مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
شریعت ِاسلامی کا سب بڑا امتیاز عدل اور اعتدال ہے ، اُردو زبان میں عدل کے معنی ’’انصاف ‘‘ کے کئے جاتے ہیں ؛ لیکن یہ اس لفظ کی مکمل ترجمانی نہیں ہے ، عدل کے معنی ہر شخص کو اس کی صلاحیت کے لحاظ سے ذمہ داری سونپنے اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے اس کے حقوق متعین کرنے کے ہیں ، ایک شخص پانچ کیلو وزن اُٹھا سکتا ہو اور ایک شخص دس کیلو ، تو عدل یہ ہے کہ دونوں کو اس کی طاقت کے لحاظ سے بوجھ اُٹھانے کا مکلف کیا جائے ، ایک شخص کی خوراک چار روٹی ہو اور دوسرے کی دو روٹی ، تو عدل یہ ہے کہ دونوں کو اس کی ضرورت کے لحاظ سے روٹیاں تقسیم کی جائیں ، جو چیز عدل سے ہٹ جاتی ہے ، اس میں کہیں افراط پایا جاتا ہے اور کہیں تفریط ، اس لئے جو بات عدل کی ہو ، وہی راہِ اعتدال بھی ہوتی ہے ۔
اسلام نے انسانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان فرائض اور حقوق کی تقسیم میں عدل کا طریقہ اختیار کیا ہے ، سماجی اور خاندانی زندگی میں بھی مردوں اور عورتوں سے متعلق جو فرائض اور حقوق مقرر ہیں ، وہ بھی نہایت عادلانہ اُصولوں پر مبنی ہیں اور پوری طرح انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں ، خدا نے اس کائنات کو مساوات اور برابری کے اُصول پر نہ بنایا ہے اور نہ بسایا ہے ؛ بلکہ فطرت نے صلاحیتوں اور ضرورتوں کے اعتبار سے اکثر مواقع پر تفاوت کو قائم رکھا ہے ، انسان اگر اسے مٹانا چاہے تو یہ فطرت سے بغاوت ہوگی اور فطرت سے بغاوت ہمیشہ نقصان ہی پہنچاتی ہے ۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ ’ مسلم پرسنل لا بورڈ ‘ مردوں کا طرف دار ہے ، اور اس کی ساری لڑائی مردوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہے ، یہ بالواسطہ طریقہ پر خود مسلم پرسنل لااور قانونِ شریعت پر حملہ ہے ؛ لیکن حقیقت اس کے بر خلاف ہے ، اگر کچھ نہیں تو بورڈ کے مرتب کئے ہوئے ’ مجموعہ قوانین اسلامی ‘ ہی کو وہ گہری نظر سے دیکھتے ، تو ان کو ہر گز یہ غلط فہمی نہیں ہوتی ، مجموعہ کی دفعہ : ۲ میں نکاح کو مرد و عورت کے درمیان شرعی اُصولوں پر طے پانے والا معاہدہ قرار دیا گیا ہے ، اس طرح مرد و عورت کو اس معاہدہ کا دو فریق تسلیم کیا گیا ہے ، نہ کہ مردوں کو مالک اور عورتوں کو ان کی ملکیت ، نکاح میں عورت کے اختیار اور اس کی رضا کو اہمیت دیتے ہوئے ، نیز اس کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے دفعہ : ۸۴ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں باپ ، دادا کی خود غرضی ، لالچ ، ذاتی مفاد کی رعایت و غیرہ ثابت ہو ، تو اس نے نا بالغ لڑکی کا جو نکاح کیا ہو ، وہ لازم نہیں ہوگا ، دفعہ : ۹۱ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ لڑکی کا ولی بلا عذرِ معقول نکاح سے گریز کرے، تو قاضی یا نسبتاً دور کے ولی کو بھی نکاح کردینے کا حق حاصل ہوگا ، دفعہ : ۱۰۴ میں یہ بات لازم قرار دی گئی ہے کہ عاقلہ ، بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت ہی سے کیا جائے ، ورنہ نکاح درست نہیں ہوگا ، دفعہ : ۱۲۲ میں عورت کو اختیار دیا گیا ہے کہ شوہر اس کا ہم پلہ نہ ہو تو وہ اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہے ۔
اس مجموعہ میں مہر کے احکام بہت تفصیل و تاکید کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ، دفعہ : ۱۲۸ میں کہا گیا ہے کہ اگر عورت سے نکاح کے وقت مہر نہ ہونے کی شرط کرلی جائے ، تب بھی مہر واجب ہوگا ، اگر نکاح کے وقت مہر متعین نہ ہو ، تو مہر مثل یعنی خاندان کی دوسری عورتوں کی مہر کے مقدار میں مہر واجب ہوتا ہے ، دفعہ : ۱۴۸ میں اس کے لئے عورت کے آبائی خاندان کو معیار بنایا گیا ہے ، دفعہ : ۱۵۰ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر مہر معجل ہو ، تو عورت اس کی ادائیگی تک اپنے آپ کو روک سکتی ہے ۔
