(حیدرآبادتشریف آوری کے موقع پر )
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
یہ حقیقت ہے کہ دین بزرگوں کی نظر سے ہی پیدا ہوتا ہے ، اللہ والوں کی صحبت پر اثر سے ہی پڑھا ہوا دین عملی شکل میں زندہ ہوتا ہے ، ورنہ دین کتابوں اور مدارس میں ضرور موجود ہے ، لیکن اس کی عملی حقیقت بزرگوں کی صحبت بافیض سے حاصل ہوتی ہے ۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کتب خانے ، اور مدارس ومکاتب وغیرہ سب بیکار اوربے اثر ہیں، اکبر الہ آبادی کے اس شعر کا مصداق یہ ہے کہ دین کے پیدا کرنے میں کتابوں کا بھی دخل ہے ، کتابیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور مدارس بھی دین کے قلعے ہیں، اس شعر میں در حقیقت دین سے مراد تدین ہے ، دین تو کتابوںاور مداس سے حاصل ہوتا ہے ، تدین بزرگوں کی صحبت بافیض سے حاصل ہوتاہے، جس شعر کی صحیح ترجمانی ماضی قریب کے اولیاء اللہ میں سے ایک عظیم ہستی مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی نے کی ہے ، اس کی کیا ہی بہترین توجیہ آپ نے کی ہے ، اس کی وجہ سے کہیں خدا نخواستہ کچھ اور مفہوم مخالف نہ سمجھ لیاجائے اس کی تاویل کتنی پیاری اور اور مبنی بر حقیقت ہے ۔
"اس کلام میں تاویل کی ضرورت ہے، میں نے اس کویوں سمجھا کہ ایک ہوتاہے دین اورایک ہوتا ہے تدین دین توکتابوں ہی میں ہے، چنانچہ ظاہر ہے، کہ حدیث کاعلم حدیث کی کتابوں میں ہے، فقہی مسائل کاعلم فقہی کتابوں میں ہے، یہ تودین کے متعلق عرض ہے، باقی تدین یعنی دین کاعملی طور پر عامل کے اندر آجانا یہ متدین کی صحبت سے ہوتاہے، چنانچہ متدین اس کوکہتے ہیں، جودین کوعملی طور پر اپنے اندر پیداکرے، یعنی صفت تدین سے متصف ہوجائے، تویہ تدین بغیر متدین کے نہیں ہوسکتا، اس لئے یہ تدین کتاب کی صفت نہیں، بلکہ متدین کی صفت ہے، پس قائل نے یہاں جودین کالفظ استعمال کیاہے، وہ میرے نزدیک اپنے ظاہر پر نہیں ہے، بلکہ تدین کے معنی میں ہے، یابحذف محبت ہے یادین سے ان کی مراد محبت دین ہے، انتھی.. (.تالیفات مصلح الامت)۔
احقر ویسے تو تنہائی پسند، گوشہ نشیں واقع ہوا ہے، برزگوں اور اللہ والوں کی صحبت پر اثر سے استفادہ کا جس کی وجہ سے کچھ زیادہ موقع تو میسر نہیں آیا ؛ لیکن رمضان المبارک میں حضرت قاری امیر الحسن صاحب ؒ کے دور مبارک سے ہی میل وشارم میںآخری عشرہ کے اعتکاف اور وہاں کی پرسکون اور پرفیض روحانی فضائوں میں وقتا فوقتا جانے کاشرف حاصل ہوتا رہا ہے، اللہ والوں کی پر اثر صحبت اور ان کی حقیقت بینی اور ان کے واقعی احوال اور ان کی عملی تطبیق وہیں پر میں نے دیکھی ۔ویسے شہر حیدرآباد کے گل سر سید عارف باللہ حضرت شاہ صاحب کی مجالس میں بھی وقتا فوقتا حاضری ہوتی ہے ، شاہ صاحب سے کچھ مشاورت اور استفادہ کے مواقع بھی میسر آتے ہیں۔
