قلم میں طاقت جنبش نہیں، الفاظ اظہار غم سے قاصر ہیں دماغ جیسے ماؤف ہوچکا ہے، یہاں حرم شریف میں رفیق محترم صدیق مکرم حضرت مولانا احمد معاذ رشادی کے سانحہ فاجعہ کی خبر بجلی بن کر گری، واٹس پر ایک گروپ میں جب اس خبر پر سرسری نظر پڑی تو دل کو یقین نہ آیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں جب سارے گروپوں پر یہی خبر گشت کرنے لگی اور بعض گروپوں پر تصاویر بھی شیر کی گئی تواب یقین کے سوا چارہ کار نہ تھا ،حضرت امیر شریعت علیہ الرحمہ کے سانحہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس دوسرے سانحے نے ملت اسلامیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، دو سال قبل اسی ذوالحجہ کے مہینے میں حضرت امیر شریعت نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا جانشین امیر شریعت بھی اسی مہینے میں رخصت ہوے۔
مولانا احمد معاذ رشادی سے عاجز راقم الحروف کا تعلق دور طالب علمی سے ہے، عاجز کو مادر علمی دارالعلوم سبیل الرشاد میں اول عربی سے ششم عربی تک اکتساب علم کرنے کا شرف حاصل رہا ہے، عاجز کو چند حروف جاننے کی جو اہلیت آسکی ہے وہ دراصل اسی مادر علمی اور اس کے مشفق اساتذہ کا صدقہ ہے، اللہ تعالی مادر علمی کو سدا بہار رکھے اور اس کے اساتذہ کی عمروں میں برکتیں عطاء فرمائے۔
چھ سالہ دور طالب علمی میں مولانا احمد معاذ رشادی رحمہ اللہ کی رفاقت کا شرف حاصل رہا، جب حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے سانحہ کے بعد مولانا احمد معاذ رشادی رحمہ اللہ مادر علمی کے شیخ الحدیث اور مہتمم کے باوقار منصب پر فائز ہوے تو ہم ساتھیوں کی خوشی کی انتہاء نہ تھی ہمارا سر فخر سے اونچا تھا کہ ہمارے رفیق درس کو ایسا منصب جلیل حاصل ہوا، مولانا احمد معاذ رشادی رحمہ اللہ بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے الولد سر لابیہ کے مصداق وہ لائق باپ کے فائق فرزند تھے، بلا کی ذہانت اللہ نے عطاء فرمائی تھی وہ اسباق بہت جلد سمجھتے تھے، ان کاشمار درجہ کے ممتاز طلبہ میں ہوتا تھا، وہ امیر شریعت کے پوتے اور حضرت مفتی صاحب کے فرزند تھے لیکن دور طالب علمی میں عام طلبہ کی طرح رہتے تھے، اساتذہ سے والہانہ تعلق ر کھتے تھے، اساتذہ کے احترام میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے تھے، اسی طرح رفقائے درس کے ساتھ بھی بے تکلفانہ رویہ تھا
مولانا احمد معاذ رشادی رحمہ اللہ کو شروع سے اپنے والد ماجد حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ سے بھر پور استفادہ کا موقع ملا، حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے آخری دنوں میں مدرسے کی بیشتر ذمہ داریاں ان کے حوالے کردی تھیں حتی کہ فتوی نویسی کا کام بھی والد صاحب کی نگرانی میں وہ خود کیا کرتے تھے، عنفوان شباب ہی اللہ نے ان پر بڑی ذمہ داریاں ڈالیں، حضرت مفتی صاحب کے انتقال کے بعد وہ دارالعلوم سبیل ال رشاد جیسے عظیم ادارہ کے مہتمم اور شیخ الحدیث بن گئے، انہوں نے ان ذمہ داریوں کو حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا، وہ تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ مدرسہ کا نظام سنبھالتے تھے، حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد ان کی طرف علماء اور عوام کا رجوع کافی بڑھ گیا تھا جلسوں کے تقاضے بھی بہت ہوتے تھے وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوے ساری ذمہ داریاں نبھاتے تھے، والد محترم کی طرح مزاج میں بڑا انکسار اور تواضع تھا، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے، انھیں حضرت حکیم عبداللہ مغیثی سے خلافت واجازت حاصل تھی، اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا، لیکن قسام ازل انہیں کم عمر عطاء کی تھی، اب سب سے بڑا مسئلہ مادر علمی کی ذمہ داریوں کا ہے، اللہ ادارہ کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے،مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی درجہ عطاء فرمائے، انکے پسماندگان کو صبرجمیل عطاء فرمائے۔آمین
آہ! مفتی اشرف کے جانشیں چل بسے!
ADVERTISEMENT