اردو صحافت آج سوگوار ہے اس لیے کہ وہ اپنے بے لوث خادم سے محروم ہو گئی جی ہاں خان لطیف محمد خان کی وفات اردو صحافت کے لیے کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں ان کے انتقال سے سب سے بڑا خسارہ اردو صحافت کو ہوا ہے۔ خان صاحب نے اردو صحافت کو نئی آب وتاب عطا کی نیا رنگ وآہنگ دیا بلکہ اس کے تن مردہ میں نئی روح پھونکی اور اسے نئی بلندیوں سے آشنا کیا .روزنامہ منصف کو جب سے خان صاحب نے اپنی ادارت میں لیا اردو صحافت نئی کروٹ لی.منصف کے بعد پہلی مرتبہ اردو اخبارات میں ہر دن کے لیے خوبصورت نئے خصوصی ایڈیشنوں کا تصور ابھرا .منصف سے قبل ایسے خوبصورت خصوصی ضمیموں کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا .نوجوان خواتین اور بچوں کے لیے الگ الگ رنگین ضمیموں نے اردو صحافت کو چار چاند لگا دیئے منصف سے قبل اردو اخبارات میں ملٹی کلر ایڈیشنوں کا تصور تک نہ تھا زیادہ تر سنڈے ایڈیشن میں ملٹی کلر کا اہتمام کیا جاتا تھا منصف کی اشاعت نو کے بعد دیگر اخبارات بھی کروٹ لینے لگے. اس طرح بلاک اینڈ وائٹ سے ملٹی کلر تک سفر ایک جست میں ہو گیا. اب ہر اخبار ہفتے کے سات دنوں کے لیے مستقل ایڈیشن شائع کرنے لگا جس سے اردو سے بے اعتنائی کے اس دور میں اردو اخبارات کے قارئین میں قابل لحاظ اضافہ ہوا .منصف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگرچہ دیگر اخبارات بھی خصوصی ضمیمے نکالنے لگے لیکن قارئین جانتے ہیں کہ منصف کے خصوصی ایڈیشنوں سے معیار میں ان کا تقابل کسی صورت ممکن نہیں. دیگر اخبارات کے بعض ایڈیشن واقعتا بہت معیاری ہیں .اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن مجموعی اعتبارسے منصف فائق ہے.مبصف کے تمام ایڈشن چار صفحاتی ہوتے ہیں جبکہ دیگر اخبارات ایک یا دو صفحات پر اکتفاء کرتے ہیں. منصف کے نئی شکل میں اجراء سے قبل اردو اخبارات کے ملازمین کی یافت بہت معمولی ہوا کرتی تھی منصف نےاردو صحافیوں کی تنخواہوں کے معیار کو بلند کیا.
روز نامہ منصف کا سب سے بڑا نشان امتیاز جس نے اسے ہندو پاک کے تمام اخبارات مین غیرمعمولی انفرادیت عطا کی وہ اس کا جمعہ ایڈیشن مینارۂ نور ہے دنیا بھر میں لوگ مینارۂ نور کا شدت سے انتظار کرتے ہیں .جمعہ کو اگر خریدنے میں تاخیر ہو تو اخبار کا ملنا مشکل ہوجاتاہے مینارۂ نور اخبار ہی نہیں مکمل اسلامی میگزین ہوتا ہے جس میں ایک مسلمان کے لیے مطلوب سارا مواد ہوتا ہے اس میں روز مرہ کی زندگی میں لوگوں کو پیش آنے والے مسائل کا حل بھی ہوتا ہے اورسیرت پر مضامین بھی .اس میں اسلامی تاریخ بھی ہوتی ہے اور نئےحالات سےمتعلق مضامین بھی .اس میں مختلف مسلم ممالک کے دلچسپ سفرنامے بھی ہوتے ہیں اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر مشتمل مواد بھی. فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا کالم شمع فروزاں تو مینارہ نور کی جان ہوتا ہے مولانا حالات حاضرہ پر کتاب وسنت کی روشنی بھر پور روشنی ڈالتے ہیں اسلوب نگارش ادبی چاشنی کا حامل ہوتا ہے منصف کا یہ کالم دنیا بھر میں شوق سے پڑھا جاتاہے.