مکرمی ومخدومی محترم حضرت مفتی طاہر صاحب مد ظلہ العالی کی صحبت با فیض میں بھی بیٹھنے اور ان کے کلام اور گفتگو اور خصوصا احادیث کی روشنی میں تصوف اور دل کی صفائی اور ستھرائی اور علم کی حقیقت اس کی عملی تطبیق اور بزرگان دین کے واقعات کی روشنی میں دین کی عملی زندگی کا نمونہ حضرت والا کی زبان بابرکت سے میں نے سنا ہے ، یوں لگتاہے ، زندگی کا حقیقی مصداق اور احادیث کی صحیح توجیہ دل کی صفائی وستھرائی، دل کی گندیوں کے ازالہ ، حسد کینہ وکپٹ اور اخلاص وللہیت پر موقوف ہے ، حضرت کی باحوالہ عربی عبارتوں سے مزین تقاریر اور احادیث کی واقعی احوال وصورتحال پرتطبیق وتوجیہ سے واقعہ کتابوں میں موجود’’ کتاب الزہد‘‘ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ، خصوصا مشکاۃ حضرت کے کئی دہوں سے زیر تدریس رہی ہے ، اس لئے مشکاۃ کی عربی عبارتیں نوک زبان ہیں،ان احادیث کومع عربی متن تذکرہ کے اس کی تطبیق وتوجیہ اور اس کی خوش نما اور بہترین تشریح یوں فرماتے ہیںکہ دل تو چاہتا ہے کہ بس سنتے ہی رہیں اور سر دھنتے رہیں، ایسی پر اثر ، مدلل احادیث وآیات کی روشنی میں مختلف تصوف وسلوک کے راہوں کی توجیہ وتطبیق ، خصوصا علماء میں وہاںجو حضرت کی خصوصی نشستیں ہوا کرتی تھیں، وہ علمی جام سے بھر ہوئی ، ایسا لگتا کہ علماء کو جامِ علم نوش ، شراب تصوف پلا رہے ہیں۔
اس سے قبل حیدرآباد آمد کے موقع سے جو خصوصی خطاب اشرف العلوم میں علم کی اہمیت پر ہوا تھا، بڑا پر مغز اور قابل استفادہ تھا، اسی طرح مدرسہ امداد العلوم ٹین پوش کی مختلف نشستیں بھی واقعہ قابل استفادہ اور علم وعمل اورشریعت وطریقت کی جامع اور قیمتی معلومات اور عملی زندگی میں تحریک پیدا کرنے والی تھی۔
ویسی حضرت سے خصوصی تعلق تو بندے کو نہیں رہا، کچھ عنایتیں اور توجہات اور تھوڑا سا تعارف ،چھوٹی چھوٹی ملاقات میں بڑی بڑی قیمتیں اور پرمغز نصائح سے ضرورنوازتے رہے ہیں، میرے رفیق محترم محترم حکیم جاویدصاحب(جو واقعہ میرے حقیقی دوست اور ہمدم اور بہی خواہ ہیں) کو احقر ایک دفعہ اعتکاف میں رمضان کے موقع سے میل وشارم لے گیا تھا،اس کے بعد وہ بلاناغہ وہاں حاضری دیتے ہیں، محترم رفیق محترم کاخصوصی تعلق حضرت سے رہا ہے ، حضرت کی خصوصی شفقتیں اور عنایتیں ان کے ساتھ ہوتی ہیں، ان کی رفاقت اور صحبت میں مفتی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتا رہا، حضرت تھوڑی سے وقت میں بہت سارے پند ونصائح سے نوازتے ۔حضرت سے رسما بیعت کا بھی تعلق ہے ۔ایک دفعہ کہنے لگے کہ تحریری خدمات تو شاید چل رہی ہوگی ؛ ساتھ میں بزرگوں اور اللہ والوں سے نسبت ہوجائے تو پھر تحریر میں روحانیت آتی ہے ، اس سے مزید افادہ کی راہیں کھلتی ہیں جیسا ہمارے اکابرین کی تحریریں مقبول عام ہیں(اللہ حقیقی استفادہ کی توفیق عطا فرمائے) آمین۔
حضرت کا تعارف :
