روزہ کے نیت سے وقت سحر کھانے پر ’’سحری‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ، یہ عمل نہایت مہتم بالشان اور فضائل اور برکتوں کا حامل ہے ، اس عمل کی برکت اور اس کے فضائل وبرکتوں کے استحضار سے اس عمل کا ثواب دوچند ہوجاتا ہے، ہم صرف روزہ رکھنے کو ہی بابرکت اور اہم عمل تصور کرتے ہیں، حالانکہ سحری کا عمل بھی شرعا نہایت خیر وبرکت کا حامل ہے ، اس کے کچھ برکات اور فضیلتیںہیں، اس عمل کی اہمیت کے نگاہوں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے بہت ساری غلطیاں ہم سے اس عمل کے حوالے سے سرزد ہوتی رہتی ہیں، سحری کے حوالے سے بعض لوگوں کا عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ سحری کو سنت اور باعث خیر وبرکت سمجھتے ہی نہیں اور وہ بغیر سحری کے ہی روزہ رکھ لیتے ہیں اور فخریہ انداز میں کہتے ہیںکہ : میں نے آج ’’بن سحری‘‘ کے روزہ رکھا ہوا ہے ،، یا درمیان رات میں ہی سونے سے قبل کھالیتے اور اس پر سحری کا اطلاق کردیتے ہیں، یا تو ان کویہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ اخیر رات میں اٹھ نہیں پائیں گے، یا انہیں نیند اتنی عزیز ہوتی ہے کہ سحری کی برکت سے محروم ہوجاتے ہیں، یا سحری کی برکات اور اس کے فضائل کا علم ان کو سرے سے ہوتا ہی نہیں، اس لئے سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ سحری کا عمل یہ ایک مسنون عمل ہے ، یہ نہایت خیر وبرکت کا باعث عمل ہے ۔اس لئے سحری آخری وقت سحرمیں کرنی چاہئے ، گرچہ تھوڑی مقدار میں سنت پر عمل کے لئے سحری میں کچھ کھا لیا جائے ؛ لیکن سحری کے عمل کی برکت اور فضیلت سے محرومی یہ بڑی محرومی ہے ۔اسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: ’’والسحور برکۃ ، تسحرو ؛ فإنہ یزید فی القوۃ وھو من السنۃ ، تسحروا ولو علی جرع من ماء ، صلوات اللہ علی المتسحرین ‘‘( مسند ابن الجعد، حدیث بحر بن کنیز السقاء، حدیث: ۳۳۹۱) سحر میں برکت ہے ، سحری کرو ؛ کیوں کہ یہ باعث قوت ہے ، یہ سنت ہے ، گرچہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو، اللہ عزو جل کی سحری کرنے والوں پر رحمت ہوتی ہے ۔
ہم ذیل میں سحری کے برکات اور فوائد اور مصالح کا ذکر کرتے ہیں:
۱۔ ارشاد رسول کی تعمیل وتکمیل:
ایک مسلمان کے لئے نبی کریم ﷺ کے ارشاد اور آپ کے اس تعلق سے حکم اور عمل اور س کی اتباع سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی ، سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے سحری کے عمل کے تعلق سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’ تسحرو ؛ فإن فی السحور برکۃ‘‘(سنن النسائی : الحث علی السحور، حدیث: ۲۱۴۴) آپ ﷺ نے سحری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’سحری کرو، کیوں کہ یہ سحری کا عمل نہایت بابرکت عمل ہے‘‘ ۔
۲۔ سحری مسلمان کا شعار ہے :
سحری کا عمل یہ شعار اسلام سے تعلق رکھتا ہے ، یہ عمل مسلمان کے روزے کے عمل کواس حوالے سے غیر مسلمین کے عمل سے ممتاز اور جدا کرتا ہے ، چونکہ اہل کتاب یہود ونصاری کے یہاں روزہ میں فرق یہ ہے کہ وہ سحری نہیں کرتے اور مسلمان سحری کے ذریعے روزہ کی ابتداء کرتا ہے ۔
جس کو نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ کے اندر یوں ارشاد فرمایا:
