رمضان کا مبارک مہینہ اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا تھا،کرونا وبا کی خوف ناک یلغار حیات انسانی کونیست ونابود کررہی تھی، سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث گلزار ہستی کے خوب صورت غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر تی جارہی تھی جس طرح گرد آلود آندھی کے تیز و تندبگولے شاخ گل پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواںتتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ابتلا و آزمائش اور ذہنی و و روحانی کرب و اذیت کے اس زمانے میں جب کہ بہت سی نابغۂ روزگار ہستیاں سوئے عدم رواں تھیں،استاذ محترم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ بھی۲۰؍رمضان۱۴۴۲ھ مطابق ۳؍ مئی ۲۰۲۱ءصبح سواتین بجے راہئ ملک بقا ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ مولانا نور عالم خلیل امینیؒ کون تھےاور کن عناصر سےتشکیل پاکر ان کی ذات معرض وجود میں آئی تھی تو میںبلاتامل کہوں گا کہ علم وفضل،متانت و شائستگی،محبت و کرم نوازی،حساسیت و اصول پسندی،شرافت و وضع داری اور ظرافت و خوش طبعی جیسی مجموعی صفات کو یکجا کردیا جائے تو جوپیکر خاکی ابھر کر سامنے آتا ہے،وہی حضرت الاستاذمولانا نورعالم خلیل امینی رحمہ اللہ کی ذات والا صفات ہے۔ذیل میں حضرت الاستاذ کی بعض ان نمایاں خصوصیات و امتیازات کا تذکرہ مقصود ہے جومادر علمی دارالعلوم دیوبند میں تکمیل ادب کے سال راقم السطور کے مشاہدے اور تجربے میں آئےاورجن کی عبقریت و نابغیت کا ایک عالم گواہ ہے۔
معصوم سراپا
گندمی رنگت، متوسط قد وقامت اور ایسی وجیہ و پُرکشش شخصیت کہ سیکڑوں شرکائے محفل میں بھی ممتاز اور منفرد دکھائی دے۔ کم آمیز، کم گو، بُردبار، مہذب، شائستہ، سلیقہ مند، نرم رو، خوش پوشاک، معتدل اور متوازن مزاج۔
حیدرآبادکےایک معروف ادیب ومزاح نگار کے بہ قول: کچھ انسان وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم بہ صد اشتیاق گھنٹوں دیکھ تو سکتے ہیں؛ کیوں کہ یہاں معاملہ ’’ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ‘‘ والا ہوتا ہے؛ لیکن ان سے ملتے ہوئے ہمیشہ ڈرلگتا ہے کہ مبادا کہیںکوئی گستاخی نہ ہوجائے۔شایدخوف کی اسی کیفیت کے سبب راقم السطور کوتکمیل ادب کے سال درس میں شرکت و استفادے کے علاوہ حضرت مولانا سے راست ملاقات کے مواقع کم ہی میسر آئے؛البتہ میقات ثانیہ میں درس کے لیے آتے جاتے ہوئے آپ کی ہر روز زیارت ہوتی،بالخصوص جمعہ کے دن بہ پابندی آپ کو مسجد قدیم کے بالائی حصے میںپورے اہتمام کے ساتھ اول وقت پہونچ کر مصروف عبادت دیکھتااورآپ کی نستعلیق شخصیت کےدیدارسے دل کے نہاں خانے میں مسرت کا غیرمعمولی احساس ہوتا۔
اقلیم ادب کا تاج دار
ایک بے ادب کی کیا مجال کہ وہ حضرت الاستاذ کے اسلوب نگارش اور ادبی خصوصیات و امتیازات پر روشنی ڈالے؟ہاں! مگر اتنا ضرور عرض کیاجاسکتا ہے کہ آپ اپنے مخصوص طرز کے بانی بھی ہیں اور خاتم بھی۔آپ نے اپنی مستقل تالیف’’وہ کوہ کن کی بات‘‘سے اردو ادب کے میدان میں قدم رکھا پھر آپ کا اشہب قلم مقبولیت کی تمام سرحدیں پھلاندتا ہوا بے تکان آگے بڑھتا رہا،آپ کے گہر بار قلم سے: پس مرگ زندہ،کیااسلام پسپا ہورہاہے،صحابۂ رسول؛ اسلام کی نظر میں،حرف شیریں،موجودہ صلیبی اور صہیونی جنگ،اور فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں جیسی علمی،ادبی اور تحقیقی تخلیقات منظر عام پر آئیں اور قبولیت عام و بقائے دوام کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئیں۔