ایام ِ قربانی میں قربانی سب سے پسندیدہ عمل

قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے ،اللہ تعالی کے نام پر جانور کی قربانی کا عمل گذشتہ امتوں میں بھی رہااور لوگ جانوروں کی قربانی دیا کرتے تھے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:ولکل امۃ جعلنامنسکا لیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام ۔( الحج:۳۴)اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی اس غرض کے لئے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں ۔لیکن جب قربانی کا لفظ بولا جاتا ہے اور سماعتو ں سے ٹکراتا ہے فوراذہن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ولافانی اور محیر العقول قربانی کی طرف جاتا ہے اور دل وجان میں ایک ایمانی حرارت دوڑجاتی ہے ،نگاہوں کے سامنے اطاعت وفرماں برداری اور فنائیت کا عجیب نقشہ گھومنے لگتا ہے ۔کہ حضرت ابراہیم ؑ اللہ تعالی کا حکم پاکر اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرنے تیار ہوگئے۔قربانی کی اہمیت وعظمت کیا ہے اس کے لئے ذیل میں چند احادیث پیش کی جارہی ہے،تاکہ اندازہ ہوکہ یہ کتنا محبوب اور پسندیدہ عمل ہے اور اس عمل سے روگردانی اختیار کرنے والوں کے سلسلہ میں کس قدر سخت وعید نبی کریمﷺ سے منقول ہے۔
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے :ان رسول اللہﷺ قال:ماعمل آدمی من عمل یوم النحراحب الی اللہ من اھراق الدم ،انہ یاتی یوم القیامۃ بقرونھاواشعارھاواظلافھا،وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع من الارض ،فطیبوابھانفسا۔(ترمذی:حدیث نمبر؛۱۴۰۹) کہ عید والے دن قربانی کے عمل سے زیادہ کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں اوراس جانور کو قیامت کے دن سینگوں ،کھروں ،اور بالوں کے ساتھ لایا جائے گا( یعنی تولہ جائے گا)اور اللہ اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے پہلے قربانی قبول فرمالیتے ہیں ،لہذا خوش دلی سے قربانی دیا کرو۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا : یافاطمۃ قومی الی اضحیتک فاشھدیھا،فان لک بکل قطرۃ تقطرمن دمھاان یغفرلک ماسلف من ذنوبک ،قالت :یارسواللہ ،النا خاصۃ اھل البیت ،اولناوللمسلمین ؟قال بل لناوللمسلمین ۔(مستد رک علی الصحیحین:حدیث نمبر؛ ۷۵۸۹)کہ اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ کیوں کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کی وجہ سے تمہارے پچھلے گناہ معا ف ہوجائیں گے ،حضرت فاطمہ ؓ نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! یہ فضیلت کیا صرف ہمارے لئے یعنی اہل بیت کے لئے مخصوص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:یہ فضیلت تما م مسلمانوں کے لئے ہے ۔
ایک مرتبہ صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا :یارسول اللہ ﷺ،ماھی الاضاحی؟قال سنۃ ابیکم ابراھیم ،قالوافمالنافیھا یارسول اللہ ﷺ؟قال بکل شعرۃ حسنۃ،قالوافالصوف یارسول اللہﷺ؟قال:بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ۔