاری کیا جاے گا. منتخب ٹیچروں کے لیے ماہانہ تنخواہ حکومت کی جانب سے ادا کی جاے گی. دینی مدرسوں میں سانئس لیاب کمپیوٹر لیاب اور اسی طرح عصری تعلیم کے انفراسٹرکچر قائم کرنے کے لیے پانچ لاکھ دس لاکھ پندرہ لاکھ روپیے تعداد طلبہ کے اعتبار سے ایک وقتی گرانٹ جاری کیا جاےگا. عصری مضامین جیسے سائنس علم ریاضی انگریزی اور مقامی زبان سکھانے کے لیےمقرر کیے گیے ٹیچروں کی ماہانہ تنخواہ حکومت کی جانب سے فراہم کی جاے گی.فی ٹیچر کے لیے ماہانہ چھ ہزار تنخواہ مقرر کی گئی ہے ٹیچروں کی تنخواہوں کو ہر سال رینیول کیا جاے گا۔ اسکیم کے تحت آنے والے مدرسوں کے طلبہ کو کورس مکمل ہونے پر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ کا سرٹیفگٹ دیا جاےگا. ریاستی وقف بورڈ کے خصوصی افسر مجیب اللہ ظفاری نے کہا کہ اس سرٹیفگٹ کے فائدے ہیں. دینی مدارس فارغ ہونےکے بعد طلبہ اگر چاہیں تو سرٹیفگٹ کی بنیاد پر پی یو سی اور ڈگری کورسوں میں داخلہ لے سکتے ہیں. ریاستی اور مرکزی ملازمتوں کے لیے بھی طلبہ اہل ہو سکتے ہیں.
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ مدارس میں حکومت اس قدر دخیل ہوگی تو کیا مدارس حکومتی مداخلت سے محفوظ رہ پائیں گے؟ بظاہر یہ ناممکن ہے.ہمارے اکابر نے روز اول سے مدارس کو حکومتی امداد سے اس لیے محفوظ رکھا کہ اس سے حکومتی مداخلت کے راستے کھل جایئں گے. اور حکومتی مداخلت مدارس کی روح کو پامال کردے گی.
حکومت کا مقصد اگر چند عصری مضامین اضافہ کرنا ہے تو مدارس یہ کام خود کرلیں گے.اس کے لیے حکومت کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں.حکومتی امداد سے استفادہ کرنے والے مدارس حکومتی مداخلت سے محفوظ رہیں یہ کسی طرح ممکن نہیں. حکومت اپنی اس اسکیم کے ذریعہ جن مضامین کے اضافہ کی خواہاں ہے بیشتر بڑے مدارس میں یہ مضامین ویسے بھی پہلے سے شامل ہیں حکومت زیادہ سے زیادہ جائزہ لے سکتی ہے کہ آیا یہ مضامین شامل ہیں یا نہیں.
علاوہ ازیں جب ایک ساتھ سائنس ریاضی مقامی زبان وغیرہ مضامین شامل کئے جایئں گے تو لا محالہ مدارس کی بنیادی تعلیم متأثر ہوگی.طلبہ زیادہ دلچسپی انہی مضامین میں لیں گے. اس کے علاوہ جن چند عصری مضامین کے اساتذہ کوحکومت تنخواہ دے گی وہ مدارس کی انتظامیہ کے آگے جواب دہ نہ ہوں گے جس سے مدارس کا نظام خلفشار کا شکار ہوگا .پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے مدارس سے حکومتی الحاق کا مطالبہ کیاجاے.بہت ممکن ہے کہ یوپی اور بہار کی طرز پر دیگر ریاستوں میں حکومتی سرپرستی میں مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں لا جاے.اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مسلم قائدین کو حکومت سے نمائندگی کرتے ہوے مطالبہ کرنا چاہیےکہ اس اسکیم کو لازمی قرار دینے کے بجاے اسے اختیاری رکھا جاے.

Exit mobile version