مفتی محمد طاہر صاحب بتاریخ ۱۵؍ ڈسمبر ۱۹۶۸، گوتم بدھ نکر ، غازی آباد میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد محترم کااسم گرامی ’’ علی رضا ‘‘ ہے ، اور آپ کے وطن کا پورا پتہ اس طرح ہے ، موضع گدالہ ، فیس نمبر : ۲، نوئیڈا، پوسٹ این ، ای ، پی زیڈ(N.E.Z)ضلع گوتم بدھ نکر ،غازی آباد اترپردیش۔
ابتدائی تعلیم:
آپ نے ابتدائی تعلیم جامعہ عربیہ تعلیم الدین پیلڑہ، ضلع غازی آباد سے حاصل کی، پھر آپ مدرسہ خادم العلوم باغوں والی (ضلع مظفر نگر ) تشریف لے گئے اور عربی ہفتم تک وہاں تعلیم کے حصول میں مصروف رہے ، ۱۴۰۷ھ میں دار العلوم میں دورۂ میں داخل ہوئے ، دورۂ حدیث کے بعدآپ دار العلوم ہی میں شعبہ افتاء میں داخل ہوئے ،پھر مزید دو سال شعبہ’’ـتدریب فی الافتاء‘‘ میں بھی بغرض تخصص رہے ، اس طرح آپ نے دار العلوم کی علمی فضاؤں میں چار سال گذارے ، جن میں بیشتر حصہ فقہ وفتاوی کی تربیت اور خدمت میں گذارا۔
آپ کے اساتذہ :
آپ نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ، ان میں سر فہرست فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ( جن سے آپ مجاز بیعت اور عظیم خلفاء میں سے ہیں) مفتی نظام الدین اعظمی ؒ اور مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ قابل ذکر ہیں، اور آپ کے بے شمار شاگربھی ہیں ، جو ملک اور بیرون ملک موجود ہیں، حضرت شاگردوں کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے ہیں، جس سے علمی صلاحیتوں کے پروان کے ساتھ ان کی خصوصی تربیت کا نظم بھی ہوجاتا ہے، اس لئے حضرت کے شاگرد بعد فراغت حضرت سے ہردم لگے رہتے ہیں، حضرت کی زیر تربیت اور حضرت کی صحبت سے استفادہ کی غرض سے خصوصا شاگردوں کا ایک بڑا مجمع میل وشارم بھی حاضر ہوتا رہتا ہے ۔ ایک شاگردِ رشید مولانا محمد مصدق مظاہری نے آثار السنن کی شرح ’’اکمال السنن ‘‘ بھی ترتیب دی ہے ۔
حضرت ایک شاگردرشید انیس احمدانبھیٹوی ، مدرس جامعہ رحمانیہ ، کھامبیہ ، عالیپور ، گجرات نے حضرت کے بیانات کوبنام’’ اصلاحی بیانات‘‘ (خانفاہ محمودیہ میل وشام ) ایک جلد میں تیار کیا ہے ، دیگر بیانات کو اکٹھے کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ، حضرت کی مشکاۃ کی شرح کی تالیف جاری ہے اور اس وقت نیٹ پر دسیتیا ب ہے جو آپ کی درسی افادات ہیں، جن کی اول جلد پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے ، جس کی ترتیب خود حضرت کے زیر نگرانی انجام پارہی ہے ۔
تدریس وفتاوی نویسی کی مشغولیت:
