آج ملک جس ود راہے پر کھڑا ہے ، جس طرح ملک میں بے چینی بے اطمینانی نظر آتی ہے ، ہر طرف ہو کا ساعالم ہے ، ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیامیٹ کرنے کی بڑی سازش رچی جارہی ہے ، نت نئے قوانین کے نام پر لوگوں کے دلوں میں خوف وہراس کے مہیب سائے بٹھائے جارہے ہیں، لوگ اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہیں، خصوصا مسلمان جن کے ساتھ دو رخا پن پہلے ہی سے اختیار کیاجاتارہاہے،مزید کھائی بنائی جارہی ہے ، مسلمان کی جانب شک کی سوئی گھمائی جارہی ہے ، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا اپنے آپ میں یہ ترساتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ دار ی ہے ، مسلمان تو مسلمان رہے غیر مسلم ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور ملک کی خوبصورتی اور ملک کے چین وسکون کے حوالے سے درد رکھنے والا ہر باشندہ بے چینی محسوس کررہا ہے ، ہر شخص کو ایک انجاسا سا خوف ہے ، بے چینی وبے کلی سی لگی ہوئی ہے ، ہر دن کے ساتھ یہ بے چینی بڑھتی جارہی ہے ، ہر زندہ شخص بے چین اور پریشان ہوتا ہے ، یہ زندگی اور حیات کی علامت اور نشانی ہے ، طلبہ اور جامعات کے اسٹوڈنٹس روڈ پر ہیں، ہمیں یہ کہنے میں کوئی بیر نہیں ہے کہ ہمار ا دستور ہمارا محافظ ہے ، ہمارا ترنگا ہمارا محافظ ہے ، یہ دستور کو بچانے اور محفوظ رکھنے کا معاملہ ہے ، دستور کا ہر شخص احترام کرتا ہے اور دستور کو پامال ہوتے ہوئے ہر شخص کو بے چین اور بے کل ہونا چاہئے ، اس لئے دھیرے دھیرے سارا ملک جاگ رہا ہے ، دستور کو محفوظ رکھنا اور دستور کی حفاظت کرنا ہمارا اس وقت کااولین فریضہ ہے ، ہمارا ہی دستور ہے جو ہمیں ملک میں باعزت شہری بن کر رہنے کا حق دیتا ہے ، ہم دیگراسلامی ممالک کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور مامون اور آزاد اس لئے ہیں ہمارا دستور انسانی دستور ہے، انسانیت دوست ہمارا قانون ہے ، یہاں مذہبسے اوپر ہو کر صرف اور صرف انسانیت کی بات کی جاتی ہے ، جس کے دائرے میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی بھی ہر ایک کوحاصل ہے ، ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب پر دستور کے دائرے میں عمل کرے اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے ، لیکن موجودہ بے چینی کا مدوا یہ نظر آرہا ہے کہ دستور کی حفاظت میں ہی ہر مذہب کی حفاظت ہے ، اس لئے دستور اور قانون کی حفاظت کے لئے آواز کا بلند کرنا ہر ملک کے باشندے اور شہری کا بنیادی اور آئینی فریضہ ہے ، دستور کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہ ہو، دستور پر کوئی آنچ نہ آئے ، دستور کے ذریعہ ملنے والے ہر ملک کے باشندے کے ساتھ اس کا حق باقی رہے ،اس میں کوئی تفریق نہ ہو ،بھید بھاؤ نہ ہو، اس لئے کہ دستور کی حفاظت میں ہی کی روایات تقالید، تہذیب ، مذہبی تشخص ، شناخت اور بقا مضمر ہے ۔
