جس وقت آج کی ہماری یہ تحریر اخبار کے صفحات کی زینت بن کر باذوق قارئین کے ہاتھوں میں پہنچےگی، تب تک دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی عیسوی سالِ نو 2021 کا شایان شان آغاز و خیرمقدم کر چکی ہوگی، اور جو لوگ شبِ گذشتہ کارِ دنیا سے فرصت و فراغت یا تھک ہار کر نیند کی گہری آغوش میں چادر تان کر اور بستر دراز ہونے کے بعد صبح جب بیدار ہوئے ہوں گے تو سال نو کا پہلا سورج انہیں پورے طمطراق اور اپنی تابانی کے ساتھ سلامی پیش کر رہا ہوگا اور نئے دن کے سورج کی سنہری شعاعیں ان کے گھروں کی دہلیز پر قدم بوسی کرکے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر خود پر فخر جتا رہی ہوں گی۔ علاوہ ازیں ! رخصت پذیر سال کے اختتام اور سال نو کے افتتاح کے ساتھ اس دن بیدار ہونے والوں کےلئے ایک زائد چیز یہ بھی ہوگی کہ یہاں سے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز پر لوگ باگ آنکھیں کھول رہے ہوں گے۔ دعا ہےکہ: اللہ رب العزت والجلال ! آغاز سال کے پہلے ہ ہمارے بیدار ہونے پر نہ صرف اسی دن بلکہ پورے سال یا جب تک ہم حیات مستعار لےکر اس دنیا میں آئے ہیں؛ تب تک صحت و عافیت کی دولت بےبہا سے مالا مال فرمائے، جان و مال کی سلامتی کے دائمی ابواب، عزت و آبرو کے تمام اسباب ہمارے حق میں روا فرمائے، نیز خوشگوار ماحول، آرام دہ لمحات اور ہر ایک کے دامن میں حقیقی خوشیاں نازل فرمائے؛ آمین۔
اب ذرا مقصد تحریر کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور رخصت پذیر سال کے نشیب و فراز، جس سے ہر شعبہ اور طبقہ متاثر ہوا، بہتوں سے اپنے عزیز و اقارب ہمیشہ کےلئے جدا ہو گئے، نہ جانے کتنے مالی تنگی کی وجہ سے اپنے پیشہ سے ہاتھ دھو بیٹھے، ملکی مسائل کی کشمکش اور قانون سازی سے عوام الگ پریشان رہے؛ وغیرہ وغیرہ۔ مگر ان سب کے علاوہ جو طبقہ سب سے زیادہ پریشان و بدحال رہا وہ اہل علم کا طبقہ رہا، اس لئے پوری تحریر کا محور و مرکز یہی اہل علم حضرات ہیں جو عالمی سطح پر پھیلنے والی بھیانک وبا "کورونا وائرس” کے تکلیف دہ ماحول اور انتہائی پریشان کن دور سے گزرتا ہوا یہاں تک آ پہنچا اور آج بھی مختلف انداز میں پریشانی کا سب سے زیادہ سامنے کرنے پر مجبور ہے۔
دینی خدمات پر معمور مدارس و مساجد کے خدام و ملازمین کی المناک و تشویشناک داستان پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ ہم جن کو دین کے داعی و خدام کہتے نہیں تھکتے اور جن کی پوری پوری زندگیاں دینی تعلیمی اداروں میں خدمت کرتے ہوئے گزر گئیں؛ امتحان و آزمائش کے سخت دور میں آج وہ کیسی کسمپرسی کی حالت میں ہیں اور ان کے اہل خانہ کن سخت حالات میں اپنے شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں، یہ مدارس و مکاتب کے خدام اور مساجد کے ائمہ حضرات جو پہلے ہی انتہائی قلیل معاوضہ اور کم تنخواہوں پر مقرر کئے جاتے ہیں، لاک ڈاؤن کی آفت ان کے حق میں اور بھی بڑی مصیبت و پریشانی کا باعث ثابت ہوئی، وہ اس طرح کہ حکام کے اعلان کے مطابق جب مدارس و مکاتب میں تعلیمی سلسلہ موقوف کر دیا گیا تو مدرسین و ملازمین کو بھی آناً فاناً ان کے گھروں کو روانہ کر دیا گیا، ایسے میں نہ تو ان کی بروقت کوئی مالی معاونت کی گئی اور نہ ہی بعد میں کسی ذمہ دار کو خیر خبر لینے کی توفیق ہوئی۔ اور اگر کسی نے بدرجہ مجبوری ذمہ داران بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خود مختار اور سیاہ و سفید کے مالک نظماء و مہتمم سے معاوضہ کےلئے رابطہ بھی کیا تو اسے اپنا طور پر انتظام کرنے کو بول دیا گیا یا آئندہ حالات کے سازگار ہونے کا بہانا بنا کر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔
