اگر ہم مسلمان ہیں،کلمۂ لاالہ الا اللہ پر ایمان رکھتے ہیں،اپنے آپ کو امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کا فرد سمجھتے ہیں تو ذرا بتائیں کہ ہمارے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے؟
کوئی عزیز دوست؟کوئی عظیم فلسفی؟کوئی خاندانی بزرگ؟کوئی معروف رئیس؟کوئی فاقہ مست درویش؟کوئی مرشد کامل؟کوئی شاعر خوش گلو؟کوئی ادیب باکمال؟کوئی خطیبِ شعلہ بار،کوئی ماہر فن کار؟کوئی قریبی رشتے دار؟
نہیں!ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔اس کائنات کا سب سے بڑا انسان وہ ہے جسے خدا تعالی نے آخری نبی بناکر بھیجا، جس نے انسانیت کی رہبری و رہنمائی کے ذریعہ ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیا،جس نے امداد باہمی اور تعاون و تناصر کی بجھتی قندیلوں کو فروزاں کیا اور قیامت تک آنے والی نسل آدمیت کو سماجی حقوق و فرائض سے آگاہ کیا۔رسول خداﷺبشر تھے،اور بہ حیثیت بشر حسنِ اہتمام کے ساتھ آپ نے وہ تمام ذمہ داریاں نبھائیں جس کا ایک انسان کامل کے سلسلے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔آپ کی حیات طیبہ کے مختلف ومتنوع پہلوؤں میں ہر پہلو کی طرح سماجی زندگی کا پہلو بھی نہایت روشن و تاب ناک ہے۔
تاریخ کے صفحات میں سیرت طیبہ کے یہ اوراق آج بھی جگمگا رہے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺجہاں ایک طرف کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیا کرتے، گھر میں خود جھاڑو دے لیتے،بکریوں کا دودھ اپنے ہاتھ سے دوہ لیتے، جوتا مبارک پھٹ جاتا تو اس میں خود ٹانکا لگا لیتے، کنویں کے ڈول کو خود ہی سی لیا کرتے اور اونٹوں کے لیے چارہ پانی کا نظم خودفرمالیتے؛وہیں دوسری طرف پڑوسیوں کا حق بھی ادافرماتے،بیمار کی عیادت فرماتے،مظلوم کی حمایت فرماتے، مہمانوں کی ضیافت فرماتے،یتیموں کی کفالت فرماتے،بیواؤں اور مفلوک الحالوں کی مدد کرتے،ایک دفعہ آپ صحابہؓ کے ہمراہ کسی سفرپرتھے، آرام کے لیے ایک جگہ پڑاؤ کیا،صحابہؓ نے کھانا پکانے کے لئے ایک بکری ذبح کی اور کام آپس میں بانٹ لیے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ”جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے میں لاؤں گا۔” صحابہؓ نے نہایت احترام سے درخواست کی کہ ہم خود لکڑیاں بھی لے آئیں گے آپ زحمت نہ کیجئے؛ مگر رحمۃللعالمینﷺ نے فرمایا ”میں امتیاز پسند نہیں کرتا۔”
ذراوہ وقت بھی یاد کیجیے!جب رسول اللہ ﷺپرابتدائی وحی نازل ہوئی،آپ غارحرا میں تھے کہ جبریل علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ حکم ہوا، ‘اقرأ’، پڑھو۔ جواب میں فرمایا:میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبریل نے پکڑا، پکڑ کربھینچا اور کہا، ‘اقرأ’، پڑھو۔ آپ نے جواب ارشاد کیا، میں پڑھا ہوا نہیں۔ تیسری بار بھی یہ سوال جواب ہوا اور پھر وحی مکمل ہوئی: ”پڑھ اپنے پروردگار کانام لے کر جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا انسان کو خون کے جمے لوتھڑے سے۔ پڑھ،اور تیرا رب بہت باعزت (اور کرم فرما) ہے۔ جس نے سکھایا قلم کے ذریعے سے۔ سکھایا انسان کو جو و ہ نہ جانتا تھا۔ ”(سورہ علق۱۔۵) اس وحی سے آپ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ کانپنے لگے۔ گھر پہنچ کر کمبل اڑھانے کو کہا۔ حضرت خدیجہ نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور یوں آپ کے محاسن کا ذکر کیا: ” نہیں! واللہ، خدا آپ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حادثات ومصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔”(بخاری)
حضرت خدیجہؓ نے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا ذکر کر کے جس طرح آپﷺکو تسلی دی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نبوت سے پہلے بھی سماجی و رفاہی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اچھے اخلاق اور اچھی خصلتیں انسان کو کسی بھی نقصان اور آفت میں پڑنے سے بچاتی ہیں اور حق تعالیٰ ان اوصاف ومحاسن کے طفیل امن وسلامتی عطا فرماتے ہیں۔
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک:
سماج و معاشرے میں اہل خانہ اور قرابت داروں کے بعد سب سے پہلے جن کاحق ہے وہ پڑوسی ہیں۔‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حضرت جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ یہ اسے وراثت میں بھی شریک ٹہرا دیں گے۔’’(بخاری و مسلم)
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں۔عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا:’’وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔’’(بخاری)
‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول! فلاں عورت کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ دن میں بہت زیادہ روزہ رکھتی ہے اور رات میں تہجدپڑھتی ہے، مگر اپنے پڑسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔ اس شخص نے پھر کہا: اے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت کا ذکر اس کی قلت صوم وصلاۃکے ساتھ ہوتاہے، اوروہ پنیر کے ٹکڑے خیرات کرتی ہے، مگر وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچا تی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔’’(ابن حبان)
