ایک زمانہ تھا جب مرکزی حکومت مرکزی مدرسہ بورڈ بنانے کے لیے مصر تھی، اور اس نے پورے ہندوستان سے ایک ہزار سے زائد علماء کی میٹنگ بلائی تھی، اس وقت حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اوردوسری ملی تنظیموں نیزدینی تعلیمی اداروں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز روبہ عمل نہیں لائی جا سکی، علماء اس قسم کے بورڈ کے مضر اثرات کو دیکھ چکے تھے، اور ان کی نظر میں حضرت مولانا محمدقاسم نا نوتویؒ کے اصول ہشت گانہ تھے، جس میں مدارس کو سرکاری نظام سے جوڑنے سے منع کیا گیا ہے۔ مرکزی مدرسہ بورڈ نہ بن سکا، لیکن ملک کی مختلف ریاستوں میں الگ الگ مدرسہ بورڈ پہلے سے قائم ہے اور ان سے ملحق مدارس کا تعلیمی نظام ونصاب مدرسہ بورڈ کے ما تحت ہے، ان مدارس کے تعلیمی معیار سے مطمئن نہ ہونے اورنصاب تعلیم میں غیر معمولی سرکاری دخل اندازی کے باوجود یہ مدارس اپنا کام کرتے رہے اوربعض صوبوں میں حکومت بھی ان کی کارکردگی کو ماڈل کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، بہار اڈیشہ،جھارکھنڈ، آسام، اتر پردیش، مدھیہ پردیش وغیرہ میں مدرسہ بورڈ کے ماتحت یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، پہلے مدارس کے اساتذہ کوسرکاری امداد دی جاتی تھی، جو انتہائی قلیل تھی اور سال سال بھر کے بعد مدارس میں پہونچتی تھی، دھیرے دھیرے اس میں اصلاح ہوئی اور مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ میں غیر معمولی اضافہ ہوا، گو اب بھی اس کا معیار اسی درجہ کے سرکاری کارکنان سے کم ہے اور وہ بہت ساری ان سرکاری مراعات سے بھی محروم ہیں، جو سرکاری کارندوں کو برسوں پہلے سے دی جا رہی ہے،بعض ریاستوں میں مدارس کو تنخواہ کے علاوہ عمارت کی تعمیرات کے لئے بھی رقم فراہم کی جاتی ہے،جیسا کہ ابھی حال ہی میں راجستھان سرکار نے کیا ہے،
بی جے پی دور حکومت میں یہ مدارس خواہ آزادانہ کام کر رہے ہوں، یا بورڈ کے ما تحت ہوں بی جے پی اور اس کی پشت پناہ آر ایس ایس کو بُری طرح کھٹکنے لگی، سب سے پہلے اتر پردیش میں یوگی حکومت نے ان مدارس پرطرح طرح کی پابندیاں لگائیں، نصاب تعلیم میں ترمیم کرکے مدارس کی تعلیم کے اصل موضوعات کو کم کیا، جس سے مدارس کے نظام تعلیم پر برُااثر پڑا، اور وہ دینی سے زیادہ عصری تعلیم کے مراکز ہو گیے اور ان میں دھیرے دھیرے وہ تمام بے راہ روی راہ پانے لگی جوسرکاری اداروں کی اِن دنوں شناخت بن چکی ہے، اس کے با وجود یوپی حکومت نے ان مدارس کو بند کرنے کا دم خم نہیں دیکھا یا، یہ مدارس آج بھی چل رہے ہیں، لاک ڈاؤن میں جس طرح سب جگہ تعلیم وتدریس بند ہے، یہاں بھی بند ہیں، لیکن ان کا وجود قائم ہے، اور لاک ڈاؤن کے بعد یہ پھر سے کام کرنے لگیں گے۔
آسام میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور امسال وہاں انتخاب ہونے ہیں، بی جے پی حکومت ہندو توا رائے دہندگان کو متحد کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف مسلسل کام کر رہی ہے، سی اے اے، این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کو پریشان کر نے کے بعد سرکاری گرانٹ سے چلنے والے مدارس کو عام اسکولوں میں تبدیل کرنے کا اس نے فیصلہ کرلیا ہے، اس فیصلے میں سنسکرت پاٹھ شالے بھی شامل ہیں، آسام کے وزیر تعلیم بیمانتا بسوا شرما نے اسمبلی میں یہ بل پیش کیااور اس بل کے ذریعہ آسام میں مدرسہ اور سنسکرت اسکولوں کو ہمیشہ کے لیے عام اسکولوں میں تبدیل کرنے اور آسام میں کبھی بھی مدرسہ یا سنسکرت اسکول نہ کھولنے کا قانون پاس کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔
آسام میں سرکاری مدارس کی تعداد 614ہے، آزاد مدارس کی تعداد 900سے زائدہے، ایک سو سنسکرت سرکاری اسکول اور 500/ نجی اداروں کے ذریعہ چلائے جانے والے سنسکرت اسکول ہیں، اس قانون میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ مدارس کے عملے نہیں بدلے جائیں گے، صرف نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو عصری اسکول کے مطابق کیا جائے گا اور وہ آسام کے تعلیمی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر کام کریں گے، عملے نہ بدلنے کی بات حیرت انگیز ہے،اس لئے کہ مدارس میں جو اساتذہ پڑھا رہے تھے وہ عصری علوم کے بہت سارے سبجیکٹ پڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے،ایسے میں بغیر عملہ بدلے ہوئے اسکولی نصاب کی تعلیم اور تکمیل کس طرح ہو پائے گی یہ سمجھ سے باہر ہے،اگر سابقہ تدریسی عملہ کو ہی عصری علوم کی تدریس پر لگا دیا گیا تو یقینی طور پر کار طفلاں تمام ہو جائے گا،اور کوالیفائڈ جاہلوں کی پوری فوج تیار ہو جائے گی،اس کے علاوہ اندیشہ یہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے وہاں بھی سرکار ی گرانٹ سے چلنے والے مدارس کو بند کرنے کی مہم چلنے لگے گی، یقینا مسلمانوں کے پاس آج بھی ایسے وسائل مہیا ہیں اور مادی قوت موجود ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو سرکاری امداد کے بغیر بھی چلا سکتے ہیں،ملک کے بیش تر حصوں میں پھیلے ہوئے مدارس دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ مدارس کا شمار اقلیتی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، جسے دستور میں دیے گیے بنیادی حقوق کے تحت قائم کیا گیا ہے،اس کی اپنی کمیٹی ہوتی ہے جو اس کو صالح بنیادوں پر قائم رکھنے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے سر گرم عمل رہتی ہے، ظاہر ہے جب یہ مدارس سرکاری اسکول میں بدل جائیں گے تو اس کا اقلیتی کردار ختم ہوجائیگا، حالاں کہ یہ کردار دستوری ہے اور قانون میں اس کے تحفظ کے دفعات موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدارس کی جوجائیداد، آراضی وغیرہ ہیں، اس کو کسی نہ کسی نے اسلامی تعلیم وتدریس کے لیے وقف کیا تھا، شریعت یہ کہتی ہے کہ اوقاف کی چیزیں واقف کی منشاء کے علاوہ استعمال نہیں کی جاسکتیں، جب سرکار مدارس کو ختم کرکے اسکول بنادے گی تو یہ واضح طور پر واقف کی منشا کے خلاف ہوگا اور شریعت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ آسام میں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف زبر دست تحریک چلائی جائے، اسمبلی کے اندر حزب مخالف کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف اس کی مخالفت کرتی رہی ہے، لیکن اسمبلی کے اندر وہ کامیاب ہوتا ہے،جس کی اکثریت ہوتی ہے، وہاں بی جے پی کی اکثریت ہے، اس لئے یہ بل قانون بن گیا؛لیکن اسمبلی کے باہر کی تحریک عوامی ہوتی ہے اور عوام کے احتجاج کی ہوا جب تیز ہوتی ہے تو وہ پاگل آندھی بن جاتی ہے، جو سارے بند دروازے توڑ کر رکھ دیتی ہے، آسام میں اسی قسم کی تحریک کی ضرورت ہے، ورنہ آنے والے دنوں میں ہمارے علوم، مدارس، تہذیب وثقافت سبھی کچھ کے خطرے میں پڑ جانے کا امکان ہے، اعلی اخلاقی اقدار اور انسانیت کے فروغ میں مدارس اسلامیہ کا کردار ہر دور میں مثالی رہا ہے،ہم زندہ قوم ہیں،اور زندہ قوموں کی ترقیات سرکاری خیرات کی مرہون منت نہیں ہوتی،زندہ آدمی اپنے پیروں سے چلتا ہے اسے چار کاندھے کی ضرورت نہیں ہوتی،اگر حکومت کو مدارس پر خرچ کی جانے والی رقم سیکولر قدروں کے خلاف لگتی ہے تووہ امداد بند کر دے اور گرانٹ واپس لے لے گویہ فیصلہ بھی احمقانہ اور دستورکے اعتبار سے غلط ہوگا،مگر کسی درجہ میں اسے گوارہ کیا جاسکتا ہے؛لیکن یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ ہماری محنت،جدوجہد سے وقف کی زمین پر قائم اداروں کی حیثیت کو بدل کر رکھ دیا جائے،یہ ادارے مدارس ہیں اور مدارس رہیں گے،اسی لئے حکومت آسام کو ہمارامشورہ ہے کہ مدارس بند مت کرنا،کیونکہ یہ غریب پس ماندہ طبقات میں تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں یہ ختم ہو جائے گا تو غرباء کے بچے تعلیم، تہذیب و ثقافت سے محروم رہ جائیں گے