اسی طرح اس مجموعہ میں نفقہ سے متعلق احکام تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد عورت کے حقوق کا تحفظ ہے ، دفعہ : ۱۶۳ میں کہا گیا ہے کہ بیوی مسلمان ہو یاکتابیہ ، امیر ہو یا غریب ، تندرست ہو یا بیمار ، اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا ، نکاح کے بعد عورت میکہ ہی میں ہو ؛ لیکن اسے اپنے شوہر کے یہاں جانے سے انکار نہ ہو تو دفعہ : ۱۶۶ میں اس کا نفقہ بھی شوہر کے ذمہ واجب قرار دیا گیا ہے ، دفعہ : ۱۷۲ ، ۱۷۳ میں شوہر کی اجازت سے میکہ میں مقیم عورت نیز وہاں رہتے ہوئے اس کا علاج اور ولادت کے موقع پر آنے والے اخراجات شوہر کے ذمہ واجب قرار دئیے گئے ہیں ، دفعہ : ۱۸۲ میں عورت کو اس کا حقدار قرار دیا گیا ہے کہ شوہر کے چھوڑے ہوئے مال سے وہ اپنا نفقہ حاصل کرلے ، اور اگر کوئی مال نہ ہو تو دفعہ : ۱۸۳ کے تحت قرض لے سکتی ہے ، دفعہ : ۱۸۴ میں کہا گیا ہے کہ اگر بیوی نفقہ معاف کردے ، تب بھی اس کا اعتبار نہیں ہوگا ، اور اس کو دوبارہ نفقہ کے مطالبہ کا حق حاصل ہوگا ، دفعہ : ۱۸۸ میں عورت کی پوشاک کے معاملہ میں موسم اور عرف کی رعایت کا حکم دیا گیا ہے ، اور دفعہ : ۱۸۹ میں کہا گیا ہے کہ شوہر پر بیوی کی رہائش کے لئے مناسب حال رہن سہن کی بنیادی ضرورتوں پر مشتمل علاحدہ جگہ دینا ضروری ہے ۔
دفعہ : ۲۰۵ میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور ایذا رسانی سے بچنے ، دفعہ : ۲۰۶ میں اعتدال کے ساتھ ایک دوسرے کی جنسی خواہش پورا کرنے کے واجب ہونے اوردفعہ : ۲۰۸ میں جنسی تعلق میں فطری طریقہ کی پابندی کے احکام ہیں ، دفعہ : ۲۰۹ میں عورت کی اجازت کے بغیر مرد کو نرودھ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے ، دفعہ : ۲۱۰ میں لکھا ہے کہ بیوی کو اسقاطِ حمل یا مانع حمل اشیاء کے استعمال پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ، دفعہ : ۲۰۷ میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر بیوی کو شوہر سے خطرہ ہو ، تو شوہر اسے سفر میں ساتھ لے جانے پر مجبور نہیں کرسکتا ، اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو خوراک ، رہائش ، لباس اور شب باشی میں ان کے درمیان برابری کا سلوک ضروری ہے ، دفعہ : ۲۱۴ ، ۲۱۵ ، ۲۱۶ میں طلاق سے پہلے اصلاحِ حال کی تدابیر بتلائی گئی ہیں ، دفعہ : ۲۱۷ میں بتایا گیا ہے کہ شوہر کے لئے کسی بھی حال میں بیوی کو اپنے گھر سے نکال دینا جائز نہیں ۔
دفعہ : ۲۲۰ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ لڑکی یا اس کے والدین یا اس کے اقارب سے مطالبہ کرکے نقد یا سامان لینا رشوت اور حرام ہے اور اس کو واپس کرنا واجب ہے ، اسی طرح اگر مطالبہ نہ ہو ؛ لیکن عرف و رواج میں لڑکے کو کچھ دینے کی رسم نے شرطِ نکاح کا درجہ حاصل کرلیا ہو ، تو دفعہ : ۲۲۱ میں اسے بھی رشوت اور ناجائز قرار دیا گیا ہے ، دفعہ : ۲۲۲ میں کہا گیا ہے کہ شوہر و بیوی کے اولیاء یا اقارب جو تحفہ دلہن کو دیں ، وہ اسی کی ملکیت ہوگی اور عورت ہی کو اس میں تصرف کا حق حاصل ہوگا ، اگر لڑکی کے باپ نے لڑکی کے لئے سامانِ جہیز فراہم کیا اور نکاح سے پہلے اس کی موت ہوگئی ، تو وہ سامان اسی لڑکی کی ملکیت ہوگی ، دوسرے ورثہ کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا ۔ ( ملاحظہ ہو : دفعہ : ۲۲۶ )
حق پرورش میں ماں اور اس کے قرابت داروں کو ترجیح دی گئی ہے ، ( دفعہ : ۲۳۱ )یہاں تک کہ اگر خلع میں عورت کے حق پرورش سے دستبرداری کی شرط لگادی گئی ہو ، تب بھی یہ شرط باطل ہوگی، (دفعہ : ۲۴۵ ) اگر عورت مطلقہ ہو اور بچہ اس کے زیر پرورش ہو ، تو وہ بچہ کے باپ سے اُجرتِ پرورش ، اور دُودھ پلا رہی ہو ، تو اس کے ساتھ دُودھ پلائی کی اُجرت کی بھی حقدار ہوگی ، (دفعہ : ۲۴۷ ) قانونِ طلاق کے باب ششم میں تفویض طلاق سے متعلق دفعات ہیں ، جس کے ذریعہ عور ت کو اپنے آپ پر طلاق واقع کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔
خلع کا ایک مستقل باب چار دفعات پر مشتمل ہے ، جس میں عورت کے لئے کوئی وجہ بتائے بغیر شوہر سے علاحدگی کی راہ بتائی گئی ہے ، فسخ و تفریق کا باب دفعہ : ۳۲۲ تا ۳۴۴ پرمشتمل ہے ، ان دفعات میں ان عورتوں کی دشواری کا حل پیش کیا گیا ہے ، جو شوہر کی طرف سے ظلم یا حق تلفی کا شکار ہیں ، خواہ یہ حق تلفی قصداً ہو یا عجز و مجبوری کے تحت اور ان صورتوں میں فسخ نکاح کی گنجائش رکھی گئی ہے ، دفعہ : ۳۷۳ شق : ’’ د ‘‘ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر بیوی کو کوئی چیز ہبہ کی گئی ہو ، تو اس سے رُجوع نہیں کیا جاسکتا ، گو زوجین کے درمیان علاحدگی ہوگئی ہو ، قانون میراث میں بیوی ، بیٹی ، بہن ، ماں ، نانی ، دادی وغیرہ کے حقوق تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور اسی طرح بعض لوگ جو بیٹی بہن و غیرہ کو حق میراث سے محروم کردیتے ہیں ، ان کو خواتین کے حق کے سلسلہ میں تنبیہ کی گئی ہے ۔
یہ عائلی زندگی سے متعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مرتب کئے ہوئے ’ مجموعہ قوانین اسلامی ‘ کا سرسری جائز ہے ، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قانونِ شریعت میں خواتین کی کتنی زیادہ رعایت ہے اور بورڈ نے اس کو دفعہ وار مجموعہ کی شکل دے کر خواتین کےحقوق کا تحفظ کرنے کی کتنی بہتر اور مؤثر کوشش کی ہے ؟ اس کے علاوہ بورڈ نے ایک نکاح نامہ بھی مرتب کیا ہے جو طبع ہوچکا ہے ، اس نکاح نامے کا بھی اصل مقصد مظلوم خواتین کے لئے انصاف کو آسان کرنا اور عدالتوں کی سرگرانی سے بچانا ہے ۔
آج جس مغربی تہذیب کو عورت کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے ، اگر گہرائی کے ساتھ سوچا جائے تو اس نے عورت کی تذلیل میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اور آزادی کے نام پر اس کو اِس بات پر مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ فرائض مادری کو بھی ادا کرے اور فریضۂ پدری کا بھی کچھ حصہ اپنے ذمہ لے لے ، اسے بچے بھی پیدا کرنا ہے ، اپنے بچوں کو دُودھ پلانا اور ان کی پرورش کی ذمہ داری بھی انجام دینا ہے ، اُمورِ خانہ داری سے بھی نمٹنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملازمت بھی کرنی ہے اور کسبِ معاش میں بھی ہاتھ بٹانا ہے ، پھر اس کی رُسوائی کا سروسامان اس طرح کیا گیا کہ ماچس کی ڈبیہ سے لے کر زیورات ، کپڑوں اور فلموں کے اشتہار تک ہر جگہ اس کے حسن کو بے حجاب اور غیرت و حیاء کو بے لباس کیا جاتا ہے ، کیا کوئی شریف انسان اپنی ماں ، بہن یابیٹی کو بے لباسی کی حالت میں دیکھنا گوارہ کرے گا ، پھر کیسا ظلم ہے ان جوان اور نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جن سے ان کی غیرت سستے داموں خرید کی جاتی ہے اور ان کی غربت واحتیاج کا فائدہ اُٹھایا جاتا ہے ، افسوس کہ ہمارے نام نہاد دانشوروں کو عورت کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ ستم نظر نہیں آتا ، پھر بے حیائی کے عام ہونے اور مردانہ فرائض کا بوجھ عورتوں پر رکھ دینے کی وجہ سے خاندانی نظام بکھر رہا ہے ، رشتے کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں اور عورت جب اپنی جسمانی کشش کھو دیتی ہے تو سماج میں ایک پرانے اور فرسودہ سامان کی طرح بےقیمت ہو جاتی ہے ، اس پہلو کو یہ حضرات پیشِ نظر نہیں رکھتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامی تمام انسانی طبقات کے khurلئے سایۂ رحمت ہے ؛ کیوں کہ وہ قانونِ فطرت سے ہم آہنگ ہے اور انسان کے لئے وہی قانون اور نظامِ زندگی مفید اور نافع ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت سے مطابقت رکھتی ہو ، اس سے منھ موڑنا ، اپنے لئے انجام کار بر بادی کو دعوت دینا ہے !