دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد میں حضرت شاہ جمال الرحمٰن صاحب مفتاحی کا طلبہ سے کیا گیا خطاب

جامعہ اسلامیہ دارالعلوم رحمانیہ کے دو روزہ سالانہ اختتامی و مسابقتی اجلاس انجمن تہذیب الکلام کی تیسری نشست یعنی دوسرے دن بروز جمعرات (٢/رجب المرجب ١٤٤١ھ) قبل ازظہر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمٰن صاحب مفتاحی دامت برکاتہم العالیہ کا خصوصی خطاب رہا، جس میں تقریبا پندرہ منٹ حضرت  نے خصوصاً جامعہ کی انجمن سے وابستہ طلباء کو خطاب کیا لیکن یہ خطاب  تمام جامعات ومدارس کےطلباء کے لیے بھی ہے جو انجمنوں سے وابستہ ہیں اور ان طلباء کے لئے بھی جو انجمنوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، افادہ عام کے لیے حضرت کے اس خطاب کو راقم نے اسی وقت محفوظ کیا اور اب قارئین کے سامنے  پیشِ خدمت ہے۔
 (جس وقت حضرت والا کی تشریف آوری ہوئی، عربی زبان میں مسئلہ حجاب پر ڈِبیٹ ہو رہا تھا)
(١)عربی زبان کی اہمیت و افادیت  احادیث شریفہ میں موجود ہے،جس کو آپ نے اپنے اساتذہ کرام سے ابھی سنا ہے کہ
” أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أُحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلاثٍ: لأَنِّي عَرَبِيٌّ، وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ، وَكَلامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِيٌّ.” (رواہ الطبرانی)
ترجمہ:عرب سے تین وجوہات کی بنا پر محبت رکھو،اس لیے کہ میں عربی ہوں ، قرآن عربی زبان میں ہے اوراہل جنت کی گفتگو عربی زبان میں ہوگی۔
عربی زبان کی اہمیت وفضیلت کے لیے تنہا یہ شرف کافی ہے کہ خالق کائنات نے قرآن کریم جیسی اپنی آخری اور عظیم الشان کتاب کے لیے اسی زبان کا انتخاب فرمایا،یہی وہ زبان ہے جو ”امّ الاَلسِنۃ’قرار پائی،یہی وہ لغت ہے جس میں افصح العرب سید الانبیاء سرورِکونین رحمۃ للعالمین ﷺنے کلام فرمایااوریہی وہ زبان ہے جس میں ذخیرۂ احادیث کو محفوظ کیاگیا،یعنی معلوم یہ ہوا کہ ہماری شریعت کا ماخذ اصل عربی میں ہے، اس لیے  شریعت کو جاننے کے لئے عربی کا جاننا بہت ضروری ہے۔
آٹھ، نو، سال کا طویل عرصہ مدارس میں رہ کر عربی زبان میں ماہر نہ ہونایہ ہمارے شایان شان نہیں،کم سے کم ایک گھنٹہ عربی میں درس و تدریس کا کوئی نظم ہو یا آدھا گھنٹہ اسی زبان میں بات چیت ہو، ٹوٹے پھوٹے انداز ہی میں کیوں نہ ہو اسی سے استعداد میں نکھار پیدا ہوگا۔
(٢) طلبہ عظام مدارس کا مقصد ذہن میں رکھے! ہمیں یہاں سے قرآن و سنت کا ترجمان بن کر نکلنا ہے، اپنے اندر بہترین استعداد پیدا کرنا ہے،اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانا ہے،اسی لیے جو زبان ہمارے شہر و دیہات اور قصبہ میں رائج ہے اس پر مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں،یہاں تلنگانہ میں اردو زبان ہے تو اس زبان میں بھی مہارت ہو۔
عموماََمدارس میں مختلف صوبوں کے طلبہ ہوتے ہیں تو ہر طالب علم کو اپنے علاقے کے حساب اور زبان میں صلاحیت پیدا کرنی چاہیے یہ ایک بڑا سانحہ ہے کہ اردو زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں ہمارے طلباء میں مھارت نظر نہیں آتی،حالانکہ قرآن میں آتا ہے کہ اللہ نے ہر نبیﷺ  کو اس کی قومی زبان ہی میں بھیجا ہے۔
