حقیقت خرافات میں کھو گئی؛ آخری چہارشنبہ سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ

اللہ رب العزت نے جو احکام بندوں پر عائد کئے ہیں،علماء امت نے انہیں غور وخوض کے بعد پانچ شعبوں میں تقسیم فرمایاہے: عقائد، عبادات، معاملات،معاشرت اور اخلاق۔ دین ان پانچ شعبوں سے مکمل ہوتا ہے،اگر ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیاجائے تو پھر دین ناقص رہ جائے گا ؛اسی لیے عقائد بھی درست ہونے چاہیے، عبادتیں بھی صحیح طریقے سے انجام دی جانی چاہیے،لوگوں کے ساتھ لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات بھی شریعت کے مطابق ہونے چاہیے، باطنی اخلاق بھی عمدہ و آراستہ ہونے چاہیے اور زندگی گزرانے کے طریقے بھی سنتوں کے موافق ہونے چاہیے ۔

ان پانچ شعبوں میں سب پہلا نمبر ایمانیات کا ہے؛جو بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتےہیں،ایک مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ عقائد کے اعتبار سے مضبوط اور مستحکم ہو؛کیوں کہ عقیدے کا بگاڑ دیگر تمام شعبوں میں اثرانداز ہوتا ہے،اس سے عبادتیں بھی متاثر ہوتی ہیں ،معاملات و معاشرت پر بھی فرق آتا ہے اور اخلاقیات پہ بھی زد پڑتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ ہر مسلمان اللہ تعالیٰ ہی کو مختار کل جانتا اور قادر مطلق مانتاہے جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا،اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے ، پھر صبر و تحمل سے کام لے ، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے ، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے رضا بر قضا کے سوا لبوں کو جنبش نہ دے تو اللہ تعالٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے، وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر جزا دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ ایسے شخص کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے ، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا ۔

اس تعلق سےقرآن مجید میں متعددمقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے،جیساکہ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں : ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔(الروم )ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے : ”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔(الشوری)

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ: اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔

اسی طرح متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن کے ساتھ اللہ کے معاملہ پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لئے بہتری ہوتی ہے،وہ نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کے ذریعہ بہتری سمیٹ لیتا ہے ، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ انہوں کہا حضرت میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں! آپ نے فرمایا جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو، تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے ۔اسی طرح ترمذی شریف کی ایک روایت جو حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہےاس میں حضور اقدس ﷺکافرمان ہے :اس بات کا یقین کرو کہ اگرساری اُمت جمع ہوکر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہے تو بجز اللہ تعالیٰ کے تمہیں نہیں پہنچا سکتی۔مگر وہیں جو اللہ نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہو۔ اسی طرح پوری امت مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہو یعنی نفع و نقصان اللہ کے اختیار میں ہے۔

مذکورہ بالا نصوص سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اللہ نے کسی بھی زمان و مکان میں فی نفسہ نقصان و خسران نہیں رکھا،کسی بھی ماہ و سال میں کوئی نحوست و برائی نہیں ہے،کوئی بھی دن یا ہفتہ نزول مصیبت و آفت کے لیے متعین نہیں کیاگیا۔ہاں !برائی تو انسان کے اعمال میں ہے،خشکی و تری کا فساد بندوں ہی کے غلط کردار کا نتیجہ ہے، مصیبتوں وبیماریوں کااترنا مخلوق ہی کی بدعملیوں کا خمیازہ ہے۔اگر ہم خود کو درست کرلیں،اپنے آپ کو سدھار لیں اور حکم خداوندی کے آگے سرنگوں ہوجائیں تو پھر برکت ہی برکت اور خیر ہی خیر ہمارا مقدر ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ:

یہ بات نہایت قابل افسوس ہے کہ وہ ملت اسلامیہ جس کو اللہ تعالی نے معتدل ملت اوربہترین امت کے بلندپایہ القاب سے نوازا؛ جس کی بعثت ہی خیر و بھلائی کی تبلیغ ودعوت،معروفات کی نشر و اشاعت اور رسوم وبدعات کے ازالے کے لئے ہوئی اور جس کے حق میں یہ کہا گیا کہ "تم بہترین امت ہو، جس کو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے برپا کیا گیا ہے ،تم اچھی باتوں کا حکم کرتی اور بری باتوں سے روکتی ہو اور خود بھی اللہ پر ایمان لاتی ہو” (آل عمران: ۱۱۰)آج اس امت کا ایک بڑا طبقہ جاہلیت و جہالت،گمراہی و بدعقیدگی کی ان وادیوں میں بھٹکتا اور ان تاریکیوں میں ٹھوکریں کھاتا دکھائی دے رہاہے؛جن رسوم و رواج کے سلسلہ میں آپ ﷺنےببانگ دہل یہ اعلان فرمایا:یاد رکھو! جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔

آج مسلمانوں میں وہی بے ایمانی و بے یقینی ، وہی خدا سے بعد و دوری ، وہی مادیت پرستی و دنیا طلبی ، وہی رسوم و رواج کے بندھنوں میں جکڑے رہنے کی عادت،وہی روایات وخرافات کی الجھنوں میں پریشان رہنے کا مزاج،بڑھتا اور پنپتا جارہاہے،ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں او رعلماء کی نگرانی میں اسلامی تعلیمات کا ازسرنو مطالعہ کریں!

