Site icon Asre Hazir

تلاش ِ شب ِ قدر اور ہماری ذمہ داری

رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت ہی اہم عبادات کواپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔چوں کہ یہ رمضان المبارک کا آخری حصہ بھی ہوتا ہے ،جہاں نیکیوں کا موسم ِبہار اپنے عروج وانتہا کو پہنچ چکا ہوتا ہے ،اس لئے اللہ تعالی نے اس عشرے میں بندوں کو کمانے اور اجر وثواب حاصل کرنے کے بہت سے مواقع عطا کئے ہیں ،اسی کا اثر بھی رہتا ہے کہ رمضان المبارک کی شروع ہی سے قدردانی کرنے والا بندہ ٔ مومن بساط بھر عبادت وطاعت کو انجام دینے کی فکر میں رہتا ہے لیکن جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آپہنچتا ہے تو اس کی عبادات اوراس کے اعمال میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے اور تیزی آجاتی ہے اور وہ نیکیوں کے اس رخصت ہوتے ہوئے مہینہ سے جی بھر کر فائدہ اٹھانے کے لئے کمربستہ ہوجاتا ہے۔اور خود نبی کریم ﷺ کے بارے میں بھی منقول ہے حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ :کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل العشر شد میزرہ واحیی لیلہ وایقظ اھلہ ۔( بخاری:2024)کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تھا تو آپ ﷺ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو ( عبادت کے لئے ) جگاتے تھے ۔ایک حدیث میں بیان کیا گیا کہ :کان رسول اللہ ﷺ یجتھد فی العشر الاواخر مالا یجتھد فی غیرہ ۔( مسلم:1177)آپ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں جتنی محنت کرتے تھے اس کے علاوہ میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے ۔
شب ِ قدر جیسی نہایت عظیم الشان اور قیمتی رات بھی اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں رکھی ہے ،جس کی عظمت و اہمیت کو اللہ تعالی نے خود قرآن کریم میں بیان فرمایا کہ یہ رات ایک ہزارمہینوں سے افضل و بہتر ہے ۔یعنی اس رات کو عباد ت کرنے والے کو تراسی ّسال سے زائد عباد ت کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔اس رات کو اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ،جبرئیل امین فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں ،اور جتنے اللہ کے بندے مرد و عورت کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے اللہ تعالی کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتے ہیں سب کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔( بیہقی :3434)شب قدر بطور خاص امت محمدیہ کو ملی ہے اس سے قبل ایسی اجر و ثواب والی رات کسی کو عطا نہیں کی گئی ۔ایک حدیث میں آ پ ﷺ نے فرمایا کہ :ان اللہ وھب لامتی لیلۃ القدر لم یعطھا من کان قبلھم ۔(الدر المنثور:15/540)بلاشبہ اللہ تعالی نے خاص میری امت کو شب ِ قدر عطا فرمائی ہے اس امت سے پہلے کسی کو بھی نہیں عطا فرمائی ۔
اللہ تعالی نے کسی ایک متعین رات کے بجائے شب ِقدر کو آخری عشرے کی طاق راتو ں میں رکھ د یا تاکہ بندے پورے عشرے کا اہتمام کرکے اس رات کو تلاش کرنے میں اور اس کو پانے کی کوشش میں لگے رہیں ۔اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان ۔(بخاری:2017)کہ شب ِ قدر کو کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس میں سے طاق راتوں میں۔اس حساب سے آخری عشرے کی طاق راتیں21,23,25,27,29 کی ہوں گی۔شب ِ قدر جو نہایت عظمتوں والی اور رحمتوں والی رات ہے جس مین عبادت کرنے والے کو بے پناہ اجرو ثواب ملتا ہے ،اتنی عظیم رات ہونے کے باوجود اللہ تعالی نے اس کی تعیین کو اٹھا دیا اور کسی مخصوص رات میں عبادت کرنے کے بجائے پورے عشرے کو عبادتوں سے گذارنے اور تلاش ِشب قدر کی فکر میں لگے رہنے کا حکم دیا ۔