’’ فصل ما بین صیامنا وصیام أھل الکتاب أکلۃ السحر‘‘ (صحیح مسلم : باب فضل السحور،حدیث: ۱۰۹۶) ( ہمارے اور اہل کتاب کے روزں کے بیچ سحری کا فرق ہے ) یعنی ہم سحری کرتے ہیں اور وہ نہیں کرتے ۔)
۳۔امت کی بہتری سحری کے عمل میں ہے:
نبی کریم ﷺ نے امت کی خیریت اور اس کی بھلائی کو سحری اور افطار کے عمل اور افطار میں تعجیل (جلدی) اورسخری میں تاخیر پر موقوف فرمایاہے ، یعنی افطار اور سحری کے عمل اوراس میں سنت یعنی افطارمیں جلدی اور سحری میں تاخیر یہ امت کے لئے خیر وبرکت اور اس کی بہتری وبھلائی کے باعث ہیں ، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لا یزال الناس بخیر ما عجّلوا الفطر واخّروا السحور‘‘ (مسلم : باب فضل السحور، حدیث: ۱۰۹۸) جب تک لوگ افطار میں ـتعجیل اور سحری میں تاخیر کریں گے ــتووہ خیر اور بھلائی پر رہیں گے ۔
۴۔ سحری کرنے والے کے لئے اللہ اور اس کے فرشتوں کی دعاء رحمت :
سحری کا عمل اس قدر خیر وبرکت کا باعث ہے کہ اس سحری کرنے والے پرخود اللہ عز وجل اور فرشتے جیسی معصوم مخلوق بھی دعاء رحمت کرتی ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ إن اللہ وملائکتہ یصلون علی المتسحرین ‘‘ (صحیح ابن حبان ، ذکر مغفرۃ جل وعلا واستغفار الملائکۃ للمتسحرین، حدیث: ۳۴۶۷) اللہ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر دعائِ رحمت کرتے ہیں ۔
۵۔سحری اور سحر کا بابرکت وقت:
سحرکے وقت جب بندہ سحری کے لئے رمضان المبارک میں بیدا ر ہوتا ہے ، تو یہ نزول الہٰی( بموجب حدیث کے اللہ عزوجل آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں) کا وقت ہوتا ہے ، اور یہ قبول دعا اور لغزشو ں اور خطایا سے معافی کا وقت ہوتا ہے ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’ اللہ عزوجل ہر رات تیسرے پہر تک آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، کہتے ہیں: کون ہے جو دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں؟ کون ہے جو سوال کرے میں اسے عنایت کروں اور اور کون ہے مغفرت کا طلب گار جس کی مغفرت کی جائے ’’ من یستغفرنی فأغفرلہ‘‘( بخاری: باب الدعاء فی الصلاۃ من آخر اللیل، حدیث: ۱۹۶۵۳)
۶۔ وقت سحر وقت مغفرت:
وقت سحر یہ وقت مغفرت ہے ، یہ معافی تلافی اور گناہوں اور لغزشوں سے خلاصی کا وقت ہے ، جس کا ذکر اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں کئی جگہ فرمایا ہے اور سحر کے وقت اللہ سے مغفرت چاہنے والوں کی اللہ عزوجل نے تعریف فرمائی ہے اور ان کا مؤمنین صادقین میں شمار کیا ہے ، ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :’’ والمستغفرین بالاسحار‘‘( آل عمران ) ( جو بوقت سحرمغفرت طلب کرتے ہیں ) اور یہ بھی ارشادگرامی ہے :’’ وبالأسحار ھم یستغفرون‘‘ (الذاریات: ۱۸) یہ وقت سحر مغفرت کے طالب ہوتے ہیں ۔ جو وقت سحر جاگتا ہے اس کے لئے وقت سحر طلب مغفرت کی توفیق بھی مرحمت ہوسکتی ہے ، جن کی مدح اللہ عزوجل نے ان آیات میں بیان فرمائی ہے یہ لوگ یہ ایسے بابرکت لوگ ہیں جو وقت سحر اپنے رب سے اپنی مغفرت اور بخش اور گناہوں سے معافی وخلاصی کے لئے دعا گو ہوتے ہیں ۔
