قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم یادگار اور اسلامی شعائر کا اہم حصہ ہے۔ہم ہرسال قربانی کے ذریعہ سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں اور جو مسلمان اخلاص کے ساتھ،محض رضائے الہی کے لیے اس فریضے کو انجام دیتا ہے، وہ درج ذیل احادیث کے مطابق مغفرت خداوندی اور اجر عظیم کا مستحق قرار پاتاہے۔
1) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: قربانی والے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے نزدیک قبولیت حاصل کرلیتا ہے؛لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔(جامع ترمذی)
2) حضرت زید بن ارقمؓ سے مروی ہے کہ حضرات صحابہؓ نے دریافت کیا:یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے جدامجدابراہیمؑ کا طریقہ یعنی ان کی سنت ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا اجر و ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اون والے جانور میں کیا ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔(مسنداحمد)
3)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقر عید والے دن قربانی پر کیا جا ئے کسی خرچ کی اتنی فضیلت نہیں۔(سنن دارقطنی)
4)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (قربانی کے وقت فرمایا) کہ اے فاطمہ!کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ؛کیونکہ اس کے خون کے پہلے قطرہ کی وجہ سے تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہانے سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ فضیلت صرف ہمارے یعنی اہل بیت کے لیے مخصوص ہے یا سب مسلمانوں کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ فضیلت ہمارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔(الترغیب و الترہیب للمنذری)
عیدالاضحی کی آمد آمد ہے،حجاج کرام مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف ہیں اور مسلمانان عالم نامساعد حالات اور پیہم مصائب ومشکلات کے باوجود محض حکم خداوندی کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے عیدکی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ اس مناسبت سے ضروری معلوم ہوا کہ چند اہم معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جائیں؛تاکہ قربانی کے حوالے سے ہونے والی کوتاہیوں کی نشان دہی ہو اور مکمل اطمینان کے ساتھ ہم اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوسکیں۔
پہلی بات تو یہ کہ مسئلہ کی رو سے ہر وہ شخص جس پر صدقۃ الفطر واجب ہے، اس پر قربانی بھی واجب ہے ۔یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی مال ہونا بھی شرط نہیں ہے، جیساکہ زکوۃ میں شرط ہے۔بل کہ ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ اگر گھر کے سب افراد کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال ہو اور وہ عاقل، بالغ مقیم ہوں تو ہر ایک پر اپنی علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے، اگر نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:جو (استطاعت کے باوجود) قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔(ابن ماجہ)
عام طور پر مسائل سے ناواقفیت کی بنیاد پر صاحب نصاب ہونے کے باوجود بھی لوگ قربانی جیسے اہم واجب میں کوتاہی برتتے ہیں اورسارے گھر انے کی طرف سے ایک قربانی یامرحومین کی جانب سے نفل قربانی اداکرنے پر اکتفا کرتے ہیں؛حالانکہ مسئلے کی رو سے خود ان پر قربانی کرنا واجب اور ضروری ہے۔خاص کر خواتین اس سلسلے میں زیادہ کوتاہی کرتی ہیں اور اپنی قربانی کے سلسلے میں ویسی فکرمندی ظاہر نہیں کرتیں جیسی کرنی چاہیے۔
شرعی مسئلہ کے مطابق اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بعد گنجائش ہو تو اپنے مرحوم اعزہ کے طرف سے بھی قربانی کرے اور ہوسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر سال دو قربانیاں کرتے تھے، کسی نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ ایک قربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی۔
