رمضان المبارک کی آمد کی خوشیاں اور اس کے استقبال کی تیاریاں مسلمان پورے جوش وخروش اور اہتمام کے ساتھ ماہ ِشعبان ہی سے بلکہ اس سے پہلے ہی سے شروع کردیتا ہے ،ہمارے نبی رحمت ِ دوعالم ﷺ رجب کے مہینہ کے آغاز کے ساتھ ہی رمضان المبارک تک خیر وسلامتی کے ساتھ پہنچنے اور رمضان المبارک کو پانے کے لئے دعا کا اہتمام بھی فرمایاکرتے تھے ۔ایک عجیب وغریب خوشی ومسرت ماہ ِ رمضان المبارک کی آمد کی ہوتی ہے اور ہر مسلمان اس کے لئے سراپاانتظار واشتیاق بنارہتا ہے۔استقبال ِ رمضان کے عنوان سے اجتماعات کا اہتمام ہوتا ہے ،مسجدوں میں جلسے منعقد ہوتے ہیں ،علماء کرام کے بیانات ہوتے ہیں اور رمضان المبارک کو کارآمد بنانے اور اس سے فیض یاب ہونے کے سلسلہ میں گراں قدر پیغامات سے براہ ِ راست استفادہ کیاجاتا ہے ۔انوار وبرکات ،الطاف وعنایات،جود وکرم ،بخشش ومغفرت،رحمت ومعافی، خیر وبھلائی اور بے شمار چیزیں لے کر رمضان المبارک سایہ فگن ہوتا ہے۔جیسے جیسے شعبان کا مہینہ گزرتے رہتا ہے فکروں اور تمناؤں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے اور بے تابی وشوق کے ساتھ رمضان المبارک کے برکتوں والے دن ورات کو پانے کے لئے ایک مومن کی فکر مندی و دل کی بے قرار ی قابلِ دید ہوتی ہے ۔
لیکن کیاکیجیے جب سے کورونا وائرس نے پوری دنیا پر اپنا خوف ناک حملہ کیاہے اورانسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیاہے ،پورا نظام عالم ہی بدل کررہ گیا ،ہر طرف خوف ودہشت طاری ہے ،بیمار بھی خوف زدہ ہیں اور جو بیمار نہیں ہیں وہ خبرو ں اور غیر ضروری ہنگامہ آرائیوں سے پریشان ہیں۔اس خطرناک وائرس سے بچنے کے لئے مختلف قسم کی تدبیروں سے لوگ گزررہے ہیں ،احتیاطی تدابیر کواختیارکرتے ہوئے ہمارے ملک میں گزشتہ ایک مہینہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے جو مئی کی ۳ تاریخ تک جاری رہے گا،اور معلوم نہیں پھر اس کے بعد کیا فیصلہ ہوگا ؟جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے اس وقت تک اس کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ ہلاکتیں ہوئی ہیں،اور بائیس لاکھ سے زائد لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ہمار املک بھی اس کی خطرناکی سے دوچار ہے۔دعاکریں کہ اللہ تعالی اس وباسے پوری دنیا کو جلد چھٹکارانصیب فرمائے اور عافیت وسلامتی کے دن واپس عنایت فرمائے۔آمین
ان حالات میں رمضان المبارک کی آمد پُربہار ہونے والی ہے ،مسلمانوں کے دلوں میں فکریں بھی ہیں اور غم بھی ،فکر اس بات کی ہے کہ کسی طرح رمضان المبارک کو صحیح گزارنے کا موقع مل جائے ،اور غم اس کا ہے کہ زندگی کا پہلا رمضان المبارک ہوگا جس کوگھروں میں رہ کر گزارنا ہے اور عبادتوں ،نمازوں اور تراویح کو گھروں میں رہ کر ہی انجام دینا ہے۔ملک کے مؤقر علماء کرام ، مکاتب ِ فکر کے ذمہ داران نے یہی فیصلہ کیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ ان حالات میں گھروں میں ہی رہ کر عبادتوں کو انجام دیں ،کیوں کہ اس وائرس کو ختم کرنے کے لئے جو کوششیں کی جارہی ہیں اس کاایک اہم ترین حصہ لوگوں کو اختلاط واجتماع سے روکنا ہے ۔اسی کے پیش ِ نظر لاک ڈاؤن بھی کیاگیا،اب اسی کی رعایت کرتے ہوئے گھروں میں ہی رہ کر اعمال کو انجام دینے کی ہدایت بھی ہے۔
