قربانی،ہرصاحب استطاعت پر واجب ہے!

‘‘ذی الحجہ’’ اسلامی سال کاسب سے آخری مہینہ ہے؛جو ماہ رمضان کے بعد عظمت وفضیلت میں اپنی نمایاں شان اور منفردشناخت  رکھتاہے، اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہرمسلمان کے دل میں اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے؛جوجلیل القدرپیغمبرحضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادےنےپیش کی،جس کی مثال پیش کرنےسے تاریخ عاجزوقاصرہے۔

‘‘ قربانی’’ مذہب اسلام کا ایک خصوصی وصف و شعار اور قرب خداوندی حاصل کرنے کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ سرکاردوعالمﷺزندگی بھرپورےاہتمام کے ساتھ اس عبادت کو انجام دیتے رہے اور وقتاًفوقتاًاس کی ترغیب بھی فرماتےرہے۔

قربانی کا حکم:

چاروں امام اورتمام علماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں، البتہ قربانی کو واجب یا سنت موٴکدہ کانام(Title)دینے میں زمانہٴ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس کے واجب ہونے کافیصلہ فرمایا ہے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی قربانی کو واجب قراردیتےہیں، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ البتہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت نے بعض دلائل کی روشنی میں قربانی کے سنت موٴکدہ ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے؛ لیکن عملی اعتبار سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کا اہتمام کرنا چاہئے اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنا غلط ہے خواہ اس کو جو بھی نام دیا جائے۔

وجوب قربانی کے دلائل :

۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے  :فصل لربک وانحر یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے !(الکوثر:۲)

علامہ ابوبکر جصاص رازی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :

آیت سےدو باتیں معلوم ہوئی ایک تو یہ کہ نماز عیدواجب ہے اوردوسرے یہ کہ قربانی بھی واجب ہے ۔

( احکام القرآن للجصاص :ج 3 ص 419 )

اسی طرح حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب ؒ  تحریرفرماتے ہیں :

فصل لربک سے جس طرح نماز عید کا واجب ہوناثابت ہوتا ہے اسی طرح ’’وانحر‘‘ سے قربانی کا واجب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

(اعلاء السنن ج ۱۷،ص ۲۱۹)

۲) عَنْ اَبیْ ھُریرہ قال قال رسول اللہﷺ مَنْ کَان لَهُ سِعَة فَلَمْ یضح فَلا یقربن مصلانا۔

ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا نے فرمایا: ’’جو استطاعت کے باوجود بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے ‘‘(سنن ابن ماجہ رقم : ۳۱۲۳قال العینی وأخرجہ الحاکم وقال صحیح الاسنا د)

اس روایت سے معلوم ہوگیا کہ قربانی ہر صاحب نصاب پر واجب ہے ورنہ اس کے چھوڑنے پر آپ ﷺ اتنی سخت وعید نہ فرماتے ۔

۳) عن جُنْدَبَ بْنَ سُفْيَانَ البَجَلِيَّ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ: «مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى….۔

حضرت جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید الاضحی کے دن حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے) ذبح نہیں کیا تو اسے چاہیے کہ وہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کرے۔

(صحیح بخاری۔ باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد)

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کی نماز سے قبل جانور ذبح کرنے پر دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا؛ حالانکہ اُس زمانہ میں صحابہٴ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی،معلوم ہواکہ واجب ہونے کی بناء پر ہی دوبارہ قربانی کا حکم دیا گیا ،اگر سنت ہوتی تو اعادہ کا حکم نہ ہوتا ۔

۴) عَنْ عَامِرٍ أَبِي رَمْلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً۔

ترجمہ :حضرت عامر سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ مخنف بن سلیم نے ہمیں بتلایا کہ عرفات کے میدان میں آنحضرتﷺ نے فرمایا:ہر سال ایک دفعہ ہر اہل خانہ پر قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔(رواہ النسائی )

ان دلائل کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل ہیں ؛جن سے صاف پتہ چلتاہےکہ ہر وہ شخص جو متوسط گھرانے کا ہو(فقہاءکی اصطلاح میں جس پر صدقۃ الفطرواجب ہو)اس کے لئے قربانی دینا واجب ہے ۔

جہاں تک ابن ماجہ اور ترمذی کے اس اثر کا تعلق ہےجو حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ ہم ایک بکری کی قربانی کرتے جس کو آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرتا یہاں تک کہ لوگوں میں مفاخرت شروع ہوگئی جس کے نتیجہ میں وہ صورت حال ہوگئی جس کا تم مشاہدہ کررہے ہو ۔

تو یہ نفل قربانی پر محمول ہے اور سب لوگوں کی جانب سے قربانی کا مطلب اجر و ثواب میں شریک کرنا ہے جیساکہ مشہور روایت میں ہےکہ رسول اکرم ا نے دومینڈھوں کو ذبح کیا ان میں سے ایک اپنی واجب قربانی کے طور پر تھا اور دوسرا نفل کے طور پر(برائے ایصال ثواب)(کما فی التعلیق الممجد)۔

ورنہ اگر قربانی صرف سنت ہوتی اور پورے گھر والوں کی جانب سے ایک فرد کا قربانی کرنا کافی ہوجاتاتوپھر حضرت ابوہریرہؓ والی روایت ’’من وجدسعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘میں ’’من وجد سعۃ ‘‘(جو صاحب استطاعت ہو) کا کیا مطلب؟؟؟؟

علاوہ ازیں حضرت ابوایوب انصاریؓ کی روایت میں قربانی کو واجب قربانی بھی مان لیا جائےتو امام طحاوی ؒنے شرح معانی الاثار میں واضح دلائل کے ذریعہ اس کو منسوخ ثابت کیا ہے(شرح معانی الاثار)

اخیر میں اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ  ہمیں قربانی کی اہمیت وحکمت کو سمجھنے اور اخلاص کےساتھ اس کو انجام دینے کی توفیق عطافرمائے ،آمین

Exit mobile version