دار العلوم سے تعلیمی سلسلہ ختم کرنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اپنی مادر علمی جامعہ عربیہ تعلیم الدین (غازی آباد ) میں تدریسی خدمت انجام دی، یہ سلسلہ تین سال تک رہا، اس کے بعد فقہ وفتاوی میں آپ کی تربیت سے فائدہ اٹھانے کے لئے دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء میں آپ کا تقرر ہوگیا، اور وہاں استفتاء کے جوابات کے علاوہ شعبۂ افتاء کے طلبہ کی’’الاشباہ والنظائر‘‘ کی تدریس بھی آپ ہی سے متعلق رہی، دار العلوم دیوبند میں بھی آپ کا قیام تین سال رہا، پھر مظاہر العلوم سہارنپور میں ’’علیا‘‘ کی مختلف کتابیں پڑھانے کے لئے آپ کو بلایا گیا، آپ وہاں پر قریبا پچیس سال سے خدمت حدیث اور شعبہ افتاء مظاہر العلوم کی ذمہ داریوں بتمام پورا کررہے ہیں ۔احادیث کی کتابیں زیر درس ہیں، جن میں اس وقت دورہ حدیث میں ابوداؤد( جو حضرت مولانا یونس صاحب جونپوری ؒ کی وفات سے قبل حضرت مولانا عاقل صاحب کے پاس تھی) وہ ابھی آپ سے متعلق ہے ، اس طرح شعبہ افتاء میں ’’الاشباہ والنظائر ‘‘ حضرت سے ہی متعلق ہے۔
آپ کی تواضع وللہیت:
حضرت کی تواضع وللہیت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے ، ایک دفعہ سہارنپور حضرت اقدس کے گھر پر حاضر ہوئی ، ناشتہ کی حیدرآباد کے طرز پر ضیافت کی اور پھر فرمانے لگے، حیدآرباد میں ناشتہ’’ کھانے‘‘ کے انداز میں ہوتاہے، پھر ایک حیدرآباد کے صاحب کے اپنے پاس آنے کے حوالے سے تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے :میں نے ان کے لئے اپنے یہاں کے انداز میں ہلکا پھلکا ناشتہ تیار کیا، تو وہ صاحب کا گھر سے فون آنے پر کہنے لگے ، ابھی ناشتہ نہیں ہوا، مجھ کو مخاطب کرکے اپنی جگہ سے اٹھ کر فرمانے لگے، اس جگہ بیٹھ جائیے(یہ تواضع وخاکساری اور للہیت کے نمونے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں) میں نے کہاں حضرت آپ کا تذکرہ میں نے (فضلاء دیوبند کی فقہی خدمات ، ایک مختصر جائز ہ) میں دیکھا ہے تو فرمانے لگے : عمل سے سب کچھ ہوتاہے ، تذکرے تبصرے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، حضرت کے بیان جمع کرنے والے شاگردنے بیانات جمع کرنے کے تعلق سے دریافت کیا تو فرمایا: بڑے لوگوں کے بیانات جمع کئے جاتے ہیں، چھوٹوں کے نہیں، یہ للہیت ، کسر نفسی ، تواضع کی ایک جھلک ہے ۔
خصوصا تلامذہ کی درس کے ساتھ بہترین اصلاحی تربیت فرماتے ہیں، جس کا دوہرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طلباء مظاہر العلوم میں پڑھنے کے دوران جہاں حضرت کے یہاں زانوئے تملذ تہہ کرتے ہیں، وہیں ان کی بافیض صحبتوں اور تربیت سے استفادہ کرتے ہیں، بعد میں یہ روابط اور تعلقات عملی میدان میںآنے کے بعد اور مضبوط واستوار ہوتے ہیں، حضرت کے ہر علاقہ کچھ ایسے ہونہار اور مخلص تربیت یافتہ تلامذہ ہیں، جو واقعتہ حضرت کی تربیت کا نمونہ ہیں۔
ایسی مخلص ، بے لوث ، للہیت کے جذبہ سے شرسار شخصیات سے استفادہ، ان سے روحانی تعلق، ان کے بیانات اور مجالس کی شرکت یہ کسی بھی مسلمان لئے ناگزیر ہوا کرتا ہے ۔اللہ عزوجل ہمیں بھی ان اللہ والوں کی صحبتوں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