ہمیں آپ کی تحریروں میں سلسبیل سی روانی،کوثر و تسنیم سی چاشنی،غیرمعمولی معنویت و اثر آفرینی، گہری سحرکاری و شائستگی کے ساتھ ساتھ ہرہر لفظ میں ایک جہانِ معنی آباد کرنے کی بھرپور صلاحیت نظر آتی ہے۔جملوں کی مناسب ترتیب، استعارات و کنایات کا خوب صورت استعمال،برمحل اشعار سے استدلال آپ کی تحریروں کا وہ خاصہ ہے جو قاری کو اکتاہٹ کی وادی تیہ سے گزرنے نہیں دیتا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کی جملہ تخلیقات کو کسی ایک ادبی نگار خانے تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔آپ کی زنبیلِ لفظ و معنی میں شگفتہ نثر نگاری کا خزانہ بھی ہے، تحقیق و تنقید کے جواہر بھی ہیں اور شعر و سخن کا خوش رنگ اثاثہ بھی۔دراصل آپ کی شخصیت میں جو بانک پن اور فطرت میں جو شوخی ہے وہی آپ کے قلم کی شناخت ہے۔آپ نےکم وبیش دو درجن کتابیں بہ طور یادگار چھوڑی ہیں جو آپ کے فکر و فن اور خاکہ نویسی و انشا پردازی کا عمدہ نمونہ ہیں۔آپ کی تمام کتابیں خواہ وہ سوانح نگاری اور خاکہ نویسی کےموضوع پرہوںیا تاریخی و تحقیقی نوعیت کی ہوں اپنے موضوع پر جامع و محیط ہونے کے ساتھ ساتھ علمی نکات، مذہبی اشارات، تاریخی بصائر، اخلاقی بصیرت کا گنجینہ نیز بداعت اسلوب اور لطافت بیان کا خزینہ ہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ مولانا کا اسلوب تحریر عربی اور اردو، دونوں زبانوں میں بڑی یکسانیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دل کا جو درد ہے وہ تو ایک ہی ہے، اب چاہے وہ کسی بھی زبان میں اظہار کا جامہ زیب تن کرے،درونِ ذات کا جو اضطراب ہے، محض زبان کا اختلاف اس کی کیفیت اور شدت کو تو نہیں بدل سکتا، بطور خاص اس وقت جب قلم کار کو دونوں زبانوں پر یکساں قدرت اور مکمل عبور حاصل ہو۔
تنظیم وقت
حضرت الاستاذبے حد منظم اور بااصول شخص تھے۔خود بھی پابندی وقت کا بڑا اہتمام فرماتے اور دوسروں سے بھی بہ اصرار اس کا مطالبہ کرتے۔پیشگی اجازت کے بغیرکسی کو آپ کے ہاں باریابی کا شرف حاصل نہ ہوتا۔آپ نے اِسی نظم وضبط اور اصول وضوابط کی روایت کو اپنے تلامذہ اور قریب رہنے والوں میں پروان چڑھانے کی کوشش کی؛جس کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ طرفین کو سکون و راحت حاصل ہواور کسی کو اذیت و تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آپ کا احساس تھا کہ نظم و ضبط اور اصول پسندی کے بغیر کوئی کام مکمل ومستحکم نہیں ہوسکتا۔حضرت الاستاذ نے عربی اور اردو میں علمی،تحقیقی اور تاریخی نوعیت کا جتنا کچھ اثاثہ چھوڑا ہے وہ سب تنظیم وقت کی برکت اور منظم زندگی گزارنے کا ثمرہ ہے۔
مردم گری و رجال سازی
حضرت مولانا کا امتیازی وصف(جوآپ کوحضرت کیرانویؒ جیسے عہدساز مربی اور شفیق استاذ سے ورثے میں ملا) یہ تھا کہ آپ طلبہ کو ان کے فرض منصبی سے واقف کراتے،ان کی تربیت و ذہن سازی کرتے،انہیں میدان علم و عمل میں ترقی کی راہیں سجھاتے نیز تمام طلبہ کو بالعموم اور تعلق رکھنے والوں کو بالخصوص علمی رہنمائی کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے بھی آگاہ کرتے،انہیں جہان اغراض و مفادات میں جینے کے گر سکھاتے اور اپنے آپ کو فنا فی العلم کردینے کی تاکید و وصیت فرماتے۔