انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ دوسروں کے اعمال ، حرکات وسکنات ، اقوال والفاظ پر گہری نظر رکھتا ہے ، اور ہر پل دوسروں پر تنقید کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ، ہماری مجلسی گفتگو کا محور عموما یہی ہوتا ہے ، ظاہر ہے جب اپنے اعمال کی جگہ دوسرے لوگوںکے اعمال وافعال نگاہ میں رہیں گے تو خود احتسابی کا لازمی عمل ہم سے دور ہوتا جائے گا، اس کے بر عکس اگر آدمی اپنے اعمال پر نگاہ رکھے تو دوسرا اس کی نگاہ میں بُرا نہیں رہے گا ، اس لیے کہ اپنے اعمال کے بارے میں اس سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔
خود احتسابی ایک فطری اور شعوری عمل ہے، تصوف میں مراقبہ اسی لیے کرایا جاتا ہے، دن بھر کے اعمال کا لیکھا جوکھا سر جھکا کر دیکھ لیجئے، لوگ دل کے آئینے میں تصویر یار کا ذکر کرتے ہیں، یہاں دل ودماغ کے آئینے میں حسن عمل اور بد عملی کا گراف ہوتا ہے، جسے آنکھ بند کیجئے، گردن جھکا ئیے اور دیکھ لیجئے ، خود احتسابی کے اس عمل سے گناہوں سے بچنے کی بھی توفیق نصیب ہوتی ہے اور توبہ کی بھی، اس عمل کو میں نے فطری اس لیے لکھا ہے کہ جب آپ ایک انگلی کسی کی طرف اٹھاتے ہیں، تو دوسری تین انگلیاں اسی ہاتھ کی ہم سے پوچھتی ہیں کہ تم نے اپنا محاسبہ کیا یا نہیں ، خود احتسابی ادارے ،جماعتیںاور تنظیمیں کرنے لگیں تو اس کے کاموں کا قبلہ کعبہ درست ہوجاتا ہے اور سمت سفر کا تعین صالح بنیادوں پر ہونے لگتا ہے، ادارے، تنظیمیں ، جماعتیں اور جمیعتوں کی سالانہ میٹنگوں کے جہاں دوسرے مقاصد ہوتے ہیں، ان میں ایک مقصد خود احتسابی بھی ہوا کرتاہے ۔
تنظیموں اور جماعتوں کی بات چھوڑیے، فرد کی حد تک بھی بیشتر لوگ خود احتسابی سے ان دنوں دور ہیں، اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم ہر کام کے بارے میں یہ سوچتے رہتے ہیں کہ فلاں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ، وجہ اپنے اندر تلاشنا خود احتسابی ہے، مثلا چند سال قبل ایرفورس کے جوان کو داڑھی رکھنے سے سپریم کورٹ نے منع کر دیاجو یقیناً اسلام مخالف فیصلہ تھااور بنیادی حقوق کی دفعات میں جو اجازت دی گئی ہے ، اس سے متصادم بھی، عجوبہ یہ ہے کہ سکھوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، بلکہ سکھوں کی ایک ریجنمٹ الگ سے ہے، مسلمانوں نے کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا کہ مسلم رجمنٹ الگ سے بنایا جائے، لیکن مسلمانوں کو اپنے شعار کے ساتھ اپنی مرضی سے جینے کی اجازت تو دینی ہی چاہیے، لیکن آزاد ہندوستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے ، یکے بعد دیگرے عدلیہ کے فیصلے مسلمانوں کے خلاف جا رہے ہیں، یقیناً یہ تشویش کا موضوع ہے۔ لیکن اس معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے ، اور وہ یہ کہ داڑھی رکھنے والوں کا مجموعی فی صد دس سے زیادہ نہیں ہے ، یقیناً جو لوگ نہیں رکھتے ہیں اور ہرصبح گال کھرچنے کو ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی ڈاڑھی کے سنت ہونے سے انکار نہیں کرتے ، البتہ عملاً وہ اس معاملے میں بے راہ روی کے شکار ہیں اور ڈاڑھی رکھنے میں ان کی دلچسپی نہیں ہے، ایسے میں ہمارے وہ بچے جو ڈاڑھی کو شعار اسلام سمجھ کر رکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے اسکولوں اور ملازمتوں میں دروازے بند ہو رہے ہیں، اگر عام مسلمان اس شعار کی طرف توجہ دیں اور ہر شخص کے چہرے پر خوبصورت ڈاڑھی دکھائی دے تو عدالت کبھی یہ بات نہیں کہہ سکتی کہ ڈاڑھی مسلمانوں کے لیے ضروری نہیں ہے اور وہ ایک متبادل کے طور پر ہے، یہ خیال قانون کی کتاب میں نہیں ہے ، یہ ایک مشاہداتی عمل ہے جس کا سہارا لے کر جج صاحبان اس قسم کی رائے زنی کرتے رہتے ہیں ۔ اس سے پہلے کئی معاملات ڈاڑھی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں آچکے ہیں، اور جج صاحبان نے اسی قسم کا تبصرہ کرکے اپنے فیصلے میں ڈاڑھی کو غیر ضروری قرار دیا تھا ،ایسا ہی ایک موقع تھا جب مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی موجودہ امیر شریعت وجنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جسٹس کاٹجو کے سامنے ڈاڑھی کے معاملہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا تھا، جسٹس کاٹجو کی سمجھ میں بات آگئی تھی ، مقدمہ دوسری پنچ میں منتقل ہوا، فیصلہ آیا اور اس وقت سے جسٹس کاٹجو کی ذہنیت ہی بدل کر رہ گئی ہے ۔
اگر مسلمان اس مقدمہ سے سبق لے کر ڈاڑھی کی سنت کو اپنا لیں اور طے کر لیں کہ اس شعار کی حفاظت ہم اپنے عمل سے کریں گے تو سارا ماحول بدل کر رہ جائے گا ، اور دوسرے بھی اس بات کو تسلیم کرنے لگیں گے کہ یہ مسلمانوں کی نجی پسند نا پسند، کا معاملہ نہیں ہے ، بلکہ اس کی بنیاد شریعت میں ہے اور مسلمان اپنے نبی کی سنت کو نہ صرف نمونہ مانتے ہیں، بلکہ اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، یہ مزاج شریعت کی روشنی میں اپنے اعمال کے جائزہ کے بعد ہی بن سکے گا ۔
اسی طرح بہت ساری مساجد ویران پڑی ہیں، آثار قدیمہ والوں کا ان پر قبضہ ہے، مختلف تنظیموں کی جانب سے ان کی واگذاری کے لیے جد وجہد ہو رہی ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم نے خودہی اس مسجد کو پہلے چھوڑا ہے ، ہم نے اسے ویران کر دیاتو وہ دوسرے کے قبضے میں چلی گئی ، اگر ہم نے تبدیلی مقام کے وقت اس کا بھی خیال رکھا ہوتا کہ یہاں ایک اللہ کا بھی گھر ہے اور اس کو اپنے سجدوں سے آباد رکھنے کی ذمہ د اری ہماری بھی بنتی ہے تو بہت ساری مساجد کو بچایا جا سکتا تھا ، اور اب بھی اس کے امکانات واضح اور روشن ہیں، لیکن ہم نے صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھا، اللہ کے گھر کی آبادی کے بارے میں نہیں سوچا، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ اسی طرح ہم کسی کو کوئی بات کہتے ہیں، اس نے مان کر نہیں دیا تو سوچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس نے کیوں نہیں مانا، اس طریقہ میں خرابی یہ ہے کہ سارا غصہ دورسرے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ، ہم اس معاملہ کو اس طرح بھی توسوچ سکتے ہیں کہ ہمارے کہنے میںکہاں کمی رہ گئی ہے ، اس طرح اپنی کمی کا احساس ہمیں خود احتسابی پر مجبور کرے گا اور ہم اپنے طریقۂ کار میں مثبت تبدیلی کرنے پر قادر ہو سکیں گے ۔
