سیرت نبوی اسلام کا دائمی معجزہ
یہ اس لیے کہ سیرت نبوی اسلام کا دائمی معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ ہر نوع اور ہر آن تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے ہمرکاب رہتی ہے، ہر دور اور ہر زمانے اوت ہر علاقے میں ہر ہر طریقہ سے رشد وہدایت کا منارہ نور بن کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو نشانِ منزل ہی نہیں بلکہ منزلِ دوام عطا کرتی ہے
کیا یہ سیرت نبوی کا معجزہ نہیں ہے کہ آج تک دنیا نے آپ کی ذات بابرکات کو جس قدر قابل اعتناء ولائق اہتمام سمجھا اور جس خوبی اور حوصلہ و نیاز مندی کے ساتھ سیرت طیبہ کے ہر زاویہ کو سنوارا، اس اعزاز کا عُشرِ عَشیر بھی کسی کے حصے میں نہیں آیا، کیا یہ سیرت نبوی کا اعجاز نہیں ہےکہ آپ کی زبان کا ایک ایک حرف، حرکات وسکنات کی ایک ایک ادا، اور آپ کی جلوت وخلوت کے ایک ایک خط وخال کا عکس آج بھی موجود ہے اور آپ کی حیات طیبہ کی ایک ایک کیفیت کتب سیرت کے اوراق میں بالتفصیل محفوظ ومامون ہے
سیرت نبوی ﷺ قرآن کریم کی عملی توضیح
یہ اس لیے بھی کہ رسول رحمت ﷺ کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر وتوضیح ہے قرآن اگر متن ہے تو سیرت اس کی تشریح، قرآن علم ہے تو سیرت اس کی عملی تطبیق، قرآن صحف ومابین الدفتین اور اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے تو سیرت اس زندہ وجاوید پیکر جمیل کا نام ہے جس نے مکے کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے توحید کے نغمے سنائے اور مدینہ میں سلطنت مدینہ کی بنیاد رکھی جس نے اہل دنیا کو ایک منفرد طرز حکمرانی سے روشناس کروایا، یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح بیان کیاتھا کہ کان خلقہ القرآن کہ آپ چلتے پھرتے قرآن ہیں، انہیں وجوہات کے سبب خالقِ کائنات نے رسول رحمت ﷺ کو تاقیام قیامت آئیڈیل اور بہترین اسوہ بناکر امت کے سامنے پیش کیا ارشاد باری ہے:درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اورکثرت سے اللہ کو یاد کرے۔(سورہ الاحزاب 21)
اور رسول رحمت ﷺ کی اتباع اور اطاعت کو دراصل اپنی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا۔(سورة آل عمران 31)
اور جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا بیشک اس نے خدا کی اطاعت کی(سورة النساء81)
ہماری بے حسی و مردہ دلی
لیکن مقام افسوس کہ آج ہم جس طرح مطالعہ سیرت سے غفلت برت رہے ہیں اور اسکے پیغام کو فراموش کررہے ہیں وہ شاید اس دور کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے؛ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ رسول رحمتﷺ کے اخلاق و عادات کیا تھے؟ رسول رحمتﷺ نے اپنی بیویوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ اپنے دوستوں کے مابین رسولِ رحمتﷺ کا کیا معاملہ تھا؟ کفار اور منافقین سے رسولِ رحمت ﷺ کا کیا وریہ تھا؟ ریاست مدینہ میں رسولِ رحمت ﷺ نے کیسی حکمرانی کی تھی؟رسول رحمت ﷺ کی رحمت ورافت، محنت وشفقت، خشیت وانابت، شجاعت و امانت، صداقت وعدالت، جود وسخا، فراست ومتانت، ایثار وقربانی، احساس ذمہ داری،حلم و تواضع، صبر وتوکل، نیز گھریلو زندگی میں بہترین ساتھی، شفیق سردار، مساکین کے سرپرست، اسی طرح قومی وملی زندگی میں عدل وانصاف، فوجوں کی کمانڈری، انتظامات حکومت، رعایا پروری، سیاسی سوجھ بوجھ، دوستوں کی دلداری، دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک وہ عظیم اخلاق و کمالات کہ جسکی بنا پر رب العالمین نے رسولِ رحمت ﷺ کو خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز کیا ان سے ہم نابلد نا آشنا نا واقف ہیں