دوسری بات یہ کہ ان دنوں کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سارے احباب اپنے گھروں میں قربانی اداکرنے کے بجائے مختلف رفاہی تنظیموں اور ملی اداروں کو اپنی جانب سے قربانی کرنے کا وکیل بنارہے ہیں،جو فی الواقع ہمدردی،غم خواری اور غرباپروری پر مبنی ایک خوش آئند اقدام ہے؛ مگر اس حوالے سے ہونے والی منافست و تجارت سے باخبر رہنا اور مکمل تحقیق و اطمینان کے بعد ہی کسی کو ذمہ دار بنانا لازم وضروری ہے۔
یاد رکھیں!قربانی کوئی بوجھ نہیں ہے جسے دو ڈھائی ہزار میں چکتا کردیا جائے؛ بل کہ یہ ایک عظیم پیغمبر کی بے مثال قربانی کا دائمی تسلسل ہے ،جسے رب العالمین نے سند خوشنودی عطا فرما کر تاقیامت جاری و ساری کردیا ہے۔ اسی طرح یہاں یہ مسئلہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ بسا اوقات بڑے جانور کی قربانی میں ایسے شرکاء بھی شریک کرلیے جاتے ہیں؛ جن کی آمدنی حرام ہوتی ہے یا ان کا مقصد گوشت خوری ہوتا ہے ایسے لوگوں کو شریک کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، ورنہ سب کی قربانی بے کار ہوجائے گی۔
تیسری بات یہ کہ قربانی کے موقع پر ہم صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں! سرکار دوعالم ﷺنے خلق خدا کو کسی بھی طرح کی تکلیف دینے یا تکلیف کا سبب بننے سے منع فرمایا ہے اور پاکی کو آدھا ایمان قراردیاہے؛مگرہمارے یہاں عموماً جانور کی قربانی کے بعد اس کی آلائش یوں ہی سڑکوں کے کنارے یا پھر گھروں کے باہر پھینک دی جاتی ہے اور صفائی کا خاطر خواہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ عید کے بعد بھی کئی کئی دنوں تک یہی صورت حال دیکھنے میں آتی ہے،بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں کی حالت اس درجہ بدترہوتی ہے کہ کوئی بھی نفاست پسند شخص وہاں سے گزرنابھی پسندنہیں کرتا۔
آلائشوں کا اس طرح کھلا رہنا جہاں ہم سب کے لیے بہت بڑاعیب ہے ،وہیں ہماری صحت کے لیے بھی نہایت مضرہے۔ صاف صفائی صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں؛بلکہ بہ حیثیت مسلمان ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم عید کی خوشیوں میں اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور اردگرد کے ماحول کو بھی صاف رکھیں،اس سے ایک اچھا پیغام لوگوں تک پہونچے گا جو ان کے اسلام سے قرب و نزدیکی کا سبب بنے گا۔ان شاء اللہ
چوتھی اور آخری بات یہ کہ لاک ڈاون کے بعد سے نہ صرف ملکی بل کہ عالمی معیشت پر جو کاری ضرب پڑی ہے وہ عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے۔ان حالات میں مسلم سماج اور خاص کر ہندی مسلمانوں کے لیے پاور ہاؤز کا درجہ رکھنے والے مدارس اسلامیہ کا وجود بھی خطرات واندیشوں میں گھرا ہوا نظر آرہا ہے،ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم مستقبل میں تحفظ دین و ایمان کی ِخاطر مدارس دینیہ کا بھرپور تعاون کریں۔
ہم بہ خوبی جانتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ اپنے لاکھوں اور کروڑوں روپیے کے سالانہ بجٹ کی تکمیل یا تو رمضان شریف میں مخیر افراد کی زکوۃ،صدقات اور عطیات کے ذریعہ ہوتی ہے یا پھر بقرعید میں چرم قربانی کے ذریعہ۔سال رواںرمضان میں لاک ڈاون کی وجہ سے فراہمی مالیہ کا سلسلہ موقوف رہا اور ادھر بقر عید میں پچھلے دوسال سے کھالوں کی قیمت مستقل کم ہوتی جارہی ہے۔ گذشتہ سال تو ایسا بھی ہوا ہے کہ کچھ جگہوں پر مفت میں بھی کوئی کھال لینے والا نہیں ملا، بعض علاقوں میں اہل مداراس کو جمع شدہ کھالیں ضایع کرنے کے لئے بھی الگ سے رقم خرچ کرنی پڑی۔
سال گذشتہ ایک تجویز یہ آئی تھی کہ قربانی کرنے والے افراد مدرسوں میں کھال کے ساتھ نقد رقم کے ذریعہ مزید اعانت فرمائیں، الحمد للہ بہت سے اہل خیر نے اس پر عمل کیا جس کی وجہ سے چرم قربانی کی ارزانی سے ہونے والے مدرسوں کے نقصان کی کسی حد تک تلافی ہوسکی۔
امسال بھی قربانی کرنے والے برادران اسلام سے گزارش ہے کہ وہ چرم قربانی کے ساتھ نقد رقم کے ذریعہ مدرسوں کا تعاون فرمائیں؛تاکہ مدارس اسلامیہ اپنے مقاصد پر گامزن رہتے ہوئے حسب سابق قوم وملت کی خدمت انجام دے سکیں۔