ملک کے مشہور و معروف روزنامہ منصف کے ادارتی صفحہ پر ٢٤ شوال المکرم ١٤٤١ ھ 17 جون 2020 ء کو (صوفی انیس درانی صاحب دہلی) کا ایک مضمون شائع ہوا جسکا عنوان ”شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے” تھا موصوف نے اپنی اس تحریر میں ڈرامہ ارطغرل غازی پر دار العلوم دیوبند کے فتوی کو لے کر مفتیان دار العلوم دیوبند پر خوب زہر افشانی کی ہے، اور اپنی کم علمی کا ثبوت مفتیان دار العلوم دیوبند پر تنگ نظری کا الزام لگاکر دیا ہے، اور انہیں کنویں مینڈک بتاکر اپنی کج فہمی کو پیش کیا ہے، راقم السطور عموماً تنقیدی تحریر کا قائل نہیں ہے، اور نہ ہی تنقید فائدہ مند ہوتی ہے لیکن جب اکابر دار العلوم دیوبند پر اپنی بکواس کرے، اور ان کا مذاق اڑائے، انہیں تنگ نظر بتاکر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرے تو دار العلوم دیوبند کے ادنی فرزند ہونے کے سبب یہ حق ہے کہ اسکی زبان اور قلم پر لگام کو لگام دی جائے ،دلائل کی روشنی میں اسکا منہ توڑ جواب دیا جائے،( عوامی پلیٹ فارم پر اس مضمون کی اشاعت اسی لیے ضروری ہے)
موصوف اپنی تحریر کا آغاز دار العلوم دیوبند کے مفتیان کرام پر کیچڑ اچھالنے سے کرتے ہیں، لکھتے ہیں "مفتیان کرام دار العلوم دیوبند کے تصورات کی دنیا میں بھارت میں اسلام خوب پنپ رہا ہے، پر وقت در و دیوار سے قال اللہ و قال الرسول کی روح پر آوازیں بلند آہنگ سنائی دیتی ہیں، مساجد میں نماز پڑھنے کی جگہ مشکل سے ملتی ہے، مسلم جواں عمروں نے غیر مسلم حسین و جمیل دوشیزاؤں اور شادی شدہ خواتین کی طرف دیکھنا ہی بند کردیا ہے، چنانچہ آر ایس ایس اور بھاجپا نے لو جہاد کا نام لینا ہی چھوڑ دیا ہے، مسلم نوجوانوں نے اپنے ایمان کے تحفظ اور تقوی اختیار کرتے ہوئے ان سڑکوں پر جانا بھی بند کردیا ہے جہاں دیوی دیوتاؤں کے مندر ہیں، یا ان کے دیو پیکر بت لگے ہوئے ہیں، مسلم نوجوان اب فلمیں بھی نہیں دیکھتے، اب انکے موبائل فونوں پر فحش فلمیں نہیں بلکہ قرآن مجید اور حدیث شریف کی آوازیں ولیوں کے قصے، آستانوں کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، اس سے اچھا اچھا دینی ماحول مسلمانوں کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے، چودہ سو سال سے دینی علوم کی تصنیفات،ان کی شرحیں، شرحوں کی شرحیں پھر ان پر اضافی نوٹس کی علاحدہ جلدیں ان سب کا بوجھ بارہ سال تک دارالعلوموں میں تعلیم یافتہ مفتی صاحبان کےسر پر اس قدر ہوتا ہے کہ بیچاروں کی خود غور و خوض کر کے فتوی دینے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے، وہ کنویں کے مینڈک کی طرح صرف محدود روشنی دیکھتے ہیں،اور اسے ہی تجلی کامل سمجھ لیتے ہیں،دنیا اور دین میں کیا نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں،مسلم امت کس طرح عصر حاضر کے مسائل کا حل تلاش کر رہی ہے، ہمارے مفتی صاحبان نہ تو ان سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہیں، جس راہ پر صدیوں پہلے گزرے مفتیان چلتے تھے تھے اسی راہ پر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے – – – – – (تفصیل کے لیے بتاریخ 17 جون روزنامہ منصف کا ادارتی صفحہ ملاحظہ فرمائیں)