آپ کے دست ہنر کی کاریگری اور حسن تربیت کا ثمرہ ہے کہ آج ملک و بیرون ملک آپ کے ہزاروں تلامذہ گیسوئے علم وادب کو سنوارنے اور گلشن عربی کو سیراب کرنے کی اہم ترین سرگرمیوں سے نہ صرف وابستہ ہیں؛بل کہ اپنے اپنے میدان میں نمایاں شناخت حاصل کرچکے ہیں۔عربی ادب کی درس گاہ میں ’’مختارات‘‘ پڑھاتے ہوئے آپ بار ہا طلبہ سے یہ فرمایاکرتے :عربی اخبارکی یہ تعبیر جو ابھی بتلائی گئی ہے کتاب کی تعبیر ہےاور کتاب ہی میں رہے گی؛مگر آپ لوگ جب اس تعبیر پرمشق کریں گے،جملے بنائیں گے او ر آپس میں مذاکرہ کریں گے تو یہ تعبیر آپ کی ہوجائے گی۔
الغرض حق تعالی نےآپ کو ایسا ملکہ، ایسی فہم اور مردم شناسی ورجال سازی کی وہ صفت عطا فرمائی تھی کہ آپ چن چن کے ایسے آفتاب و ماہتاب اپنے اردگردجمع کرتے تھے جو کہکشاؤں کا ایک نورانی،علمی اور فکری جھرمٹ معلوم ہوتاتھا۔جو طالب علم بھی آپ کی خدمت میں مستقل حاضری دیتاو ہ آپ کی تحریض و ترغیب سےقلم کار ومضمون نگار بن جا تا ۔
عربی زبان کے عاشق زار
عربی زبان دنیا کی ان زندہ،پایندہ اور درخشندہ زبانوں میں سے ہے جس کے پڑھنے، بولنے اور اس عظیم میراث کی حفاظت کرنے والوں کی تعداد روز اول سے زیادہ رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بلاد عربیہ کی ادبی شخصیات نے جس طرح عربی زبان و ادب کے گیسؤوں کو سنوارا، اس کے نوک وپلک کو درست کیا اور اس میں نثر و نظم کے حوالے سے قابل قدر اضافےکیے، وہیں پر عرب سے دور سمندر پار برصغیر ہند و پاک کا ادب نواز طبقہ بھی اس کاز میں اہل عرب کا شریک و سہیم رہا۔بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور اس کے فضلاء نے گزشتہ نصف صدی میں اس حوالے سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں واسطہ بالواسطہ اس کی کڑیاں حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمہ اللہ سے ملتی ہیں؛جن کے قابل فخر تلامذہ میں سرفہرست حضرت الاستاذ بھی ہیں جن کی عربی دانی اور زبان و ادب پر غیر معمولی دست رس کا معترف نہ صرف عجم کا زبان دان اور ادب نواز طبقہ ہے؛بل کہ عرب بھی آپ کے سحرکار قلم کے اسیر نظر آتے ہیں۔
عربی زبان میں آپ نے جہاں بہت سی علمی،تحقیقی اور تاریخی یادگاریں چھوڑیں،وہیں آپ کا اہم کارنامہ یہ رہا کہ آپ نے حالات حاضرہ کے مطابق مدارس اسلامیہ کے عربی زبان و ادب کی تدریس کے لیے ’’ مفتاح العربیۃ ‘‘ کی ترتیب کا کام کیا،جو خوب صورت سرورق کے ساتھ کتابی شکل میں موجود اور متعدد مدارس میں داخل نصاب ہے۔
حضرت الاستاذکی عربی دانی اور اس میں مہارت و براعت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے گراں مایہ مضامین نہ صرف عجم کے عربی مجلات میں شائع ہوتے؛ بل کہ متعدد عربی مجلات بھی آپ کی تحریروں کو وقعت و اہمیت کے ساتھ اپنے مشمولات کا حصہ بناتے تھے۔علاوہ ازیں عربی زبان میں:مجتمعاتنا المعاصرۃ والطریق الی الاسلام،فلسطین فی انتظار صلاح الدین، الدعوۃ الاسلامیۃ بین الامس والیوم،الصحابۃ ومکانتھم فی الاسلام،اور دارالعلوم دیوبند،جیسی اہم علمی و تحقیقی کتب اپنے اشہب قلم سے لکھ کر دنیا کو یہ بتا دیا کہ عجم محض اپنی زبان کو نہ صرف جانتا ہے؛ بل کہ دنیاکی دوسری زندہ زبان پر بھی عبور اور اس میں اظہار خیال کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند سے والہانہ تعلق