اسی لئے بزرگان دین اور اللہ والے رات کے اس آخری حصہ کو غنیمت جان کر اس میں الطاف ربانی سے مستفید ہوتے ہیں ، اللہ عزو جل کے حضور ، اس کے سامنے بندگی اور خشوع وخضوع اور اپنے عبودیت کا اظہار نمازوں اور دعاؤں کے ذریعے کرتے ہیں اور اپنی دنیا وآخرت کی صلاح وفلاح کے خواہاں اور متمنی ہوتے ہیں ۔
۷۔سحری بھوک کی شدت کو ختم کرتی ہے:
سحری کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ روزہ میں بھوک کی شدت کو ختم کردیتی ہے ، کیوں کہ صبح سحری نہ کرنے کی وجہ سے روزہ جب شدت سے محسوس ہوتا ہے ، انسان کامادۂ صبر جواب دے دیتا ہے اور روزہ کو شدت بھوک کی وجہ سے توڑ بھی سکتا ہے ، اس لئے روزہ میں صبر واستقامت کے لئے سحری معاونت کی باعث ہے ۔
۸۔سحری نشاط کی باعث :
سحری کر کے روزہ رکھنے سے انسان میں ضعف اور کمزوری در نہیں آتی ، جس کی وجہ سے اسے نماز ، تلاوت ، اوراد واذکار اور دیگر عبادات میں تقویت حاصل ہوتی ہے ، اور عبادتوں میں نشاط اور چستی باقی وبرقرار رہ سکتی ہے ، ورنہ نڈھال ہو کر روزہ کسی طرح رکھ بھی لے تو دیگر عبادتوں کی ادائیگی سے رمضان میں محرومی ہوجاتی ہے ۔
۹۔ سحری نماز فجر کے لئے معاون :
جب مسلمان سحر کے لئے اٹھتا ہے تو اس کے لئے نماز فجر اور مؤذن کی ندا اور آواز پر لبیک کہنا اور نمازفجر کی ادائیگی وغیرہ میں سہولت ہوجاتی ہے
۱۰۔سحری نماز فجر کی باجماعت ادائیگی کی وجہ :
سحری نماز فجر کی باجماعت ادائیگی میں بھی معاون بنتی ہے ، جو کبھی سستی یاکاہلی یا عدم بیداری کی وجہ سے رہ جاتی ہے ، سحری کی وجہ سے انسان بیدار اور باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے چاق وچوبند ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں نمازیوں کی مسجد میں حضوری اور باجماعت نماز پڑھنے والوں کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے ۔
۱۱۔سحری کا عمل عبادت:
اگر سحری کا عمل اس نیت کے ساتھ ہو کہ اس کے ذریعے عبادات اور طاعات میں معاونت ہوگی تو یہ عمل خود ’’عبادت‘‘ بن جائے گا ۔
۱۲۔سحری روزے کے شوق کا سبب :
سحری کر کے روزہ رکھنے سے روزہ سے اکتاہٹ نہیںہوتی ہے ؛ بلکہ اس سحری کے روزہ پر معاونت کی وجہ سے روزہ کا اشتیاق مزید بڑھ جاتا ہے ۔
۱۳۔سحری دیگر اعمال کے لئے ممد ومعاون :
سحری کرنے والے عمل میں دن کی شروع ہی سے منجانب اللہ برکت ڈالی جاتی ہے ، اسے دن بھر اعمالِ صالحہ کی توفیق ارزانی نصیب ہوتی ہے ، اسے روزہ کی وجہ سے نمازوں کی ادائیگی ، اوراد واذکار کی پابندی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ کی ادائیگی میں سہولت ہوتی ہے، ترک سحر کی وجہ سے یہ اعمال بوجھ اور ثقل محسوس ہوتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ سحری کایہ عمل نہایت مہتمم بالشان عمل اور رمضان کے دن کے اعمال کی ادائیگی میں معاونت کا ذریعہ اور باعث خیر وبرکت اور اللہ عزوجل اور ملائکہ کی دعاء خیر ورحمت کا باعث اور رات کی عبادت اور لذت توبہ واستغفار کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہ عمل اس کی عظمت اس لئے بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ غیرمسلمین کے روزوں سے مسلمان کے روزہ کو سحری کا عمل ہی ممتاز کرتا ہے ۔
استاذ فقہ وحدیث دار العلوم دیودرگ
rafihaneef90@gmail.com