ایک طرف قوم مسلم کی تباہ کن، گھمبیر اور نازک ترین صورتحال ہے تو وہیں دوسری طرف امت مسلمہ کو لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔ کفار چوری، سفاکی، چالاکی و بےباکی کے ساتھ اسلام کو مٹانے میں مصروف ہیں، ان کی سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ وہ ہماری نوجوان نسل کو دنیا کی زیب و زینت، مادی زندگی کا عیش و تنعم، بلا مواخذہ جسمانی لذتوں کے مواقع فراہم کرکے روحانی لذتوں سے بے بہرہ کردے۔ اور رسول رحمت ﷺ کے ارشادات وتعلیمات کی اصل روح کو مسخ کرکے مسلمانوں کے دلوں سے رسول رحمت ﷺ کی محبت کا نقش مٹادیں چنانچہ اسلام دشمن محققین اور متعصب مستشرقین نے رسول رحمت ﷺ کی ذات مبارکہ سےمتعلق شکوک و شبہات کو عام کیا، مادی سطح پر آپ کی شخصیت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا، فضائل و کمالات کا اِنکار کیا، اور مقام نبوت، حقیقتِ نبوت اور وحی پر شکوک و شبہات پیدا کئے پھر کیا تھا کہ توہینِ رسالت کے مجرمین اور گستاخان رسول بین الاقوامی سطح پر رسول رحمت کی ذات گرامی پر اعتراضات کرنے لگے
در اصل اسکی وجہ ہم خود ہیں کہ مطالعہ سیرت نبوی اور اسکی حقیقی ضرورت و اہمیت کا احساس ہمارے دلوں سے محو ہو گیا ہے، ہماری زندگیوں کی نہج کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہمیں اس اہم خلاء کا احساس بھی نہیں ہوتا جو ہماری زندگیوں میں مطالعۂ سیرت کے فقدان یا کمی کی بناء پر پیدا ہو گیا ہے اور یہ وہ محرومی ہے جس کا ذمہ دار خود ہمارے اپنے سوا کوئی نہیں ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
عصر حاضر میں سیرت طیبہ کی سخت ترین ضرورت و معنویت
یہ بات حقیقت ہے کہ سیرت طیبہ کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے لیکن موجودہ وقت میں اسکی اہمیت و معنویت اور ضرورت دوگنا ہوجاتی ہے کیونکہ کہ
موجودہ دور گلوبلائزیشن (Globalization) اور عالمگیریت کا دور ہے،اور پوری دنیا کسی گلوبل سسٹم (Global System) اور عالمگیر نظام کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے سائنس اورٹکنالوجی آسمان چھورہی ہے، ہرروز نئے نئے انکشافات نت نئے ایجادات سامنے آرہے ہیں، مادیت کاسیلاب بلاخیز ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا، جدھر دیکھو سامان عیش ونشاط کی فراوانی ہے ، شہرتوشہر اب دیہات بھی رفتہ رفتہ جدید سہولیات سے آراستہ ہورہے ہیں لیکن ایک حیات انسانی کے ،کہ جسے اجڑے ہوئے طویل عرصہ بیت چکا ہے، رواداری اور بھائی چارگی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے، اخوت و محبت امن اور خوشحالی کا جنازہ نکل چکا ہے، بلکہ وہ دور جاہلیت عود کر آیا چاہتا ہے جسکی بیخ کنی کے لیے رسول رحمت ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا، جاہلیت، توہم پرستی، غارت گری دختر کشی، حق تلفی الغرض موجودہ دور جاہلیت کی منہ بولتی تصویر بن گیا ہے ایسے پرآشوب دور اور لادینیت زدہ ماحول میں پوری انسانیت مسیحائی و رہبری کی منتظر ہے، ان حالات میں ہمیں بس ایک شمع ایسی نظر آتی ہے جو اپنی کرنوں سے اس راہِ محبت میں چلنے والوں کی انگلی پکڑ کر انہیں منزل مقصود تک پہونچانے کی صلاحیت رکھتی ہے اورجس کی روشنی میں ہر انسان کے لئے دنیا ہی کا نہیں بلکہ آخرت کا بھی سامان نجات ہے، ایک ایسی چیز جس پر عمل کرنا آسان اور ایک ایسا سانچہ جس میں خود کو ڈھال لینا نہایت ممکن ہے، اور وہ حسین شمع یا زندگیوں کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے والا سانچہ "سیرت طیبہ”ہے، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا بہی خواہ اگر کوئی ہے تو وہ ذات رسالت مآب نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ فداہ ابی وامی کی ہے