موصوف سے یہ عرض ہے کہ دار العلوم دیوبند کے اکابر مفتیان کرام ایسے کسی بھرم اور خیالی تصورات کی دنیا میں نہیں جی رہے ہیں، البتہ کسی ٹی وی ڈرامے سے دین سیکھنے کے قائل نہیں ہیں، اسلام کے فروغ اور دین کی حقیقی تعلیمات کی ترویج میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں، وہ کہنی اور کرنی سے اچھی طرح واقف بھی ہیں، اور دین کا عملی نفاذ کیسے ہوسکتا ہے اسکا بھی علم رکھتے ہیں؛البتہ جناب صوفی صاحب کو شاید اسکا علم نہیں ہے، موصوف سے میرا سوال ہے کہ دار العلوم کے اکابر مفتیان کرام تو معاشرہ کی صورت حال سے واقفیت رکھتے ہیں اور جانتے ہیں مسلم قوم دن بہ دن کس ابتر صورت حال سے گذر رہی ہے، لیکن آپ کا غلط کو صحیح بنا کر پیش کرنا کہاں تک درست ہے؟آپ ذرا معاشرہ کی اس صورت حال پر کیوں نظر نہیں ڈالتے؟ آپ فیس بک انسٹا گرام پر موجود ارطغرل سیرئیل کے مداحوں کی پوسٹ کیوں نہیں دیکھتے؟ جذبہ جہاد دل کے کس کونے میں ہچکولے لگارہا ہے اسکا مجھے اندازہ نہیں؛لیکن ارطغرل سیرئیل میں موجود عشق و معاشقہ، اور بے محابانہ مناظر سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے،کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ارطغرل سیرئیل کے مداحوں نے جذبہ جہاد سے لبریز ہوکر دین پر عمل کرنا شروع کردیا ہے؟ کیا دین کے اہم ارکان کی قدردانی کی جارہی ہے؟ علماء اور اہل علم کی عظمت کا احساس پیدا ہورہا ہے؟ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں سے مکمل کنارہ کشی اختیار کی جا چکی ہے؟ شاید اس سوال کا جواب آپ نفی میں دیں اس لیے کہ سچائی یہ ہے کہ معاشرہ گمراہی کے گڑھے میں جس رفتار سے جارہا تھا اس میں اور اتیزی آچکی ہے کیوں کہ اب ارطغرل سیرئیل دیکھنا کار ثواب سمجھا جارہا ہے،اسکی ترغیب دی جارہی ہے، اس میں موجود میوزک کے استعمال کو کوئی گناہ نہیں سمجھا جارہا ہے، اس سیرئیل سے منع کرنے والوں کو بالخصوص علماء اور مفتیان کرام کو آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے، انکی تنقید کی جارہی ہے، ان کو تنگ نظر، دقیانوسی، قدامت پسند بتایا جارہا ہے،مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ پہلے بھی نسل نو ہالی وڈ اور بالی وڈ کی بے حیائی پر مبنی فلمیں اور سیرئیل، انٹرنیٹ پر موجود فحش مواداور مخرب اخلاق ویڈیوز کو دیکھا کرتی تھی جنکا دیکھنا جرم عظیم ہے لیکن دیکھنے والے کم از کم اپنے اس گناہ کا احساس رکھتے تھے، اگر علماء و مفتیان کرام اس سے منع کرتے تو غلطی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ندامت کا اظہار بھی کیا کرتے تھے لیکن اب معاملہ الٹا ہوچکا ہے اب تو چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے-
بد دین آدمی سے دین کی تبلیغ!!