یاد رہے کووڈ=19 اکیسویں صدی ک ایک مہلک و جان لیوا بیماری اور عالمی سطح پر پھیلنے والا خطرناک قسم کا وائرس گردانا گیا ہے، جس کی ابتدا تو ملک چین سے ہوئی تھی، مگر اس نے آہستہ آہستہ دنیا کے پیشتر ممالک کو اپنے گھیرے میں لے کر اس طرح لوگوں کو اپنے گھروں میں محبوس و مقید کر دیا جیسا پوری مخلوق نے اجتماعی طور پر کوئی گناہ اور جرم کیا ہو؛ کہ تمام سیاسی سرگرمیاں معطل و موقوف کر دی گئیں، مذہبی امور کی ادائیگی پر بندش یا کم از کم شمولیت میں تخفیف کر دی گئی، تہواروں اور سماجی رسوم کو سادگی کے ساتھ منانے کا فرمان صادر کر دیا گیا۔ گویا پوری دنیا کی آبادی ایک مخمصے کا شکار ہو کر رہ گئی جس سے آبادیوں کی رونق عنقا اور شہروں کی رونق و چہل پہل معدوم سے ہو گئی، آدمی؛ آدمی کی ملاقات سے بچنے میں عافیت محسوس کرتا، مزاج پرسی کے وقت ہاتھوں کو ہاتھوں میں لینے سے خوف کھانے لگا، یہاں تک اپنے پرایوں کے دکھ درد میں شریک ہونے یا جنازہ میں شامل ہونے سے بھی کترانے لگا۔ کیونکہ ماہرین کی زبانی اس بات کا واویلا کر دیا گیا تھا کہ یہ وائرس بھیڑ بھاڑ اور مجمع کی وجہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے "حقیقت کیا ہے خدا جانے” ورنہ اس کے پھیلاؤ میں عام وجہ یہی بتائی جاتی رہی، حالات ابھی مکمل طور پر نارمل ہوئے بھی نہیں، دنیا نے پورے طور پر اس بیماری سے چھٹکارا حاصل بھی نہیں کیا کہ اب پھر اس سے زیادہ خطرناک قسم کے وائرس کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ جس وقت چین سے اس وائرس کا پھیلاؤ ہوا تھا تو اس کی وجہ فطرت کے مخالف اشیاء خورد و نوش کا استعمال یا حلال و حرام کی امتیاز ختم کر دینا بتایا گیا تھا۔ لیکن یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آتی کہ وائرس کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں کیا پوری دنیا ان وجوہات کی عادی یا اس گناہ میں شامل تھی؟ جس کی وجہ سے پوری دنیا کو سزا ملی یا یہ کوئی خفیہ سازش ہے جسے پوری دنیا پر تھوپ کر انسانی معاشرے کو یرغمال کر لیا گیا ہے؟ ان سب کا خلاصہ اور سچ تو ایک دن ضرور سامنے آنا ہے، لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس قسم کی وبا اور بیماریاں پہلے بھی کبھی سامنے آئی ہیں اور اس وقت لوگوں کا کیا رد عمل ہوا کرتا تھا؟
جب ہم اس پہلو پر غور و فکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، جو بتایا جا رہا ہے، بلکہ اقوام عالم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب لوگوں کے اطوار و اخلاق حد سے زیادہ پست اور منفی انداز اختیار کر جاتے تھے، جب طاقت و اقتدار کے نشہ میں مست ہوکر کمزوروں کو مشق ستم اور غریب مزدور پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، جب گدی نشیں اپنے ماتحتوں کے حقوق سلب کر جاتے تھے اور جب حاکم و نگراں اپنے محکوم و زیردست افراد کے ساتھ زیادتی سے پیش آتے تھے، تو اس وقت کبھی تو لاعلاج بیماریوں کی شکل میں، کہیں طوفان کی صورت میں اور کہیں زلزلوں کی آمد سے بددماغ لوگوں کے ہوش ٹھکانے لگائے جاتے تھے تاکہ خلقت جس مصیبت و عذاب اور اللہ کے قہر و غضب کا سامنا کر رہی ہے اس سے نجات پانے کے واسطے ظالم و بدبخت اور حکمراں طبقہ اپنی ظاہری باطنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو اور اب تک جن حقوق و اوامر میں لاپرواہی، سستی یا حق تلفی سے کام لیا گیا ہے، ان کی پابندی اور ادائیگی میں یکسوئی اور دلجمعی کا مظاہرہ کرنے والے ہو جائیں۔