حضرت مولانا کو دارالعلوم دیوبند اور اس کے بام و در سے جو والہانہ تعلق تھا وہ نہ صرف ان کے بیسیوں مضامین سے عیاں ہوتا تھا؛ بل کہ ان کی گفتگو اور کردار سے بھی چھلکتا تھا۔اپنے ایک مضمون میں دارالعلوم کے تئیں عقیدت و محبت کا اظہار کچھ اس طرح فرماتے ہیں:
دارالعلوم دیوبند صلحاے اُمت کے مطابق اِلہامی تعلیم وتربیت گاہ ہے۔اُس کی بنیاد واقعتاً تقویٰ پر استوار ہوئی ہے، اِسی لیے اُس کو ہر خاص وعام میں عجیب سی محبوبیت ومقبولیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ خداے کریم نے ہمیشہ اُس کی حفاظت کی ہے، بڑے سے بڑے طوفان میں اُس کی کشتی گرداب میں نہیں پھنسی، نازک سے نازک وقت میں (جو اگر کسی اور عام اِدارے اور تعلیم گاہ پر آتا تو بالیقین اُس کا وجود ختم ہوجاتا) صاف طور پر محسوس ہوا کہ غیبی ہاتھ نے اُس کو ہر طرح کے خطرے سے نکال اور ہر قسم کے ضرر سے بچالیا ہے۔ عروج وزوال کی سُنّتُ اللہ فرد، جماعت اور اِدارے کے ساتھ اپنا اثر دکھاتی رہی ہے اور دکھاتی رہے گی۔ ماضی کے ایسے اصحابِ یقین وعزیمت افراد اب دارالعلوم کو مُیَسَّرْ ہیں نہ امت مسلمہ کو؛ لیکن اِس وقت تک دارالعلوم کا ہر طوفان سے بہ خیروخوبی نکل آنا، یہ بتاتا ہے کہ اللہ ربّ العزّت کو ابھی بھی دارالعلوم کا کردار ادا کرتا رہنا منظور ہے اور نمود ونمایش کی پرستاری کے اِس دور میں اور مادیت کے سیلِ بلا خیز کی اِس دنیا میں وہ اُس کو حسبِ سابق محوِ عمل رکھنا چاہتا ہے؛ تاکہ وہ یہ ثابت کرے کہ عمل اور کردار سے ہی وہ کسی فرد یا جماعت کو سرخ روئی عطا کرتا ہے نہ کہ بات بنانے، شور مچانے اور پروپیگنڈہ کرنے سے۔ اوّل الذکر فرد یا جماعت کو وہ اُسی طرح کی ساحرانہ محبوبیت عطاکرتا ہے جیسی دارالعلوم دیوبند کو اور ثانی الذکر فرد یا جماعت کو سخنِ بسیار اور ساری کوششوں کے باوجود، خلقِ خدا کے نزدیک کسی لائقِ تذکرہ مقبولیت سے ہم کنار نہیں کرتا۔(ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند)
ایک موقع پر دوران درس دارالعلوم کا والہانہ ذکر کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ دارالعلوم کے اطراف میں جو بہت سے چھوٹے چھوٹے مدارس ہیں، وہ در حقیقت دارالعلوم کی مرکزیت کو متاثر کررہے ہیں؛اس لیے کہ ان مدارس کے مہتممین باہر جاکر اپنے مدرسوں کا تعارف اس انداز سے کراتے ہیں جیسے خود کوئی بڑا دارالعلوم چلارہے ہوں،جب کہ بیش تر مدارس کا تو کوئی خارجی وجود ہی نہیں ہوتا اور عوام کی بڑی تعداد لفظ دیوبند سے دھوکہ کھاجاتی ہے۔
ایک مرتبہ حاضری لیتے ہوئے نام بہ نام ایک ایک طالب علم کو پکارا جارہاتھا،ایک ساتھی اپنے نام کے ساتھ’’ حمیدی‘‘ لکھا کرتے تھے اور وہ گویاان کے نام کا جزو بن گیا تھا۔جب ان کا نام آیا ،مولانا فوراً ان کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نسبت کے بارے میں پوچھنے لگے،انہوں نے بتایا کہ آباء واجداد میں سے کسی بزرگ کا نام ہے جن کی طرف نسبت ہے۔مولانانے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ان سے فیصلہ کن انداز میں دریافت کیا کہ تمہارے فلاں جدامجد علم و فضل میں حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ سے بھی بڑھے ہوئے تھے؟ وہ ساتھی خاموش ہوگئے۔پھر آپ نے تکمیل ادب کے تمام طلبہ سے فرمایا:پہچان و شناخت کے لیے اپنے نام کے ساتھ قاسمی لکھنا چاہیے، اور یہ کم از کم آج کل کے زمانے میں تو بہت ضروری ہے۔جب مختلف اداروں سے فارغ ہونے والے شوق و ذوق کے ساتھ ان اداروں کی جانب اپنی نسبت میں فخر محسوس کرتے ہیں تو ہمارے فضلا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ قاسمی کا لاحقہ ضرور لگایا کریں۔