( ابن ماجہ :حدیث نمبر؛۳۱۲۶)کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔صحابہ نے عرض کیا کہ ہم کو اس سے کیا ملتا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہر بال کے بدلہ ایک نیکی،صحابہ نے عر ض کیا : اون والے جانور یعنی (بھیڑ،دنبہ )کے ذبح پر کیا ملتا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلہ میں بھی ایک نیکی ملتی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کا معمول رہا کہ آپ ﷺ قربانی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ،چناں چہ حدیث میں ہے :اقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ عشرسنین یضحی کل سنۃ۔((ترمذی:حدیث نمبر؛۱۴۲۳) ) آ پﷺ نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا( اس قیام کے دوران ) آپ ﷺ قربانی کرتے تھے۔آپ ﷺ نے صاحب ِ استطاعت ہونے کے باوجود بھی قربانی نہ دینے والوں کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی ۔ارشاد ہے :من کا ن لہ سعۃ ،ولم یضح فلا یقربن مصلانا۔( ابن ماجہ:حدیث نمبر؛۳۱۲۲)کہ جو آدمی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گا ہ کو نہ آئے ۔
اللہ تعالی نے اس قربانی کے نظام کو امت میں باقی رکھ کر یہی چاہا کہ مسلمان ہمیشہ حضرت ابراہیم ؑواسماعیل ؑکے یادگار واقعہ سے سبق حاصل کریں ،اطاعت الہی میں کس درجہ اللہ کے ان نیک بندوں نے اپنے آپ کو مٹایا تھا؟اور حکم خدا کو پورا کرنے میں کیسی کٹھن منزلوں سے گزر کر محبوبیت کے مقام کو حاصل کیا تھا ؟اس کو کسی بھی وقت فراموش نہ کریں۔قربانی سے مقصود مسلمانوں کے جذبۂ اندروں کو دیکھنا ہے ،ان کی اطاعت و فرماں برداری کوپرکھنا ہے ،اتباع و انقیاد کا جائزہ لینا ہے ۔اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے صاف فرما دیا کہ :لن ینال اللہ لحومہا ولادماء ھاولکن ینا لہ التقوی منکم ۔(الحج:۳۷)اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے ،نہ ان کا خون ،لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے ۔قربانی کرتے وقت ایک مسلمان دعا پڑھتا ہے :ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ بذلک امرت وانا اول المسلمین۔( الانعام:۱۶۲)بیشک میری نماز،میری عبادت اور میراجینامرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ،اس کاکوئی شریک نہیں ہے ،اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے ،اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والاہوں۔ان چیزوں سے در اصل بندہ کے جذبۂ اطاعت کو تازہ کروایاجارہاہے اور عہد و وفا کی تجدید کروائی جارہی ہے ،اس کے ذہن ودل میں یہ بات پیوست کی جارہی ہے کہ دنیا میںلئے میرے سب سے عظیم اور اہم چیز وہ حکم خدا کی پاسداری اور اس کی اطاعت و وفاداری ہے ۔
کورونا وائرس (کویڈ ۱۹) کے سخت حالات میں عید الاضحی کی آمد ہونے والی ہے ،ماہ ِ رمضان المبارک بھی اسی وبائی بیماری میں گذرگیا۔اب مسلمانوں کی دوسری بڑی عید ’’عید الاضحی ‘‘ کی آمد ہوگی، بقرعید کے موقع پر چوں کہ دنیا بھر میں مسلمان جانور کی قربانی دیتے ہیں،ان حالات میں عید ِ قرباں آنے کی وجہ سے بعض لوگوں کی جانب سے یہ بات بھی چلائی جارہی ہے کہ اس مرتبہ قربانی کے بجائے ،قربانی کی رقم کو ضرورت مندوں میں خرچ کیاجائے،کیوں کہ بہت سے لوگ بیمار ہیں،جن کے پاس علاج معالجہ کی سہولت فراہم نہیں ہے ،اور بہت سے لوگ بے روزگار وپریشان حال ہیں ،لہذا ان حالات میں قربانی دینے کے بجائے اس کی رقم سے مریضوں کی خدمت کی جائے ،رفاہی اور فلاحی