یہی حال درس وتدریس کا ہے ، طلبہ سبق یاد نہیں کر رہے ہیں، مطالعہ کا اہتمام نہیں کرتے، غیر حاضری کر رہے ہیں، ایسے میں ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم سارا قصور ان کا قرار دے کر طلبہ کو مطعون کریں ، انہیں جسمانی تعذیب سے گزاریں ، اور ایک طریقہ یہ ہے کہ طلبہ کے محاسبے کے بجائے اپنا احتساب کریں کہ پڑھانے میں ہم سے کیا کمی رہ گئی کہ طلبہ سبق کی طرف متوجہ نہیں ہو سکے ، احتساب کا یہ عمل ہمیں سوچنے پر مجبور کرے گا کہ تدریس کو دلچسپ بنایا جائے اور طلبہ شوق اور رغبت سے سبق یاد کریں۔
یہ چند مثالیں دی گئی ہیں، ایسی بہت ساری مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں، جس سے خود احتسابی کی اہمیت واضح ہوتی ہے ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر بات میں دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہے ، اوریہ حقیقت سے دور بھی ہے ۔ کبھی کبھی دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بعد جب حقیقت سامنے آتی ہے تو اپنا ہی سر پیٹنے کو جی چاہنے لگتا ہے ، اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے اور داخلی سطح پر خود احتسابی کے عمل سے گذر کرہی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے ۔
گھر خاندان اور اداروں کے نظام کو چست ودرست رکھنے کے لیے بھی انفرادی واجتماعی خود احتسابی کی ضرورت ہوتی ہے ، گارجین اور ذمہ داروں کی تھوڑی سی چوک اور ہلکی بے راہ روی سے سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ، گھر میں بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، بچے بات نہیں مانتے اور کام سلیقے سے نہیں ہو رہا ہے تو خود احتسابی کرنی چاہیے کہ کہیں ہمارے کسی عمل کی وجہ سے لوگوں میں بے راہ روی تو عام نہیں ہو رہی ہے، اپنے اعمال کی اصلاح سے ماتحتوں کے اعمال کو درست کرنا آسان ہوجاتا ہے ، کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ کے الفاظ اس طرف رہنمائی کرتے ہیں ، ماتحتوں کے بارے میں سوال کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اعمال در اصل نگراں کے اعمال کا پرتو ہیں۔ خود احتسابی کے لیے ایک استاذ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ استاد انسان کا اپنا ضمیر ہے ، جب کسی انسان کو باہر کی سزا سے زیادہ ضمیر کی سزا کا خوف ہو تو اس کے اعضائ غلط اعمال کی طرف نہیں بڑھ سکتے، یہ ضمیر ایک مانیٹر ہے جو صحیح اور غلط میں فرق بتاتا رہتا ہے اور تنبیہ کرتا رہتا ہے کہ آپ کے اعمال کی بنیاد بیرونی خوف اور لالچ کے بجائے آپ کے اندر کی آواز پر ہونی چاہیے، یہی مفہوم ہے استفت قلبک یعنی فتویٰ اپنے دل سے لو ، بہت سارے لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے ، اپنے دل کی آواز پر کان نہیں دھرتے اور خود احتسابی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
خود احتسابی کو زندگی کی ضرورت بنانے اور اس کے تصور کو پروان چڑھانے میں خاندان ، تعلیمی ، ملی ، سماجی، مذہبی اداروں اور ذرائع ابلاغ کا مرکزی کردار ہے، لیکن بکی ہوئی گودی میڈیا اپنا احتساب تو کرہی نہیں پا رہی ہے ، وہ دوسروں کو خود احتسابی کے لیے کس طرح تیار کر سکے گی، البتہ مختلف قسم کے اداروں سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود احتسابی کے عمل کو معتدل انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت مان کر اس عمل کو آگے بڑھانے میں اپنی حصہ داری نبھائیں گے۔