اسباب و تدارک
(1)امت مسلمہ کی بالعموم اور علماء دین کی بالخصوص یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام عالم کی رہبری و امامت کا فریضہ انجام دیں جو کارنبوت کی تکمیل کے بعد ان کے سپرد ہے لہذا امت کو درپیش عصری چیلنجز چاہے وہ مذہبی یا سیاسی، معاشی ہو یا معاشرتی ہر ایک کے اسباب و علل کا جائزہ لے کر سیرت طیبہ کی روشنی میں اسکا حل و تدارک اور لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا
(2)رسول رحمت ﷺ کے فضائل، شمائل اور خصائل کے علاوہ سیرت نبوی ﷺ کا جدید پہلوؤں سے مطالعہ کرنا، علمی، عملی، تحقیقی، تنقیدی، نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں سیرت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینا ہوگا ساتھ ہی ساتھ
اس پہلو کو اجاگر کرنا ہوگا کہ دینِ اسلام قرونِ اولیٰ ہی نہیں بلکہ ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور مسائل کے حل اور پریشانیوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے سیرتِ طیبہ کی طرف رجوع ہر دور کی ضرورت ہے
(3)غیر مسلموں تک سیرت طیبہ کے اخلاقی و روحانی اور آفاقی پہلوؤں کو پہنچانے کے لئے سیرت رسول ﷺ کو صحیح اسلوب و منہج اور حالات زمانہ کے مطابق ہر ہر زبان میں پیش کرنا ہوگا۔
(4)عبادات اور شرعی احکام سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی، سیاسی حکمت عملی اور دوسری اقوام کے ساتھ سلوک و تعلق کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےطرز عمل کو سامنے رکھنا ہوگا
(5)کتب سیرت بالخصوص قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری رحمہ اللہ کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘، علامہ شبلی نعمانیؒ کی کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ مولانا عبدالرؤف دانا پوری کی کتاب ’’اصح السیر‘‘،مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی ’’خطباتِ مدارس‘‘ مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی ’’ نبی رحمت‘‘،ڈاکٹر حمید اللہ حیدرآبادی کا سیرت پر لکھا گیا تمام لٹریچر، مولانا نظام الدین اسیر ادروی کی ’’عہد رسالت غار حرا سے گنبد خضرا تک‘‘،مولانا عبد القوی مدظلہ کی ’’ذکر حبیب‘‘اور انکے ماخذ و مراجع بالخصوص سیرت ابن ہشام، طبقات ابن سعد، دلائل النبوۃ، زاد المعاد، وغیرہ کو عام کرنا ہوگا
(6)یقین رکھیں!! اگر آج دنیا مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی وروحانی ترقی چاہتی ہے اوروہ پرامن اور خوش حال زندگی کی خواہا ں ہے تو اسے آج سے ساڑھے چودہ سال پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا،
بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
(6)ان سب کے علاوہ ہمیں پوری اہمیت کے ساتھ سیرت طیبہ کی روح کو سمجھنا ہوگا، اسے اپنے اخلاق و اعمال میں شامل کرنا ہوگا اور عملی طور پر اسوہ حسنہ کو فروغ دینا ہوگا کہ جب تک ہماری زندگیاں سیرت طیبہ کے مطابق نہیں ہوں گی تب تک مادی ترقی کے تمام تر اسباب جمع ہونے کے باوجود ہم تنزلی کا شکار ہی رہیں گے۔