کاموں میں پیسوں کو خرچ کیاجائے،سوشل میڈیا پر اس طرح کی باتوں اور خبروں کو غلط انداز میں پیش کرکے ذہنوں میں الجھن پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے،ممکن ہے اچھی نیت کے ساتھ کوئی اس طرح کی بات رکھے ،لیکن صرف نیت کا اچھی ہوجانا کافی نہیں بلکہ عمل کا بھی درست ہونا ضروری ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔اسلام نے موقع کے لحاظ سے جن عبادتوں کو انجام دینے کا حکم دیا ہے ایک مسلمان کو شریعت کی مطلوبہ تعلیم کے مطابق ہی عبادت کو انجا م دینے کی فکر او رکوشش کرنا ضروری ہے۔اسلامی عبادات اور شعائر والی تعلیمات کو اسلام نے واضح طور پر بیان کردیا ہے،لہذا اس میں کمی بیشی کا اختیار نہیں ،جس طرح نبی کریمﷺ نے تعلیم دی ،امت کو اسی کے مطابق انجام دینا ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ بہت بہترین چیزہے،مجبور وپریشان حال کی مدد کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے،بیمار ومریض کی صحت کے لئے مال کو خرچ کرنا یقینا بہت بڑاکارِ ثواب ہے،بے روزگاروں کی مددکرنا،بھوکوں کوکھلانے کی فکر وکوشش کرنا قابل ِ تحسین عمل ہے،جن کے پاس علاج کے لئے پیسہ نہیں ہے ان کی امدادکرنا اجر وثواب کا باعث کام ہے،وبائی مرض سے پریشان حال لوگوں کو ہرطرح سے راحت پہنچانے کے لئے تگ ودو کرنا لائق ِ ستائش کام ضرورہے۔لیکن اس کے لئے کسی عبادت کی اہمیت کو گھٹادینایاعظمت کو کم کردینا درست نہیں ہے۔ایام ِقربانی میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل جانور کی قربانی کرنا ہے،جن کو اللہ تعالی نے حیثیت ووسعت عطافرمائی ہے اور ان پر قربانی واجب ہے انہیں ضرورقربانی دینا ہوگا،اس سے کسی بھی طرح مفر نہیں ہے۔البتہ علماء نے کہا ہے کہ نفلی قربانی اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایصال ِ ثواب کی نیت سے کی جاتی ہے اس میں قربانی دینے والے کو اختیارہے کہ وہ نفلی قربانی دے یا اس کے بجائے ضرورت مند کی مدد کرے،لیکن اپنے ذمہ واجب ہونے والی قربانی کو بہر صورت انجام دے۔صاحب ِ نصاب کے لئے کوئی دوسرا عمل ایام ِ قربانی میں قربانی کا بدل نہیںہوسکتا۔
لہذا غیر ضروری چیزوں کو پھیلانے سے بچنا بھی چاہیے اور غیر ضروری چیزوں میں پڑنے سے احتیاط بھی کرنی چاہیے ،اسلامی تعلیمات کے مطابق اس مرتبہ بھی عید الاضحی کو منانے کی فکرکرنا ہے،اور جن کو اللہ تعالی نے قربانی دینے کے قابل بنایا ہے وہ بے چوں وچرا قربانی کو دے،اللہ تعالی نے اور بھی گنجائش دی ہے تو ساتھ میں غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے بھی اپنے مال کو خرچ کرے۔لیکن یہ ذہنیت کہ قربانی کے بجائے قیمت صدقہ کردیں درست نہیں ہے۔قربانی کی عظمت واہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے،اور مقصود ِ قربانی کو نگاہوں میں رکھنے کی ضرورت ہے،قربانی انسان کو بندہ ٔ نفس نہیں بلکہ بندہ ٔ رب بننے کا بہت بڑا سبق ہے،جانور کی قربانی کے ذریعہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم حکم ِ الہی کے تابع اور فرماں بردار ہے،اپنی عقل اور ذہن کے غلام نہیں ۔ضرورت مندوں کے تعاون کے لئے اور بھی چیزوں کے ذریعہ ترغیب دی جاسکتی ہے اور اصحاب ِ خیر کو متوجہ کیاجاسکتا ہے۔اللہ تعالی صحیح فہم عطا فرمائے۔

Exit mobile version