آج ہرطرف سے انسانیت پریشان حال اور دکھی نظر آتی ہے؛ کہیں مال و اسباب کی کمی کا سامنا ہے، کہیں طاقت و اقتدار کے بےجا استعمال سے قوم و ملت میں بےچینی کی لہر اور بغاوت کے آثار نمودار ہیں، کہیں نااہل حکمرانوں کی سختی، شدت کا رونا ہے تو کوئی اپنے ہمسایوں، عزیزوں اور مالک و ذمہ داران کی ناانصافی کی مار جھیل رہے ہیں۔ جب کہ موجودہ حالات کا تقاضا تھا کہ ہر شخص اپنی ذات سے متعلق امور کی انجام دہی میں عدل و انصاف قائم کرتا اور مساویانہ و خیرخواہانہ طور پر پریشان حال لوگوں کی خبر گیری میں خود کو مشغول و مصروف رکھتا۔ مزاج میں نرمی پیدا کرتا، خود کو حلیم الطبع اور انسانی شرافت کا پیکر و جامع بناتا اور موقع محل کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مالی سخاوت میں دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اسباب تلاشے جاتے، جن سے حالات کے تغیر و تبدل میں مدد ملتی، دونوں ہاتھوں سے بھر بھر مال خرچ کیا جاتا تاکہ اپنے ناراض خدا کو راضی کرنے اور اللہ کے غصہ کو جلدی ختم اور ٹھنڈا کرنے میں مدد ملتی۔ مگر یہ سب نہیں کیا گیا، دنیا داروں اور سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں کی تو بات ہی چھوڑئیے، خود ہمارے ذمہ داران مدارس و مکاتب اور متولیان مساجد کا حال اس سے کہیں زیادہ گیا گزرا رہا، اور وہی پرانی روش، مزاج کی سختی، دماغ کی گرمی، ضد، انانیت اور تاناشاہی اختیار کئے رہے، اور یہ وہ اسباب و ذرائع ہیں جن سے غضب الہی میں شدت پیدا ہوتی ہے، قدرت الہی قہر و عذاب کے نازل کرنے پر مجبور ہوتی ہے، مگر ہمارے یہ دینی راہنما اور مذہبی پیشوائی کا دم بھرنے والے اپنی عادت و فطرت تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہوئے اور یوں ہی اپنے ملازمین کو دوہری پریشانی میں مبتلا کر اندر ہی اندر خوش ہوتے رہے، انہیں نہ تو اپنے ملازمین کی لازمی ضرورتوں کا خیال ستایا اور نہ ہی ائمہ و مدرسین کے چھوٹے بچوں پر ترس آیا، یہاں تک کہ بعض جگہوں سے نامناسب، افسوس کن اور ایسی مایوس و شرمناک خبروں کی بھی اطلاع موصول ہوئی جن سے معاشرہ سر شرمسار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ذمہ داروں پر کوئی اثر نہیں ہوا، ان کے اپنے ٹھاٹ باٹ پہلے سے کہیں زیادہ اور ان کے اپنے بچوں کے شوق مزید بڑھ گئے؛ (البتہ ہمارے وہ ادارے جن میں شورائی نظام ہے یا جہاں اہل علم اور حالات شناس افراد کا عمل دخل ہے، وہ مثتثنی ہیں) ظاہراً یہی وجہ ہے کہ حالات ابھی بھی سدھار کی طرف نہیں ہے، کیونکہ اعمال و کردار میں تبدیلی نہیں ہے، اور یہ طے ہےکہ جب تک اعمال و افعال اور کردار و اخلاق کی اصلاح نہیں ہوگی، تبدیلی رونما ہونے والی نہیں، اس لئے رخصت پذیر سال کو عبرت نگاہوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جو ہر شخص کو اس کی کمی خامی کو دکھانے کےلئے ایک آئینہ کی حیثیت اور رازوں سے پردہ اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے!!! (باقی قوم شعور و احساس کی دولت سے مالا مال ہے ہی)