ہر امیر ہر غریب ، ہر اگلے اور پچھڑے کی حفاظت اور ملک ہر کونے ہر گوشے کی مذہبی روایات، تہذیبی وثقافتی روایات ،زبان اور کلچر کی حفاظت اور ہر گوشہ کی اپنی تہذیب اور ثقافت اپنا رنگ ولباس اپنا وجود وبقا یہ در اصل دستور کی حفاظت میں مضمر ہے ، دستور کی بنیادی حقوق، بنیادی اکائیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا کھلواڑ یہ کبھی بھی کسی کے بھی حق کو کسی کی بھی زبان کو کلچر کو، تہذیب وثقافت اور مقامی روایات کو پامال کرسکتا ہے ، روایات کو متاثر کرسکتا ہے ، دستور کے دائرے میں مذہبی روایات پر عمل کرنے کی آزادی کو چھینا جاسکتا ہے ۔
سچ کہا ہے کہ جس قدر ہمارا آئین اور ہمارا قانون اور دستور ہمیں تحفظ عطا کرتا ہے ، وہی ہمار اجو پرچم اور ترنگا ہے یہ بھی ہندوستانی تہذیب ملک کی کھلی ثقافت اور مزاج کا آئینہ دار ہے ، سچ کہا تھا نہروجی نے جب انہوںنے پارلیمنٹ میں جھنڈا کو پیش کیا تھا،اس جھنڈے کے تلے ہر شخص کو انصاف ملے گا، ہر غریب کو ہر نہتے کو ہر کمزور کو پچھڑے ہوئے کو اس کے تلے سکون ملے گا، ہمارے آئین کے بنانے والوں کو ہزار ہا سلام اور کی دور اندیش اور دو بین نگاہوں کو خوب خوب دعائیں جنہوں نے قانون کی شقیںاوراکائیاں ایسی ترتیب دی تھیں کہ جس کے سائے تلے ہر شخص کو چین وسکون ، راحت وآرام مل سکے ، ہر شخص اپنے دکھ درد کا مدوا حاصل کرسکے ، مذہبی شناخت اور تشخص اور روایات وتقالید ، تہذیب شناخت کی بقابھی قانون کی حفاظت میں مضمر ہے ، اس لئے قانون کی بنیادی شقوں سے کوئی چھیڑ چھاڑ کبھی نہ ہو، اس لئے ہر شخص کو چوکنا اور ملک کے باشندے کو بیدا ر رہناان کا فرض اور بنیادی ہے ۔مختلف پارٹیاں اور مختلف اذہان کی حامل جماعتیں برسراقتدار آتی اور جاتی ہیں، کسی کے اقتدار کو دوام او ر بقا نہیں ہوتا ۔ لیکن ہر دم یہ خیال رہے کہ ہمارے دستور کے ساتھ کوئی بھی پانچ سال کے لئے منتخبہ حکومت اس کے اصل شقوں میں کتر بینت نہ کرسکے۔
میں بلا کسی تفریق مذہب، قوم، ملت ، مذہب ، خاندان ، غریب ، امیر مزدور کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے دستور کی حفاظت کیجئے ، ہم بالکل محفوظ ہیں،دستور کی حفاظت میں ہی ہمارا ملک محفوظ ، ہم محفوظ ، ہمارا روایات وتشخص محفوظ، ہماری مذہب محفوظ، ہماری ملی اتحاد اور ملکی اتحاد اور سالمیت محفوظ ، ورنہ ہر شخص کی اپنی آزادی ، اپنی رائے ، اپنی بات کہنے کا حق ختم ہوجائے گا، آج نہیں کل نہیں صدیوں صدیوں پر محیط دائرے میں ہماری ملکی قانون کی حفاظت ہمارا فریضہ ہے ۔
آج اس وقت ساری عوام ایک تحریک کی شکل میں روڈوں پر بلا کسی تفریق مذہب وملت کے نمودار ہوئی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف ملک کے دستوراور قانونی کی حفاظت ہے ، ملک کے قانون اور دستوری کی بنیادی شقوں سے چھیڑ چھاڑ ملک کی تباہی وبربادی کاسامان مہیا کرسکتا ہے ، اس لئے ہر شخص کو اس تحریک کو آگے لے جانے اوراس میں دامے درمے سخنے حصے لینے کی اشد ضرورت ہے ، یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ پورے ملک کی سالمیت کامسئلہ ہے ، ورنہ اگر ہم نے دستور کو یوں ہی پامال ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور خاموش بیٹھے رہے ، آنے والا کل ہم پر لعنت کرے گا، اور اگر ہم نے آج دستور اور قانون کے تحفظ کے لئے کسی قدر اپنی آواز بلند کر کے حصہ داری ادا کی اور دستور اور قانون اور ملک کا تحفظ کا ہمیں کچھ بھی حصہ مل گیا تو تاریخ میں ہمارا نام درج ہوگا، جو فسطائی طاقتیں ملک کے قانون کے رد وبدل میں لگی ہوئی ہیں، ان کا یہ ایک دن کا خواب نہیں ہے بلکہ کئے دہائیوں پر مشتمل یہ خواب ہے ، جو روبہ عمل ہوتا ہوا آرہا ہے ، اس لئے ان کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ہوتا، پھر وہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ، ملک کے دستور سے چھیڑ چھاڑ کی تک ودو ضرور کریںگے ، لیکن ہم ملک کی اخوت بھائی ، گنگا جمنی تہذیب اور یہاں کی روایات ، یہاں بولیوں اور تہذیبوں کا تحفظ ہر قدم پر کریں گے، ملک کے آزاد قانون کے دائرے آزاد رہنے کے لئے ، آزاد کھانے کے لئے ،آزاد پڑھنے کے لئے ، آزاد مذہب پر عمل آوری کے لئے ، ہر دم کوشاں اور جواں رہیں گے، یہ جوش وجذبہ جواس وقت نوجوان نسل میں پیدا ہوا ہے ، یہ تحریک اسی طرح سالم رہے تو پھر عدد کی طاقت کے بل بوتے آئندہ کسی کی جراء ت قانون سے چھیڑ جھاڑ کرنے کی نہیں رہے گی، ہم نہرو، امبیڈکر اور گاندھی جی کے سپنوں کا ہندوستان ہی دیکھنا چاہتے ہیں، جس ہندوستان میں نہرو، گاندھی، امبیڈ کر ، بھگت سنگھ، آزاد، اشفاق اللہ خان بسمل سے رگ جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے ، گاندھی کے ہتھیاروں کو ہیرو مانا جاتا ہو، اس خطرناک سوچ کے حامل اپنے ملک کو ہر گز ہونے نہیں دیںگے ، ملک کی سالمیت ، بقا، تحفظ ، ملک کے قانون ودستور کے بچاؤ اور حفاظت کے لئے ہر چیز داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہیں ۔
یہ عہد وفا کرنا ہے کہ کبھی ہم اپنے ملک کو پاکستان، یا افغانستان ، یا ملک شام، یمن اور عراق بننے نہیں دیںگے، یہاں کی اخوت وبھائی چارہ کو مٹانے کے لئے جو بھی کوشش کرے گا ، اس کے راہ کے روڑے بن کر کھڑے ہوجائے گے ۔جب ملک کی عوام کی ذہنوں میں فرقہ واریت اور عصبیت کا زہر بھر دیا جاتا ہے ، وہ دو بھیڑ ہو کر خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کی تباہی کا سامان کرتے ہیں، ملک کی ترقی عروج، ملک کی معاشی، اقتصادی، تعلیمی، طبی ، سائنسی اور علمی ترقی رک جاتی ہے ؛ اس لئے ملک کی سالمیت اس میں ہے کہ شخص ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھے ، جو ہندوستانی کی زمانہ قدیم سے روایت رہی ہے ؒ۔ذرا سا بھی پھوٹ ، تفرقہ ، فرقہ بندیاں اور ذاتیں در آئیں گی تو ملک کی ترقی کی نبض رک جائے گی، ملک کی معیشتبیٹھ گی، اس کی ترقی میں ٹھہراؤ آجائے گا، ملک پر زوال وانحطاط کے ادبار چھاجائیں گے ۔
آخر میں بابائے قوم مہاتمی گاندھی کی اس پراثر بات پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں
انہوں نے ایک دفعہ جامعہ ملیہ دہلی میں دوران خطاب کہا تھا: اس بات کو پیش نظر رکھئے کہ ملک کی آزادی کا انحصار آپ کے اوپر ہے ، ہندوستان کی آزادی کے لئے جن بنیادی چیزوں یک ضرورت ہے ، وہ خدا کا خوف، اور انسانوں اور ان کے مجموعے سے جسے حکومت یا سلطنت کہتے ہیں ، بے خوف ہونا، ان دو چیزوں کی تعلیم آپ اس کی اس درسگاہ میں نہیںہوسکتی تو پھر میں نہیں سمجھتاکہ کہاں ہوسکتی ہے ( دیکھئے ، سب کے لئے ، مولف : ابن غوری، آئی ، جی پبلیشرز، حیدرآباد )