ظرافت و خوش طبعی
حضرت الاستاذ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ متانت و سنجیدگی اور رزانت و شائستگی کے ساتھ ساتھ اپنی شوخیِ طبع، شگفتگیِ مزاج اور حسنِ مزاح سے سیدھی سادی بات کو بھی نہایت دلچسپ اور پرُ لطف بنانے کا ہنر رکھتے تھے؛یہی وجہ تھی کہ طلبہ آپ کے درس میں بہت اہتمام سے حاضر ہوتے اور آپ کی زبان سے نکلنے والے چست، برجستہ اور حقیقت پر مبنی جملوں سے حظ اٹھاتے۔اس سلسلے کے کئی ایک واقعات ہیں؛مگرصرف ایک واقعہ ملاحظہ فرماتے چلیں!
حضرت مولانا کا معمول پابندی کے ساتھ حاضری لینے کا تھا،آپ حاضری کے معاملے میں قدرے سخت گیر واقع ہوئے تھے اور غیرحاضرین سے لازماً بازپرس فرماتے تھے۔ایک مرتبہ سنیچر کے روز اُن طلبہ کا مواخذہ ہورہاتھا جو جمعرات کے دن درس میں غیرحاضر تھے۔یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ سہارن پور و اطراف کے طلبہ شایدوہاں کےعرف کے مطابق عربی ادب تک پہنچتے پہنچتےرشتۂ ازدواج سے منسلک ہوجاتےہیں۔بریں بنا اکثرجمعرات کی دوپہر تک گھر چلے جاتے ہیں۔اس دن مولانا نے ایک طالب علم کو کھڑا کیا اور اس سے غیر حاضری کی بابت دریافت کیا،اس نے کہا کہ سر میں شدید درد تھا جس کے سبب کمرے ہی میںبسترپرنیم دراز تھا، ایک اور طالب علم کا نام لیا اور اس سے وجہ پوچھی اس نے بھی کہیں اور درد اٹھنے کا عذر کیا،بعدازاں تیسرے طالب علم کی طرف متوجہ ہوئے اور قدرے عتاب آمیز لہجے میںآنکھوں کے اشارے سےفرمانے لگے:مولانا! آپ کو کس علاقے میں درد ہورہاتھا؟ اس طالب علم نے معصومیت سے جواب دیا کہ حضرت میں سہارن پور کا رہنا والا ہوں،شادی شدہ ہوں اس لیے گھر چلایا گیا تھا،مولانا نے جواب سنتے ہی زیر لب مسکراتے ہوئے مخصوص انداز میں فرمایا : قدرت کی صناعی بھی عجیب ہے کہ انسان جب جس علاقے کو چلادیتا ہے، وہ مشین کے پرزے کی طرح بے تکان چلنے لگتا ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
مولانا کے اس معنی خیز جواب پر ساری جماعت قہقہہ زار ہوگئی۔ان سب ظرافتوں کا مقصدیہ ہوتا کہ طلبہ میں چستی اور نشاط پیداہوجائے اوروہ مسلسل ہونے والے دروس کی تعب و تھکن بھول کر سبق کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجائیں۔
مختصر یہ کہ حضرت الاستاذکا سانحۂ وفات علم و ادب کی دنیا کاایسا خلا ہے،جس کے پر ہونے کےدور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔حق تعالی آپ کوغریق رحمت فرمائے،دارالعلوم کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے اور آپ کی علمی و دینی خدمات کی بہترین جزا عنایت فرمائے۔آمین
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن
سوانحی کوائف
مکمل نام :نور عالم خلیل امینی
والد کا نام: حافظ خلیل احمدبن رشید احمد بن محمد فاضل بن کرامت علی صدیقی
کنیت :ابو اسامہ نور۔
تاریخ پیدائش:18 دسمبر 1952ء مطابق یکم ربیع الآخر 1382ھ
جائے پیدائش:ہرپوربیشی ضلع مظفرپور بہار
بچپن: جب آپ تین ماہ کے تھے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اس وقت مولانا کی ماں صرف انیس سال کی تھیں، والدہ محترمہ کی دوسری شادی محی الدین بن محمد نتھو سے ہوئی جو مولانا کے چچیرے ماموں بھی تھے ۔مئی 1967 میں ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔گویا آپ کی والدہ کم عمری ہی میں غالباً چونتیس سال کی عمر میں دو مرتبہ بیوہ ہوگئیں۔