مینارۂ نور کے گیسو سنوارنے اور اسے خوب سے خوبتر بنانے کا سہرا دو شخصیتوں کے سر جاتا ہے ایک عالی جناب ایم اے متین صاحب سابق جوائنٹ ایڈیٹر منصف ہیں جنہوں نے اشاعت نو کے روز اول سے مینارۂ نور کو اپنی نگرانی سے سرفراز کیا اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے حتی المقدور کوشش فرمائی متین صاحب خان صاحب کے یار غار ہیں بچپن ہی سے دونوں کی رفاقت رہی ہے.ایک عرصہ تک متین صاحب منصف کے تمام ایڈیشنوں کی سرپرستی کرتے رہے اور ان کےمعیار کو بلند کرنے کے لیے کوشاں رہے.دوسری شخصیت جو مینارۂ نور کی روح رواں ہے اور جن کی خصوصی دلچسپیوں نے اس مذھبی ایڈیشن کو چار چاند لگادیئے وہ رفیق محترم مولانا مبین اعظمی ہیں جو اس ایڈیشن کے مرتب ہیں.متین صاحب کی نگرانی میں مولانا مبین اچھے سے اچھے مضامین کو صفحہ کی زینت بنانے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں ضرورت اور موقع کے لحاظ سے صحیح مضامین کا انتخاب مشکل کام ہوتا ہے.ان دونوں حضرات کی کاوشوں سے مینارۂ نور بہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہے.
جمعہ ایڈیشن کے علاوہ دیگر ایڈیشنوں میں سنڈے ایڈشن نقوش بھی لا جواب ہےجس کے مرتب بھائی رضی الدین ہیں اس کے علاوہ جمعرات کا آئینۂ شہر اور گھر آنگن بھی بہت خوبصورت ہیں جنکے مرتب معروف مزاح نگار حمید عادل ہیں جو کافی عرصہ سے قارئین منصف کو محظوظ کررہے ہیں .روز نامہ منصف کا ادارتی صفحہ بھی امتیازی شان رکھتا ہے بڑے ہی سلیقے تر تیب دیا جاتا ہے وقت اورحالات کے مطابق چشم کشا مضامین اس میں شائع ہوتے ہیں اس کے مرتب صحافتی تجربے کے حامل نوجوان صحافی ضیاء المصور ہیں جو منصف کے اداریہ نگاروں میں شامل ہیں.
خان صاحب کی بالغ,نظری کہیے کہ انہوں نے اپنے اخبار کے لیے قابل لائق شخصیات کی ایک کہکشاں جمع کررکھی ہے.الغرض روز نامہ منصف کے ذریعہ خان صاحب نے اردو کی جوخدمت کی ہے وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی.
خان صاحب کی خدمات کا ایک پہلو یہ ہے کہ روز نامہ منصف کی وجہ سے نوجوان قلم کاروں کو منصف کی شکل میں اپنی قلمی صلاحییتوں کو جلا بخشنے کا موقع میسر آیا اس طرح قلم کاروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی روز نامہ منصف کی وجہ سے قلم کاروں کی خوابیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا.اس وقت ملک بھر میں اردو داں طبقہ منصف سے استفادہ کرکے دین کے صحیح شعور سے بہرہ ور ہو رہا ہے.بہت سے خطباء وائمہ مینارہ نور سے استفادہ کرکے جمعہ کا خطاب کرتے ہیں.ان شاء اللہ اس سب کا ثواب خان صاحب کو پہونچے گا.دعاء ہیکہ خان صاحب کے بعد ان کا لگایا ہوا یہ شجر سایہ دار یوں تروتازہ رہے .حق تعالی خان صاحب کی لغزشوں کو درگزر فرمائے.اور انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے.اور ان کے فرزندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اردو صحافت کا بے لوث خادم چل بسا
ADVERTISEMENT