ہماری نظر میں دنیا کی سب سے قیمتی متاع کیا ہے؟وہ کونسی چیز ہے جسے ہم سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں؟ اور کس شیئ کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا گوارا کرسکتے ہیں؟کیا جاہ و منصب۔۔۔۔؟کیا صحت و خوش حالی۔۔۔؟کیا مال و منال۔۔۔۔؟کیا اہل و عیال۔۔۔۔۔؟
ذرا غور کریں اور سنجیدگی سے جائزہ لیں تو ہمارا دل خود ہی گواہی دے گا کہ یہ سب چیزیں فانی اور آنی جانی ہیں۔ہر منصب ختم ہونے والاہے،اچھی صحت زوال پذیر ہے،مال و جائیداد ایک دن ساتھ چھوڑنے والے ہیں اور اہل و عیال کسی بھی وقت منہ موڑنے والے ہیں۔
ہاں!مگر ایک چیز ہے جس کا اگرچہ کوئی مادی وجود نہیں؛مگر وہ ہمارے سینوں میں سرمایۂ گراں مایہ کی طرح محفوظ ہے،جسے ہم ایمان کہتے ہیں۔اسی ایمان کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو ایمان کی حلاوت نصیب ہوجاتی ہے وہ آگ میں ڈالے جانے کو تو برداشت کرسکتا ہے؛مگر ایمان سے دست برداری کو گوارا نہیں کرسکتا ۔(بخاری و مسلم) ایمان کے بہت سے تقاضوں میں ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے ملی تشخص کو برقرار رکھیں ،اپنی تہذیب وثقافت کی حفاظت کریں،اور اغیار کے تمدن و حضارت سے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کی فکر کریں۔اگرمسلمان اس سلسلے میں کامیاب ہوگئے تو پھر کوئی طاقت انہیں عروج و سربلندی سے نہیں روک سکتی ؛مگر افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال مرحوم نے سچ کہا تھا؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
رواداری؛مگر کس حد تک:
ہر دور میں مشترک ماحول اور دیگر محرکات کے زیر اثر بعض انسانی طبیعتوں کا یہ تقاضا رہا کہ وہ چیزیں جو اسلام میں داخل نہیں ہیں،ان کو اسلام کی سند دلائی جائے اور کچھ ایسی باتیں جو اسلام میں شامل ہیں ان کو اسلام کی نسبت سے بیان نہ کیا جائے۔ اس بات کو لوگ زمانے کے ساتھ چلنے کا عنوان دیتے ہیں اور ایسا نہ کرنے کو دقیانوسی اور قدامت پسندی سے تعبیرکرتے ہیں۔ گویا اسلام کو زمانے کے ساتھ چلنا ہے نہ کہ زمانے کو اسلام کے ساتھ!بالفرض اسلام اگر ان کے کہنے پر زمانے کے ساتھ چلنے لگتا تو اسلام(جو اس قدر زمانے دیکھ آیا ہے اور اس قدر زمانے اس پر ابھی اور آنے ہیں ) کچھ سے کچھ ہو جاتا؛ مگر اسلام آج بھی وہ ٹھوس حقیقت ہے جو آج سے چودہ صدیاں پیشتر تھی اور قیامت تک اس کو ویسا ہی رہنا ہے!