ان حالات کی وجہ سے ہمیں ہرگز مایوس وناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اعمال وافعال کو انجام دینے کے سلسلہ میں غفلت برتنا ہے ۔بلکہ جس شوق اور جذبے کے ساتھ ہم ہمیشہ جس طرح رمضان المبارک کا استقبال کرتے آئے ہیں اور اہتمام کرتے رہے ہیں ،اسی طرح ہمیں رمضان المبارک کا استقبال کرنا ہے ،اعمال کو انجام دینے کی فکر کرنا ہے اور نئے جذبے اور شوق کے ساتھ رمضان المبارک کے ایک ایک دن اور لمحے کو گزارنے کی کوشش کرنا ہے۔یقینا ہمارا دل اس کی وجہ سے ٹوٹا ہوا ہے کہ ہم مسجدوں کو جاکر عبادت انجام نہیں دے پارہے ہیں ،ہمارا اندرون تڑپ رہا ہے کہ کب خدا کے گھر کے دروازے سب کے لئے کھلیں گے اور ہم بے تابا نہ دوڑ کر مسجدوں کو جائیں گے اور مسجدکی درودیوار سے چمٹ کر خوب روئیں گے ،اب تک کی غفلتوں اور کوتاہیوں پر شرمندگی کے آنسو بہائیں گے اور نئے عزم ولولہ کے ساتھ زندگی بھر مسجدوں کو آباد رکھنے کا عہد پرورگار ِ عالم سے کریں گے۔ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ،شکستہ ارمانوں اور ناتمام امیدوں کولے کر جب بندہ خدا کے آگے ہاتھ اٹھاتا ہے اور دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی ضرور اس کی دعا کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔جب ہم ان حالات کی وجہ سے پریشان ہیں اور مختلف قسم کے مسائل ومصائب سے دوچار ہیں تو ایسے موقع پر بطور خاص اللہ تعالی سے دعاؤں کا اہتما م کرنا چاہیے کہ وہ ان حالات کو ختم فرمائے اور عافیت وبہار کے حالات کو پھر سے لوٹادے۔ممکن ہے کہ دوسرے مرحلہ کا لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کچھ بہتر فیصلے ہوں گے اور حالات کی بہتری پر کچھ راحتیں مہیا ہوں گی اورآسانی کی شکلیں سامنے آئیں گی۔دعا ایک مؤثر ذریعہ ہے ہم پورے خلوص دل کے ساتھ کریں ،اور یقین ہو کے اللہ تعالی ہی حالات بدلنے والا ہے ،اسی کے ایک اشارے پرپورا نظام قابو میں آجائے گا،اور دنیاوانسانیت کو اس خطرناک وباسے چھٹکارا مل جائے گا۔
اس رمضان المبارک میں ہمیں بہت سے نئے تجربات سے گزرنا پڑے گا۔پہلے لوگ گھروں میں صرف سنتیں اور نوافل ہی اداکرتے تھے او ر وہ بھی تھوڑے لوگ ،ورنہ ایک بڑی تعداد مساجد ہی میں فرض کے ساتھ سنتیں وغیرہ بھی اداکرکے واپس ہوتی تھی ،لیکن اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں فرض نماز بھی اداکرنے کا تجربہ ہوا اور گھروالوں کے ساتھ کس طرح نماز ِ باجماعت اداکی جاتی ہے بہت سے لوگوں کوجاننے کا موقع ملا۔اسی طرح جمعہ کے دن مرد حضرات اب تک مسجدوں میں ہی نمازِ جمعہ اداکرتے رہے ،لیکن اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ مسائل بھی معلوم ہوئے کہ اگر مجبوری اور معذوری ہوتو کس طرح گھروں میں چند افراد کے ساتھ یامسجد کے علاوہ مقام پر کس طرح نمازِ جمعہ اداکی جاتی ہے ؟اس کے شرائط کیا ہیںاور طریقہ کیاہوگا؟۔اسی طرح اس لاک ڈاؤن میں ماہ ِ رمضان المبارک کی آمد ہورہی ہے تو نمازِ تراویح گھر میں کیسے اداکی جائے گی؟تراویح میں قرآن سننے کا کیا نظام بنانا ہوگا؟اگر حافظ دستیاب نہ ہوتو گھر میں ہی جماعت کے ساتھ کس طرح نمازِ تراویح پڑھی جائے گی ؟کیا قرآن مکمل کرنا ضروری ہوگا؟یا چند سورتوں کے ساتھ بھی نمازِ تراویح کی بیس رکعات اداکی جائے گی؟اگرکسی کو چند سورتیں ہی یاد ہیں تو وہ کیا کریں گے؟اس سے متعلق اور بھی مسائل کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔
گھروں میں تقریبا ایک مہینے سے لوگ رہ رہے ہیں ،تمام تر مصروفیات ختم ہوکر لوگ گھروں میں پڑے ہوئے ہیں ،اس کا بھی ایک تجربہ ہوااور بہت سے لوگوں نے اپنے وقت کو کارآمد بنانے کے لئے مختلف قسم کی گھریلومصروفیات کو بڑھایااور گھروالوں کے ساتھ رہنے اور اوقات کو گزارنے کابہترین موقع پایا۔اب اس رمضان المبارک میں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ روزہ کی حالت میں گھرمیں رہنااور اعمال وغیرہ کو انجام دینا کیسے دلچسپ رہے گا،اور دینی مصروفیات کو اپنے تمام گھروالوں کے ساتھ انجام دینے کا ایک نیا تجربہ ملے گا۔دنیوی بہت سے کام تو لوگ کرتے رہے اور کوئی ناکوئی حیلے بہانے بناتے رہے،اب ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ دینی اعتبار سے اور اعمال کو انجام دینے کے لحاظ سے بھی اپنے ساتھ تمام گھروالوں کی فکر کریں اور ایک مکمل نظام العمل کے تحت رمضان المبارک کو گزارنے کی کوشش کریں ۔یقینا باہر کی چہل پہل اور خارج کی بھاگ دوڑ نہیں ہوگی لیکن اندرون ِ خانہ ہی ہم اپنی عبادتوں کے ذریعہ ایک نورانی ماحول بناسکتے ہیں اور گھرمیں خوشگوار دینی تبدیلی لاسکتے ہیں۔
ماہ ِ رمضان المبارک بہت سی دینی تربیت اور زندگی کے بہترین نظام سے انسانوں نوازتا ہے ،اخلاق وکردار اور مزاج وعادات کی بہت سی تبدیلیاں زندگی میں رمضان المبارک کی برکت سے پیدا ہوتی ہیں ۔گھروں میں رہ کر اسی تربیتی نظام سے بھر پورفائدہ اٹھانا ہے اور اپنے ساتھ اہل خانہ کو اسی تربیتی نظام کا حصہ بنانا ہے۔
رمضان المبارک میں مسلمان صدقہ وخیرات بہت اہتمام کرتے ہیں ،اس کے فضائل بھی ہیں اور ثواب بھی ،رمضان المبارک سے قبل ہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر بے روزگاروں اور مزدروں اور پریشان حال لوگوں میں بہت سے لوگوں نے غلہ وراشن اور تعاون کا بہترین کارنامہ انجام دیا ہے ،اب رمضان المبارک میں اسی جذبے وعمل کو مزید بڑھانا ہوگااور جن کو اللہ تعالی نے دیا ہے وہ اپنے ساتھ غریب وضرورت لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے کوشش کرنے والے بنیں۔
غرض یہ ہے کہ عام حالات میں جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی تھی اور ہم اس کا استقبال واہتمام کرتے تھے ،ٹھیک اسی طرح ہمیں اس بار بھی اسی شوق کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کرنا ہے ،اسی کو گزارنے کی فکر کرنا ہے ،جو نیک اعمال ہم پہلے سالوں میں کرتے تھے ،ہمارے لئے ان اعمال کو انجام دینے کے اب بھی پورے مواقع حاصل ہیں ،اپنے گھروں میں رہ کر بھی ہم ان تمام اعمال وافعال کو بہ حسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں۔
رمضان المبارک کا نصیب ہوجانا یقینا اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے ،رمضان المبارک پوراکا پورا رحمتوں ،برکتوں اور رب تعالی کی عنایتوں کا مہینہ ہے ،اس کی عظمت،اہمیت اور فضیلت بے شمار ہے ۔ہمیں اس کی بھرپورقدرکرنی چاہیے ،غفلت اور کوتاہی سے بچنا چاہیے، لاک ڈاؤن کے بہانے رمضان المبارک کے اہتمام واکرام میں کمی ہونے نہ دیںاوراعمال کو انجام دینے میں سستی ولاپرواہی نہ کریں۔بلکہ یہ وقت پہلے سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کا ،اس سے مانگنے کااور مسائل ومشکلات سے چھٹکارے کے لئے اس کو پکارنے کا ہے ۔اپنے لئے اورپوری انسانیت کے لئے ،ملک کے لئے ،ریاست اور اپنے شہرکے لئے ،ہر ایک کے لئے اللہ تعالی سے سلامتی اور عافیت مانگے،خوب دعاؤں کا اہتمام کریں ۔اللہ تعالی رمضان المبارک کی قدردانی کرنے والا ،اس سے مکمل فیض یاب ہونے والا بنائے اور خیر وعافیت ،سلامتی ونجات کے فیصلے فرمائے۔آمین