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ‌ؕ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞
ترجمہ:
اور کوئی رسول نہیں بھیجا ہم نے مگر بولی بولنے والا اپنی قوم کی تاکہ ان کو سمجھائے، پھر راستہ بھلاتا ہے اللہ جس کو چاہے اور راستہ دکھلا دیتا ہے جس کو چاہے اور وہ ہے زبردست حکمتوں والا(سورہ ابراہیم: ٤)
 اس لیے ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ مہاراشٹرا کا ہو تو مراٹھی زبان، کرناٹکا کا ہو تو وہاں کی زبان اور اس کے علاوہ جو طالبعلم جس ریاست کا ہو اور اس ریاست میں جو زبان رائج ہو اس میں اتنی مہارت حاصل کرلے کہ اپنی بات ان تک باآسانی پہنچا سکے۔
(٣) اور اسی کے ساتھ انداز بھی بنانا ضروری ہے جیسا کہ شعر کہنے کا ایک انداز ہوتا ہے شعر کو شعر کی طرح کہا جائے،ایسانہ ہوکہ شیر کی طرح آواز نکال کر کہہ رہے ہیں۔معلوم ہی نہیں پڑتا کہ شعر پڑھ رہا ہے یا شیر کہہ رہا ہے۔
(٤)عالمی زبان انگلش میں بھی مہارت ہو، حفاظت دین اور اشاعت دین کے مقصد سے سے۔
(٥) تقریر مقرر کی شخصیت کو ظاہر کرنے کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ اظہارِ حق کے لیے ہوتی ہے، اشاعتِ حق اور حفاظتِ حق کے لیے ہوتی ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھو!۔ ایسا نہ ہو کہ مقرر اپنی قابلیت بتانے میں لگ جائے اور اسی میں ڈوب جائے،  بعض دفعہ مقرر ایسےالفاظ استعمال کرتا ہے کہ لوگ اس سے انجان ہوتے ہیں، ایسی تقریر  سے سامنے بیٹھی ہوئی عوام کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا، اور بعض اوقات قابلیت بننے کے بجائے بگڑ جاتی ہے۔
(٦) قابلیت بنانا اور قابلیت بتانا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ حضرت مسیح الامت علیہ الرحمہ فرماتے تھے! "کہ تھوڑا سا اظہارِ قابلیت کرنے دیں تاکہ کہ طلباء میں علمی مناسبت اور خود اعتمادی پیدا ہو جائے” اس لئے شروع میں قابلیت بتا لینے میں احتراض نہیں. لیکن ہمیشہ یہی قابلیت  بتانا مقصود اور مطلوب نہ ہو ۔
(٧) مذکورہ باتیں یعنی عربی میں مہارت کا حاصل کرنا، قرآن و سنت کے ترجمان کی حیثیت سے تقریروتحریر میں صلاحیت پیدا کرنا،مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنا، کس انداز سے بولا جائے اس کے لب و لہجے کو سیکھنا، یہ تمام چیزیں ان انجمنوں کے قیام کا مقصد ہے۔
  اس جامعہ کے طلباء یقینا بہت محنت کرتے ہیں مختلف مظاہروں میں حصہ دار ہوتے ہیں اور قابل رشک انعامات بھی حاصل کرتے ہیں، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے یاد رکھیں! عملِ پیہم شرط ہے فاتحِ عالم کے لئے
 یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگی میں یہ ہے مردوں کی شمشیریں
میں مبارکباددیتاہوں تمام طلباء کواساتذہ کومنتظمین کو کہ یہاں کے طلبا کا مظاہرہ بہت سے مقامات سے بہتر ہوتا ہے۔
 اللہ ان تمام حضرات کو جزائے جمیل عطا فرمائے، طلبہ میں مزید محنت کی توفیق عطا فرمائےاور ہمارے ہر کام میں اخلاص پیدا فرمائے۔آمین
Exit mobile version