اسلام امن و سلامتی کاسرچشمہ اورانسانوں کے درمیان محبت،اخوت اور رواداری کو فروغ دینے والادین ہے۔ یہ اللہ رحمن و رحیم کا وہ پسندیدہ دین ہے جو اگر ایک طرف بندوں کا رشتہ معبود حقیقی سے مضبوط کرتا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے درمیان محبت و بھائی چارہ کی فضا قائم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہ حیثیت انسان کافروں کی جان و مال اور عِزت و آبرو سے عدم تعرض اور ان کے تئیں ظُلم و زیادتی سے اجتناب اِسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے،غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ معاشرتی زندگی میں حسن اخلاق ا ور نرمی و اچھائی نبی پاک ﷺکی ہدایات کا نمایاں باب ہے ،اپنے اردگرد پائے جانے والےغیرمسلم پڑوسیوں کے ساتھ بات چیت اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ بہ حیثیت داعی ہمارا فرض منصبی ہے،ہمیں ایسے لوگوں سے اسلامی اخلاق کے ساتھ پیش آنا ہی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ موقع بہ موقع انہیں اسلام کی دعوت بھی دیتے رہنا چاہیے ،دُکھ درد اور غم و تکلیف کے وقت اُن کی داد رسی کرنا ان کے ویران دلوں میں ا یمان کی شمع روشن کرسکتا ہے؛ لیکن ان سب اعمال کے لیے حُدود و شرائط ہیں۔ معاشرتی زندگی میں غیرمسلموں کی خوشیوں اور تہواروں میں شریک ہونا،ان کے لیے قلبی میلان رکھنا ، اُن کے مذہبی مراسم میں شرکت کرنا کسی طور جائز نہیں ؛بلکہ فقہا کے مطابق کفار و مشرکین کی مذہبی تقریبات میں شرکت بہت ہی سنگین گناہ ہے، کیونکہ بسا اوقات شرکت کرنے والا کفر میں بھی ملوّث ہو سکتا ہے۔
قرآن و سنت سے رہنمائی :
مذاہب عالم کے درمیان اسلام کی حیثیت بالکل منفردہے، وہ اپنے عقائد ونظریات کے حوالے سے بہت ہی باغیرت اور حساس واقع ہوا ہے، اس تعلق سے اسلام میں ذرّہ برابر بھی لچک نہیں ہے اور نہ اس کو کبھی برداشت کیا گیا ہے، چناں چہ قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر اغیار کی مشابہت سے منع کیا گیا اور کفار ومشرکین کے مذہبی امور میں شرکت کی مذمت بیان کی گئی،حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:
"آج کل یہ بے ہودہ رسم نکلی ہے کہ مسلمان کفار کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں اور عید بقر عید کے موقع پر انہیں شریک کرتے ہیں۔یہ تو وہی قصہ ہوگیا ہے جیسا کہ مشرکوں نے آپﷺ سے کہاتھا کہ:”اے محمد!ہم اور آپ صلح کرلیں…ایک سال آپ ہمارے دین کو اختیارکرلیں اور دوسرے سال ہم آپ کےدین کو اختیار کرلیں گے”۔اسی وقت سورۂ "کافرون” نازل ہوئی یعنی نہ میں تمہارا دین اختیار کروں گا اور نہ تم میرا دین قبول کروگے۔ تمہیں تمہارا دین مبارک مجھے میرا دین؛لہذا کافروں کے میلوں اور تہواروں سے تو بالکل علیحدہ رہنا چاہیے .ہندوستان میں چونکہ سبھی مذاہب والے ایک جگہ رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپس میں لڑیں نہیں باقی مسلمانوں کو ان کےمیلوں ٹھیلوں اور تہواروں میں شرکت کرنے کو بالکل بند کردینا چاہیے”!( اشرف التفاسیر جلد چہارم ص ۳۵۱)
حضرت ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے "بوانہ” جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: "میں نے "بوانہ” جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: وہاں پر جاہلیت کے دور میں کسی بت کی پوچا تو نہیں ہوتی تھی؟ اس نے کہا: "نہیں ” آپ ﷺنے پھراستفسار فرمایا: وہاں پر کوئی ان کا تہوار تو نہیں لگتا تھا؟ اس نے کہا: "نہیں ” تو آپ ﷺنے فرمایا:جاؤ اپنی نذر پوری کرو، اور ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور ایسی چیز کی نذر بھی پوری نہیں کی جاسکتی جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو۔(ابوداؤد)غور و فکر کا مقام ہےکہ نذر پوری کرنے کے واجب ہونےکے باوجود نبی ﷺنے اس آدمی کو اس وقت تک نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک اس نے یہ نہیں بتلا دیا کہ وہاں پر کفار کا کوئی تہوار منعقد نہیں ہوتا تھا، اور آپﷺ نے یہ بھی بتلا دیا کہ : ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔ چنانچہ ان کے تہوار والی جگہ پر اللہ کے لئے ذبح کرنا معصیت ہے تو ان کے تہوار میں بنفسِ نفیس شرکت کتنا بڑا گناہ ہوگا؟
