بھوپال: 13؍دسمبر (عصرحاضر) ریاست مدھیہ پردیش میں جگہوں کے نام بدلنے کے ساتھ اب سرکاری دفاتر اور عدالت سے بھی اردو زبان کو ختم کیے جانے کا اعلان کیا گیا جس کے سبب اردو ادبی حلقوں میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔
مدھیہ پردیش میں سرکاری دفاتر سے اردو الفاظ کے نکالنے کے بیان کے بعد ریاستی وزیر داخلہ نرتم مشرا نے کہا کہ ضمانت، امانت میں خیانت، ملزم، حاضر ہو، تعمیل کرنا جیسے الفاظ اب چلن میں نہیں رہے ان کی جگہ دوسرے الفاظ کا استعمال کیا جائے گا۔
وزیر کے اس بیان کے بعد بھوپال کے اردو حلقوں میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ کے عدالت اور سرکاری دفاتر سے اردو کے الفاظوں کو ہٹانے کے سرکیولر جاری کرنے کے بعد بھوپال کے اردو حلقوں میں تشویش کا ماحول ہے۔بھوپال کے معروف ادیب اقبال مسعود نے اس معاملے پر کہا کہ ‘یہ معاملہ نام بدلنے اور الفاظوں کو ہٹانے کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک طرح کی سازش ہے جو معاشرے میں پھوٹ ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ اب مجرموں کو یہ سمجھ نہیں آئے گا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔اردو زبان کو مغلوں کی زبان بولے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر میں مغلوں کی زبان کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ مغلوں کی زبان تُرک تھی جبکہ بھارت میں سرکاری زبان فارسی رہی ہے جو کہ کئی راجہ مہاراجاؤں کے دربار میں استعمال کی جاتی تھی اقبال مسعود نے مزیدکہا کہ ‘جن الفاظ کا استعمال ہم طویل وقت سے کرتے چلے آرہے ہیں انہیں ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ سب سازش ہے تہذیب کے خلاف زبان کے خلاف اور عوام کے خلاف۔
اس کے علاوہ ممتاز شاعر ظفر صہبائی نے کہا کہ ملک میں تعصب نے جگہ بنا لی ہے جہاں ریاست میں جگہوں کے نام بدلنے کا سلسلہ لگاتار جاری ہے وہیں اب حکومت کے ذریعے ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔
انہوں نے کہا اردو بھارت کی زبان ہے۔ یہیں پلی بڑھی ہے اور یہ زبان ہندوی زبان کہلاتی ہے ایسے میں عدالت اور دفاتر سے اردو زبان کو ہٹا دینا یہ تعصب ہے۔