آخری بدھ کی حقیقت:

ماہِ صفرکے تعلق سے لوگوں کے درمیان رائج نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نےتیرہ دن کے بعد غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں خاص مقامات پر چہل قدمی کی جاتی ہے، مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے؛ حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔اتنی بات تو صحیح ہے کہ آپ ﷺاپنے مرض الوفات میں تیرہ دن بیمار رہے ؛مگریہ تیرہ دن کون سے تھے؟ اس سلسلہ میں اکثرعلماءکاقول یہ ہے کہ یہ صفرکے آخری اور ربیع الاول کے ابتدائی ایام تھے،جیساکہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کی فتح الباری اور علامہ ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ سے واضح ہوتاہے۔اس بنیادپر صفرکے ابتدائی تیرہ ایام کو منحوس سمجھنا ہی غلط ہے کیوں کہ حضورﷺان میں بیمار ہی نہیں ہوئےاوراگر بالفرض یہ مان لیں کہ آپ صفر کے ابتدائی دنوں میں ہی بیمارہوئے یایہ کہ مرض وفات کے علاوہ کسی اورموقع پران دنوں میں آپ بیمارہوئے ،توکیااس کی وجہ سے ان دنوں کویا صفرکے مہینے کومنحوس سمجھنادرست ہوگااورکیابیماری کو منحوس خیال کرنا یایہ سمجھنا کہ بیماری نحوست سے آتی ہے صحیح ہوگا؟ اس پربھی ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں عرض ہے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہ خود بیماری منحوس ہے اورنہ ہی یہ نحوست سے آتی ہے؛بل کہ مومن کے لیے یہ سراسر رحمت ونعمت ہے اوراللہ کی طرف سے آتی ہے۔ چناں چہ احادیث شریفہ میں اس کاذکرمتعدد مقامات پر موجودہے۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ جس شخص کے ساتھ بھلائی کاارادہ فرماتے ہیں ،اسے مصیبت(بیماری) میں مبتلاکردیتے ہیں۔(بخاری)

(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم علیہ السلام کی خدمت میں آپ کی بیماری کے زمانے میں حاضرہوا اورعرض کیاکہ آپ کو توسخت بخارہے۔ آپ نے فرمایاکہ ہاں! مجھے تنہا تم میں سے دوکے بر ا بر بخار ہے۔ میں نے عرض کیا، یہ شاید اس لیے کہ آپ کو دواجر(ثواب) ملیں؟ فرمایا کہ ہاں یہ اسی لیے ہے اوراس لیے کہ مسلمان کوکانٹایااس سے بھی کم کوئی (تکلیف) چیزپہنچتی ہے ،تواللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کاکفارہ (بدلہ) بنادیتے ہیں، جیسے خشک درخت کے پتیّ گرتے ہیں(گناہ بھی ایسے ہی گرتے ہیں)(بخاری)

(3) اوربعض روایات میں ہے کہ بیماری سے اجروثواب اوردرجات کی بلندی نصیب ہوتی ہے ، جیساکہ مسلم شریف میں متعددروایتیں مذکورہیں۔(مسلم)

(4) ایک حدیث میں ہے کہ مومن کے معاملے پرتعجب ہے کہ اس کی ہربا ت خیرہی خیرہے،اگراسی کوخوشی حاصل ہوئی اوراس نے اس پر شکرکیاتویہ اس کے لیے بھلائی اورخیرہے،اوراگراس کو تنگی وپریشانی ہوئی اوراس پر اس نے صبرکیاتویہ بھی اس کے لیے بھلائی اورخیرہے۔(مشکوۃ)

(5) حضرت ام السائب رضی اللہ عنھا بیمارتھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے ،دیکھاکہ وہ ٹھٹررہی ہیں۔ پوچھاکہ کیاحال ہے؟ انہوں نے کہاکہ بخار ہے ، اللہ اس میں برکت نہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بخار کوبرابھلانہ کہو ، یہ انسانوں کے گناہوں کو اس طرح ختم کردیتی ہے،جیسے بھٹی لوہے کے میل کو صاف کردیتی ہے(مسلم)

ان سب سے معلوم ہواکہ بیماری خداکی طرف سے آتی ہے اوریہ اُسے آتی ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرناچاہتے ہیں، اوریہ کہ محض رحمت وبرکت ہے جس سے گنہ گاروں کے گناہ دھل جاتے اورنیکوں کے درجات بلندہوجاتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ماہِ صفر کے آخری چہارشنبہ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام کی پھیلائی ہوئی سازش ہے۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور امکان بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔

Exit mobile version