اسی طرح سنن ابو داود میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اور ایک حدیث میں یوں وعید بیان کی گئی:وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں (غیر مسلموں ) کی مشابہت اختیار کرے۔ چنانچہ کفار کے ساتھ محض عادات میں مشابہت اختیار کرنے پر اتنی بڑی وعید ہے، تو آگے بڑھ کر عبادات میں شرکت کرنے پر کتنی بڑی وعید ہوگی؟
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا تھا :“ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ مربوط ومنسلک رہنے میں عزت عطا فرمائی ہے، اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی دین یا تحریک سے اپنی عزت کی راہیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو اﷲ تعالیٰ ہمیں ذلیل و رسوا کردے گا۔”
اسلافِ امت کا فیصلہ:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:” مسلمانوں کےلیےجائز نہیں کہ کفار کی کسی بھی شکل میں مشابہت اختیار کریں، ان کے تہواروں میں ، کھانے پینے ، لباس ، غسل، آگ جلانے، یا کام سے چھٹی وغیرہ کر کے، ان کے ساتھ مشابہت اختیار کریں، ایسے ہی ان دنوں میں دعوتیں کرنا، تحائف دینا، اور ان کے تہواروں کےلیے معاون اشیاء کو اسی مقصد سے فروخت کرنا کہ ان کے کام آئیں گی، بچوں کو ان کے تہواروں کے خاص کھیل کھیلنے کی اجازت دینا ، اور اچھے کپڑے زیب تن کرنا ، یہ سب کچھ حرام ہے۔مجموعی طور پر کوئی بھی مسلمان ان کے شعائر کو ان کے تہواروں میں نہ اپنائے، بلکہ ان کے ایامِ تہوار مسلمانوں کے ہاں عام دن کی طرح گزارے جائیں گے اور کسی بھی کام کو ان دنوں کے ساتھ مختص نہیں کریں گے "۔(فتاوی ابن تیمیہ)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:”کفریہ شعائر پر مبارکباد دینا سب کے ہاں مسلّمہ طور پر حرام ہے، مثال کے طور پر کفار کے تہواروں اور عبادات پر مبارکباد دیتے ہوئے کہنا تمہیں تمہارا تہوار اور عید مبارک ہو، یا اس طرح کا کوئی بھی جملہ ادا کرنا، اس سےاگر مبارک باد دینے والا شخص کفر کا مرتکب نہ بھی ہو تو اتنا ضرور ہے کہ ان الفاظ کا منہ سے نکالنا ہی حرام ہے، اور یہ ایسے ہی ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے، بلکہ شراب نوشی، قتل، اور زنا سے بھی بڑھ کر اس کا گناہ ہے” انتہی(احکام اہل الذمہ)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:”اگر یہودیوں اور عیسائیوں کا مخصوص تہوار منایا جا رہا ہو تو اس میں کوئی بھی مسلمان شرکت نہ کرے، بالکل ایسے ہی جیسے ان کی شریعت اور قبلہ نہیں مانتا اسی طرح ان کے تہوار میں بھی شرکت نہ کرے”(تشبيہ الخسيس باهل الخميس)
اخیر میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں!
"ہندوٴوں کے یہاں چوں کہ وحدت ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک باد دیتے ہیں؛ لیکن مذہب اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں؛ اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہولی یا دیوالی کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک بادی دیں، اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے؛ البتہ اگر سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً کوئی ایسا کاروباری ساتھی یا ما تحت ملازم یا کمپنی کا مالک ہے کہ اگر اس موقعہ پر اس سے مسرت کا اظہار نہ کیا جائے تو اس کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے یا ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا تو ایسی مجبوری میں مجمل الفاظ کہنے کی گنجائش ہوگی، مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں ، تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً ان شاء اللہ اس کی گنجائش ہوگی”۔واللہ تعالی اعلم