ایک مرد درویش و دور اندیش کی رحلت؛ حضرت الاستاذقاری سید عثمان منصورپوریؒ

شبستانِ معرفت کے چراغ جس تیز گامی سے بجھ رہے ہیں،اسی رفتار سے علم و فضل کی محفلیں شہر خموشاں میں تبدیل ہورہی ہیں اور ظلمت کدۂ گیتی کے اندھیروں میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔ادیب العصرحضرت مولانا نور عالم خلیل امینیؒ اور محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی ؒ کی وفات کا زخم ابھی تازہ تھا کہ امیرالہند حضرت مولانا قاری سید محمدعثمان منصورپوری رحمہ اللہ بھی اپنی حیاتِ مستعار کا لمحہ لمحہ دین و شریعت اور ملک وملت کی خدمات سے قیمتی بناکر بہ تاریخ ۸؍شوال المکرم۱۴۴۲ھ بہ روز جمعہ دوپہر سوا ایک بجے سفرِ آخرت پہ روانہ ہوگئے۔
حضرت الاستاذ کی عبقری شخصیت ایسی جامع الصفات اور ہمہ گیر تھی جو علم و عمل،تقوی و طہارت،زہد و قناعت،بصیرت و فراست،امانت و دیانت اور سنجیدگی و متانت کا روشن استعارہ اور مستند حوالہ سمجھی جاتی تھی۔آپ کے اس طرح چپ چاپ گزر جانے سے خم خانۂ ہست و بُود پر کیا گزری ہوگی،اس کا تو بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
قحط الرجال کے اس دور میں آپ کاوجود علم وعمل،تدبیر و انتظام اور تعلیم و تربیت کے مختلف میدانوں کے لیے گنج گراں مایہ سے کم نہ تھا۔ دست قدرت نے آپ کو جمال صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازا تھا، آہ سحرگاہی سے دمکتا چہرہ،ریاضت و مجاہدے سے چھریرابدن۔ جب مسند حدیث کو زینت بخشتے تولگتا کہ اک مرقع نور جلوہ افروز ہے، لہجے کی تمکنت، زبان کی فصاحت اور بیان وادا کی وضاحت سے درس کی تقریرایسی لگتی گویا کہ کوئی عندلیب مسحور کن آواز میں محو ترنم ہے۔ آپ دینی حلقوں کے لیے چلچلاتی دھوپ میں شجرسایہ دار اورایسے مردجفاکش وگرہ کشاتھے، جس کے مطمح نظر کام،کام اور صرف کام ہوتا ہے،آپ نے بلاشبہ جمعیۃ علماء کے میر کارواں،حریم ختم نبوت کے امین و پاسباں اور دارالعلوم دیوبند کے استاذِ شفیق و مربیٔ مہرباں کی حیثیت سے ملک و ملت اور دین و شریعت کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور اپنی مخلصانہ کوششوں اور پیہم محنتوں سے کام یابی کی ایک تاریخ رقم کی،ایسی تاریخ جس کا حرف حرف تاباں اورورق ورق درخشاں ہے۔ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
دارالعلوم دیوبند کے دور طالب علمی میں یہ حقیر سراپا تقصیر اپنی فطری کم آمیزی اور مصروف درسی زندگی کے سبب اکثر اساتذہ کرام کی خدمت میں بالمشافہ حاضری کی سعادت سے محروم رہا،البتہ بعد نماز عصر بہ پابندی سیدی ومرشدی حضرت والا مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی مجلسِ معرفت اور بعد عشاء مشفقی و مربی حضرت مولانا مفتی محمد راشد اعظمی دامت برکاتہم کی خدمت اقدس میں نیاز مندانہ حاضری کا معمول رہا۔حضرت قاری صاحبؒ کا دیدار مسجد چھتہ میں نمازوں کے دوران اکثر ہوا کرتا؛مگر کبھی بڑھ کر ملاقات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
دورۂ حدیث شریف میں حضرت قاری صاحبؒ سے موطا امام محمد پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی،اور تکمیل ادب کے سال دو ایک سبق اسالیب الانشاء کے پڑھے پھرکسی وجہ سے دفترتعلیمات کی جانب سے ترتیب کی تبدیلی کا اعلان آگیااور استفادے کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔
کیاایک ہی ترجمہ ضروری ہے؟
تکمیل ادب میں داخلے کے بعد تعلیم کا پہلا دن تھا،ساتھیوں کا کہنا تھاکہ آج پہلا دن ہے؛اس لیے عین ممکن ہے کہ اساتذہ ٔکرام درس گاہ میں رونق افروز نہ ہو، آج تو چھٹی کا سماں ہوگا اور کتابیں وغیرہ حاصل کرنے کی مہلت مل جائے گی۔
گفت و شنید اور تبادلۂ خیال کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ یکایک گھنٹہ بجا،کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت قاری صاحب اپنے مختصر سے بیگ کے ساتھ خراماں خراماں درس گاہ تشریف لارہے ہیں،جوں ہی نظر پڑی طلبہ نے اپنی اپنی نشست سنبھال لی اور آپ نے قدم رنجہ فرما ہوکر مختصر تقریر کے بعد فورا کتاب شروع فرمادی۔قاری صاحب درس گاہ میں موجود ہر طالب علم پر عقابی نگاہ رکھتے،ہر ایک سے عبارت پڑھواتے، سبھی سے ترجمہ پوچھتے،غلطی پر ٹوکتے اور اصلاح کرتے۔