بعض روایتوں میں بیان کیا گیا کہ نبی کریم ﷺکو شب ِ قدر کی تعیین بتلادی گئی تھی اور آپ ﷺ امت کو اس سے باخبر کرنے کے لئے نکلے تھے لیکن باہر دو مسلمان آپس میں جھگڑرہے تھے :آپ ﷺ نے فرمایا کہ :انی خرجت لاخبرکم بلیلۃ القدر فتلاحی فلان و فلان فرفعت وعسی ان یکون خیرا لکم فلتمسوھا فی التاسعۃ والسابعۃوالخامسۃ۔(بخاری: 2023)یعنی میں اس لئے نکلا تھا کہ تم کو لیلۃ القدر کے بارے میںخبردوں ،فلاں فلاں نے جھگڑا کیا تو اس کی تعیین میرے اٹھا لی گئی ،اور شائد یہی تمہارے لئے بہتر ہو ، پس ( آخری عشرہ ) اب اس رات کو انتیسویں،ستائیسویں اورپچیسویں رات میںاس کو تلاش کرو۔حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ :حضرت ابوبکرہ ؓ کے سامنے لیلۃ القدر کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سننے کے بعد اس کو آخری عشرے ہی میں تلاش کرتا ہوں ،رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :کہ اس کو آخرے عشرے میں تلاش کرو،اکیسویں رات میں ،یا تیئیسویں را ت میں ،یا پچیسویں رات میں ،یا ستائیسویں رات میں ،یا آخری رات میں ۔ ( مسند احمد :19922)اس کی علماء نے بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں ۔جن میں چند یہ ہیں: جتنی راتیں اس کی طلب اور جستجو میں خرچ ہوتی ہیںان سب کا مستقل علیحدہ ثواب ملتا ہے ،اگر رات کو متعین کردیا جاتاتو بہت سے ناقص طبیعتیں دوسری راتوں کا اہتمام چھوڑدیتی اور کئی راتوں میں عبادت کے ثواب سے محروم ہوجاتی ،وغیرہ وغیرہ ۔( شب ِ قدر:28)اس رات سے محروم رہنے والے کو نبی کریم ﷺ نے سارے خیر و بھلائی سے محروم رہنے والا قرار دیا ۔من حرمھا فقد حرم الخیر کلھا۔( ابن ماجہ:1634)
ایک مکمل عشرہ اللہ تعالی نے عبادتوں کو انجام دینے اور جی لگا کر اعمال خیر کرنے کے لئے رکھا ،اب عشرہ ٔ اخیرہ کا حقیقی تقا ضا یہی ہے کہ اس کو اس رات کے تلاش میں گذارا جائے ،اور امکان بھر عبادتوں میںلگے رہیں ۔شب قدر سے محروم رہ جانے والے کو نبی کریم ﷺ نے حقیقی محروم قرار دیا ہے ،شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ لکھتے ہیں کہ:حقیقۃ ًاس کی محرومی میں کیا تامل ہے جو اس قدر بڑی نعمت کو ہاتھ سے کھودے ،ریلوے ملازم چند کوڑیوں کی خاطر رات رات بھر جاگتے ہیں اگر اسّی برس کی عبادت کی خاطر کوئی ایک مہینہ تک رات میں جاگ لے تو کیا دقت ہے اصل یہ ہے کہ دل میں تڑپ ہی نہیں اگر ذرا سا چسکہ پڑجائے تو پھر ایک رات کیا سینکڑوں راتیں جاگی جا سکتی ہیں ۔( فضائل ِ رمضان:604)رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو شب ِ قدر کے ہونے کے بارے میں بعض روایتیں وارد ہوئی ہیں۔صحیح مسلم میں حضرت ابی ابن کعب ؓ سے مروی ہے کہ : وہ فرماتے ہیں شب ِ قدر ستائیسویں شب ہو تی ہیں۔( مسلم:2006)حضرت معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ : لیلۃ القدر لیلۃ سبع و عشرین۔( ابوداؤد:1180)مگر چوں کہ نبی کریم ﷺ نے حتمی طور پر اس کو متعین شب میں بیان نہیں کیا اور آخری طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا اس لئے یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ،ہاں مگر امکانات اور امیدیں ستائیسویں شب میں ہونے کے زیادہ ہے اس لئے اس کا زیادہ اہتما م بھی کیا جاتا ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ صر ف ایک رات یعنی ستائیسویں شب ہی کو شب ِ قدر سمجھ کر اہتمام کرنے کے بجائے پورے عشرے او ر بالخصوص پانچ طاق راتوں کے اہتمام کرنے کی فکر کرنی چاہیے ،اورحقیقی قدردانی کرتے ہوئے ہر طاق رات کو کچھ ناکچھ فکر اور کوشش ضرورکرنی چاہیے۔ہمارے معاشرہ میں یہ مزاج عام ہوگیا کہ ستائیسویں شب کو بہت اہتمام کے ساتھ شب ِ قدر کو منایا جاتا ہے ،مسجدوں کو سجایاجاتا ہے ،جلسوں اور بیانات کا اہتما م ہوتا ہے ،اور رات رات لوگ جاگ کر اور گھوم پھر کر بسر کرتے ہیں اور کچھ لوگ بہرحال اعمال کی طرف بھی لگے رہتے ہیں اور باقی راتوں کے بارے میں تصور ہی نہیں ہے کہ ان میں عبادات کا اہتمام ویسے ہی ہونا چاہیے جیسا ستائیسویں شب کو ہوتا ہے۔آخری عشرے کی دیگر طاق راتیں بھی اسی قدر دانی کی مستحق ہیں جنتی کہ ستائیسوں شب ہے۔پانچوں راتوں کو اسی ذوق وشوق کے ساتھ گزارنے کا اہتمام ہونا چاہیے،اور یہ شعور بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ ہمیں ہمارے نبی رحمت دوعالم ﷺ نے ہر طاق رات میں اس عظیم اجر وثواب والی رات کو تلاش کرنے کا حکم دیا کہ جو مل جائے تو 83سال عبادت کا ثواب مل جائے گااور جس میں معافی کا فیصلہ ہوگیا تو رمضان کی آمد ہمارے حق میں عظیم سعادت ہوگی۔اور لمبے لمبے بیانات کے بجائے مختصر ترغیبی اور تذکیری خطابات کے ذریعہ ہر رات کے اہتما م اور اس میں اعمال کوانجام دینے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔

ADVERTISEMENT
Exit mobile version