مظلوم کی امداد:
ایک مستحکم سماج کے لیے یہ بات بھی نہایت ضروری ہے کہ وہاں انصاف کا بول بالا ہو،بہ حیثیت انسان سب کے ساتھ یکساں سلوک کیاجائے،زیادتی کرنے والے پر قدغن لگائی جائے اور مظلوم کی فریاد سنی جائے۔ عہد ِ جاہلیت میں جب عرب میں ظلم و جور بہت بڑھ گیا، تو قریش کے چند قبائل عبد اللہ بن جدعان التیمی کے مکان پر جمع ہوئے اور آپس میں عہد کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا، خواہ مکہ میں رہنے والا ہو یا کہیں اور کا، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، اور اسے اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول کریم ﷺ بھی شریک تھے اور بعد میں شرف ِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا، کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں، اور اگر (دورِ) اسلام میں مجھے اس عہد و پیمان کے لئے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا۔‘‘ (ابنِ ہشام) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے‘‘۔ (رواہ مسلم)
حاجت مندوں کی ضرورتوں کا خیال:
محتاجوں،غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد واعانت بھی سماج کی بنیادی ضرورت ہے۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کا حکم دیا؛بلکہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ہمیشہ غریبوں،یتیموں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپ کے پاس آئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی بات سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر،مطمئن کر کے اسے بھیج دیا۔ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور بیچ والی انگشت مبارک سے اشارہ کیا۔(بخاری)
راستے کے حقوق:
نبی پاکﷺنے معاشرے کو پر امن بنانے کے لیے مختلف حقوق کے ساتھ راستے کے حق کا اضافہ فرمایا اور اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا کہ راستہ مسافروں اور آنے جانے والوں کے لیے مامون ومحفوظ ہو اور انھیں دوران سفر کسی پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑے، اس کے لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا بھی ایک عبادت بتایاگیا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اورآخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔(بخاری و مسلم)
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ راستوں میں اور کھلی گزرگاہ میں مت بیٹھا کرو۔ بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ہمارے پاس تو گھروں میں جگہ نہیں ہوتی، کوئی دوست وغیرہ ملنے آجائے تو ہم باہر کھلی جگہ میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا راستے میں کسی جگہ پر اسے اپنے ساتھ بٹھاتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر گھر سے باہر کھلی گزرگاہ میں بیٹھنا ضروری ہو تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا: یہ راستے کا حق کیا ہے؟ جناب نبی کریمؐ نے راستے کے پانچ حقوق بیان کیے:
1: نگاہیں نیچے رکھو اور آنے جانے والوں پر تانک جھانک مت کرو۔
2: راستے میں اس طرح کھڑے ہو کر لوگوں کو اذیت مت دو کہ آنے جانے والوں کے لیے راستہ بند ہو جائے، اور اگر کوئی اذیت والی چیز راستہ میں دیکھو تو اسے ہٹا دو۔
3: گزرنے والا مسلمان بھائی اگر سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دو۔
4: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو یعنی راستے میں کوئی برائی ہوتے دیکھو تو اس کی ممانعت کا اہتمام کرو۔
5: کوئی شخص راستہ گم کر بیٹھے تو اس کی راہنمائی کرو۔
خلاصۂ کلام:
جوں جوں معاشرہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے اور جیسے جیسے زندگی کی رفتار بڑھ رہی ہے ہمارے اردگرد بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف ہمارے گر دوپیش کے ماحول پر؛ بلکہ ہمارے رویوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ وقت کی تیزگامی نے انسان کو کمپیوٹر اور مشین بنا کر اس سے احساس کی گراں مایہ دولت چھین لی جو معاشرے کی اخلاقی ضرورت ہے، جس کے بغیر زندگی میں مسرت و خوشی مفقود ہے۔کہنے والے نے سچ کہاکہ احساس وہ سچا جذبہ ہے جو ہمیں اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے بارے میں سوچنے اور اپنی تکلیف بھول کر دوسروں کی خوشی کے بارے میں سوچنے پر فوقیت دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے اِردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عجیب نفسا نفسی کا دور ہے، ہر کوئی اپنی میں اور انا کی تسکین چاہتا ہے، ہر کوئی دوسرے سے آگے بڑھنے کا خواہاں ہے،ہر کسی کو اپنا قد بالا رکھنے اور اپنی دکان چمکانے کی فکر ہے؛جس کی وجہ سے ہمارے اطراف بہت سے لوگ(پڑوسی،غریب،مظلوم،بیوا،یتیم وغیرہ) نظرانداز ہورہے ہیں اور ان سے وہ تمام حقوق چھن رہے ہیں جو ان کی بنیادی ضرورت ہے۔لہذا ہمیں آپ ﷺکی سماجی زندگی کو سامنے رکھ کر اپنے طرزعمل میں تبدیلی لانے کی فکر کرنی چاہیے اور ایک صالح معاشرے کے وجود میں آنے کا سبب بنناچاہیے۔کیوں کہ آپ کے انہی اخلاق فاضلہ اور صفات عالیہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے،اور قیامت تک آنے والی انسانیت کوجادۂ مستقیم پر گامزن رکھا جاسکتا ہے۔