اسالیب الانشاء پڑھاتے ہوئے آپ کسی بھی عبارت کے ترجمے میںتکرار و جمودکوپسند نہیں فرماتے؛بل کہ تجدد اور خوب سے خوب تر کی تلاش کو ضروری قرار دیتے تھے،دو تین طالب علم کسی پیراگراف کا من وعن ایک ہی ترجمہ کرتے تو قاری صاحب ناراض ہو جاتے اور مخصوص عتاب آمیز انداز میں فرمایا کرتے:کیا یہی ایک ترجمہ سب نے حفظ کرلیاہے؟؟
چوں کہ ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس کے بغیر دوسری زبانوں کے علوم و فنون سے آشنائی نہیں ہوسکتی اور اس کے بغیر کوئی بھی زبان جدید اور ترقی پذیر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی،نیز اسی کے ذریعے ایک قوم دوسری قوم کے ذخیرۂ علم وادب سے آشنا ہوتی ہے؛اس لیے قاری صاحب ترجمے میں تنوع کو خاصی اہمیت دیتے اور روایتی ترجمے کے بجائے مرادی(مگر لفظ سے قریب) ترجمے کو پسند فرماتے۔اس طرح دو ایک سبق میں قاری صاحب کا مزاج سمجھ میں آگیااور اس سے سال بھر بہت نفع ہوا۔
حسن تدبیر و انتظامی صلاحیت:
عام طور پر کام یاب تدریسی مشغلے کے ساتھ انتظامی مہارت و دل چسپی فرد واحد میں جمع نہیں ہوپاتی؛بل کہ ان دونوں کے درمیان بعد المشرقین سمجھاجاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جو مقبول و کام یاب مدرس ہوتا ہے وہ بیدار مغز منتظم نہیں ہوتا۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ بہ یک وقت کوئی شخص انتظام و تدریس کے دونوں معیاروں پر کھرا اترے اور دونوں میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے۔حضرت قاری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس خوبی سے سرفراز فرمایا تھا کہ آپ بہترین مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ہوش مند منتظم بھی تھے۔سیدی و سندی حضرت والا مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے اپنے تعزیتی خطاب میں حضرت قاری صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
قاری صاحب حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری رحمہ اللہ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) کے زمانے میں تقریباً دس سال نائب مہتمم رہے،اور اس سے قبل کبھی ناظم دارالاقامہ،کبھی ناظم تعلیمات وغیرہ کے عہدوں پر فائز رہے اور جس شعبے کے اندر رہے نہایت کام یابی کے ساتھ ذمہ داری کو انجام دیا۔ادھر میرا بہت دنوں سے یہ مطالبہ تھا کہ اہتمام کی ذمہ داری بہت بھاری محسوس ہوتی ہے،مجھے مضبوط معاون چاہیے!اس کے لیے میں نے قاری صاحب کا نام پیش کیا؛کیوں کہ انہیں اس میدان کا طویل تجربہ تھا،پھر ان کی شرافت نفس،سوجھ بوجھ،اصول پسندی،ان سب نے انہیں اور نمایاں کردیا تھا۔ میں مجلس شوریٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس درخواست کو قبول کیا گیا اور صفر۱۴۴۲ھ میں یہ تجویز منظور ہوئی۔جس وقت یہ تجویز لکھ کر قاری صاحب تک پہنچی، اگلے ہی روز دفتر میں آکر اس طرح اپنی جگہ بیٹھ گئے جیسے درمیان میں کوئی انقطاع رہا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔قاری صاحب میں عجیب صلاحیت تھی،آپ کام کی کثرت سے کبھی نہیں گھبراتے تھے اور اتنے کام اپنے ذمے لادھ رکھنے کے باوجود انہیں کوئی الجھن نہیں ہوتی تھی۔
المختصر حضرت اقدس مہتمم صاحب کے ان وقیع کلمات کے ذریعہ قاری صاحب کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عادات واوصاف:
حضرت قاری صاحب فہم وذکا، حکمت ودانائی،بصیرت و دوراندیشی اور زندگی کے وسیع تجربوں کے ساتھ، مکارم اخلاق اور انسانی شرافت کا جیتاجاگتانمونہ تھے۔آپ کی بے نفسی، سبک روی، اصول پسندی اور توازن واعتدال نے علمی وانتظامی حلقوںمیںآپ کو ہر دل عزیز بنارکھا تھا، اور ہر شخص آپ کوعزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔ مہمان نوازی اور واردین وصادرین کی خاطر مدارات تو ایسی کرتے تھے جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔آپ کے مزاج میں شفقت وہم دردی کا عنصرغالب تھا،نائب مہتمم اور کار گزار مہتمم کی حیثیت سے طلبہ کی خیرخواہی اور ان کے معاملات کو حل کرنے میں غیرمعمولی مہارت رکھتے تھے،آپ سے ملاقات کرنے والا ہر فردغیر شعوری طور پر، آپ کے علم وفضل او ر اخلاق وکردارکا قائل ہوجاتاتھا۔