دادی مقیمہ خاتون نے والد کے انتقال اور شیرخوارگی کے بعد ابتدائی پرورش و پرداخت کی، دادی کے انتقال کے بعد بقیہ پرورش والدہ محترمہ نے کی۔
تعلیم و تربیت :قاعدہ بغدادی کی شروعات نانا جان سے کی، اس کے بعد رائے پور میں مولوی ابراہیم عرف مولوی ٹھگن کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ نور الہدی پوکھریرا،اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں کچھ مدت تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم مئو میں 1964ء مطابق 1383ھ میں درجہ عربی اول داخلہ لیا۔
اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں 16/ شوال/ 1387ھ مطابق 20 /دسمبر/1967ء میں داخلہ ہوا
دارالعلوم دیوبند کے بعد مدرسہ امینیہ دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی اور اسی مدرسے کی طرف امینی نسبت ہے۔
مشہور اساتذہ:مولانا عبدالحق اعظمی سابق شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند، مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا معراج الحق، مولانا نصیر احمد خان صاحب، مولانا فخر الحسن مرادآبادی، مولانا شریف الحسن صاحب ، مولانا قمرالدین گورکھپوری مدظلہ، مولانا خورشید احمد دیوبندی، مولانا حامد میاں صاحب، مولانا بہاءالحسن مرادآبادی، میں مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی
تدریسی خدمات : دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تقریباً دس سال جون 1972ءسے 1982ء تک، دارالعلوم دیوبند میں تقریباً انتالیس سال 1982 سے تاوفات۔
اردو تالیفات :(1)وہ کوہ کن کی بات(2)پس مرگ زندہ (3)رفتگان نارفتہ(4) فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں(5) صحابہ رسول اسلام کی نظر میں(6)کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟(7) عالم اسلام کے خلاف صلیبی صہیونی جنگ(8) حقائق اور دلائل(9) حرف شیریں(10)خط رقعہ کیسے لکھیں؟
عربی تالیفات: (1)مجتمعاتناالمعاصرة والطریق إلی الإسلام.(2)المسلمون في الہند.(3) الدعوة الاسلامیہ بین الأمس والیوم.(4) مفتاح العربیة،( دوجلدیں).(5) العالم الھندي الفرید :الشیخ المقري محمد طیب.(6) فلسطین في انتظار صلاح الدین.(7) الصحابۃ ومکانتہم في الإسلام. (8)من وحي الخاطر (پانچ جلدوں میں إشراقوں کا مجوعہ)۔
تراجم اردو سے عربی :تقریباً پچیس کتابوں کا اردو سے عربی زبان میں ترجمہ،یہ سبھی کتابیں مطبوعہ ہیں۔نیز زائد از دو سو مقالات کا عربی ترجمہ بھی ہند و بیرون ہند کے مختلف عربی رسائل میں شائع ہوچکا ہے۔
مضامین و مقالات :علمی،فکری،دعوتی،لسانی اجتماعی،سوانحی موضوعات اور مختلف ملی مسائل پر اردو اور عربی میں ہندوستان و پاکستان و مختلف عربی ممالک سے شائع ہونے والے اردو عربی رسائل میں تقریباً پانچ سو مضامین و مقالات شائع کیے جاچکے ہیں۔
ایڈیٹر: آپ اکتوبر 1983ء سے تا وفات دارالعلوم دیوبند کے مشہور ماہ نامہ “الداعی” کے ایڈیٹر رہے۔
اعزاز :عربی زبان کی خدمات کے صلے میں آپ کو صدرِ جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے حکومت ہند کی طرف سے 4/4/2019 کو صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کیا۔
تاریخ وفات: 3/مئی/2021ء مطابق 20 رمضان 1442ھ۔
پسماندگان :اہلیہ کے علاوہ چار لڑکیاں اور تین لڑکے۔