وہ نرم مزاج وشیریں زباں وہ جود وسخا کا نقشِ حسیں
تھی ذوقِ عبادت سے ہر دم مہتاب سی روشن ان کی جبیں

تھے آپ تصنّع سے عاری اور ان میں تکلف کچھ بھی نہیں
وہ سہل نگار وسہل بیاں، وہ سہل پسندی کے تھے امیں

قادیانیت کا استیصال:
حضرت قاری صاحب کا ذکر خیر ہو اور ردقادیانیت کے حوالے سے آپ کی زریں خدمات کا ذکر نہ کیاجائے یہ سراسرنا انصافی ہے۔عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنۂ مرزائیت کی سرکوبی کا اعزاز انیسویں صدی کے نصف اول میں جن علماء کرام کے حصے میں آیا ان میں مولانا سید محمد علی مونگیری،مولانا ثناء اللہ امرتسری،علامہ سید انور شاہ کشمیری اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہم کے نام سرفہرست ہیں۔پھرجب اکتوبر1986ء میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کی تحریک پر عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہوئی،اس وقت حضرت قاری صاحب اس کے ناظم منتخب کیے گئے اور آپ نے اپنی ان تھک محنت اور پیہم جدوجہد کے ذریعہ یہ ثابت کردکھایا کہ یہ انتخاب حسن انتخاب تھا۔حضرت قاری صاحب نے تاحین حیات عقیدۂ ختم نبوت کی پاس بانی کی،جلسہائے تحفظ ختم نبوت کا جگہ جگہ انعقاد عمل میں لایا،ملک بھر میں ریاستی سطح پر مجلس تحفظ ختم نبوت کی شاخیں قائم فرمائی اور خود سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے علماء اور عوام کو اس فتنے کی سنگینی سے آگاہ کیا گویا اس حوالے سے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔
علاوہ ازیں آپ ہر سال شرح و بسط کے ساتھ رد قادیانیت کے موضوع پر تخصصات کے طلبہ میں محاضرہ پیش فرماتے،نیز شعبان کے اواخر میں دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سالانہ تربیتی کیمپ کی نگرانی فرماتے اور رد مرزائیت پر مفصل خطاب کرتے۔ایک سے زائد مرتبہ احقر نے اس موضوع پر آپ کا مفصل خطاب سنا جس میں آپ دلائل کی روشنی میں بھرپور وضاحت کے ساتھ یہ ثابت کرتے کہ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو پھر دین بھی محفوظ نہیں۔اس عقیدے کے تحفظ میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کی قربانیوں کا ضرور ذکر فرماتے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراء تھے حتیٰ کہ اس معرکہ میں بدری صحابہ کرام نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا؛مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔
آخری ملاقات:
گذشتہ سے پیوستہ سال برادرعزیزحافظ عبدالمقتدر عمرانؔ(مدیر عصر حاضر پورٹل) کے ہم راہ شعبان المعظم کے اواخر میں دیوبند حاضری ہوئی،روانگی سے ایک یوم قبل مسجد چھتہ میں نماز عشاء سے فارغ ہوکر مسجد کے برآمدے سے گزر رہے تھے کہ سامنے قاری صاحب سے ملاقات ہوگئی،قاری صاحب نے نئے چہرے دیکھ کر خیرخیریت معلوم کی اور نام دریافت کیا،راقم آثم نے اپنا نام بتایا کہ عبدالرشید طلحہ حیدرآباد سے۔آپ نے قدرے استعجاب سے پوچھا عبدالرشید طلحہ نعمانی؟ جن کے مضامین الجمعیۃ وغیرہ میں طبع ہوتے ہیں؟احقر نے ڈرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا،پھر حافظ عمران صاحب کا تعارف پوچھا تو بتایا گیاکہ عصر حاضر پورٹل کے مدیر ہیں۔لفظ پورٹل کی تشریح معلوم کی اور ایک دو منٹ اس حوالے سے گفتگو ہوئی۔اخیر میں قیام کے حوالے سے معلوم کیا کہ مزید کتنے دن رہیں گے،ہم نے کہا کہ مہمان خانے میں قیام ہے اور کل صبح روانگی ہے تو دعائیں دے کر رخصت فرمایا۔
افسوس کہ حضرت والا نوراللہ مرقدہ سے یہی ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی اورآپ ہمیشہ کے لیے قبرستانِ قاسمی میں محوخواب ہوگئے۔حق تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے،آپ کی دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے اور امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین

Exit mobile version