جناب صوفی صاحب ذعا یہ بتائیں کہ جو لوگ اس ڈرامے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں آپ کے نزدیک انکی دینداری کا کیا معیار ہے؟ کیا وہ فاسق و فاجر شخص جو اخلاص و للہیت سے کوسوں دور ہے کیا جہاد اور دین کی ترغیب دے سکتا ہے؟ کیا اسکے عمل کا کوئی فائدہ ہوگا؟یا پھر ان کا کردار خود ان پر کس قدر مؤثر ثابت ہوا ہے؟ اس سلسلے میں حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ شاید آپ کا بھرم توڑے آپ نے فرمایا:بد دین آدمی اگر دین کی بھی باتیں کرتا ہے تو اس میں ظلمت ملی ہوئی ہوتی ہے، اس کی تحریر کے نقوش میں بھی ایک گونہ ظلمت لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اور دیندار دنیا کی بھی باتیں کرے تو ان میں نور ہوتا ہے، کیونکہ کلام در اصل قلب سے ناشی ہوتا ہے تو قلب کی حالت کا اثر اس میں ضرور ہو گا، پس چونکہ متکلم کا اثر اس کے کلام میں اور مصنف کے قلب کا اثر اس کی تصنیف میں ضرور ہوتا ہے اس لئے بے دینوں کی کتابوں کا مطالعہ ہرگز نہ کرنا چاہیے، کیونکہ مطالعہ کتب مثل صحبت مصنف کے ہے، جو اثر بے دین کی صحبت کا ہوتا ہے وہی اس کی کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔(ماخوذ کمالات اشرفیہ ص:٦٧)
اگر کوئی شخص ہماری گردن پر پاؤں رکھ کر جہنم میں جانا چاہے گا تو ہم اس کی ٹانگ پکڑ لیں گے
آپ کی اس تحریر کا مقصد شاید دار العلوم سے اس سیریل کو سند جواز عطا کرنا تھا، کہ ایک غلط کام کو دار العلوم دیوبند کے مؤقر مفتیان کرام درست قرار دیں، اور اور باضابطہ طور پر علماء کی راہنمائی میں یہ گمراہی عام ہو (جو ناممکن ہے)اس سلسلے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کی یہ تحریر پر نظر ڈالیے! فرماتے ہیں کہ:حضرت والد صاحب (مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ ) نے بارہا یہ واقعہ سنایا کہ (غالباً فتنۂ قادیانیت کے سلسلے میں) حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ (امام العصر حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری) لاہور تشریف لائےـ حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ بھی ہمراہ تھے، اور میں بھی ساتھ میں تھا،اس زمانے میں مہر اور سالک (مرحوم) پنجاب کے مشہور صحافی اور اہل قلم مانے جاتے تھے،ان حضرات نے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ اور علامہ عثمانی رحمہ اللہ کی تشریف آوری پر اخبارات میں یہ سرخی لگائی کہ ” لاہور میں علم و عرفان کی بارش "اور پھر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے،اثناء گفتگو میں سود کا مسئلہ چل نکلا،مولانا سالک مرحوم نے حضرت علامہ عثمانی رحمہ اللہ سے یہ سوال کیا کہ موجودہ بنک انٹرسٹ کو سود قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟
علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے ان کو جواب دیا، مگر انہوں نے پھر کوئی سوال کر لیا،اس طرح سوال جواب کا یہ سلسلہ کچھ دراز ہوگیا،علامہ عثمانی قدس سرہ ہر بار مفصل جواب دیتے مگر وہ پھر کوئی اعتراض کر دیتے،وہ اپنی گفتگو میں ان لوگوں کی وکالت کر رہے تھے،جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بنکوں کے سود کو علماء جائز قرار دیدیں تو مسلمانوں کے حق میں شاید مفید ہو ـ
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ مجلس میں تشریف فرما تھے ـ حضرت کی عادت چونکہ یہ تھی کہ شدید ضرورت کے بغیر نہیں بولتے تھے،نہ اپنا علم جتانے کا معمول تھا،اس لئے علامہ عثمانی رحمہ اللہ کی گفتگو کو کافی سمجھ کر خاموش بیٹھے تھے،لیکن جب یہ بحث لمبی ہونے لگی تو حضرت نے مداخلت کی اور بے تکلفی سے فرمایا :
دیکھو بھائی سالک! تم ہو سالک، میں ہوں مجذوب، میری بات کا بُرا مت ماننا،بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا جہنم بہت وسیع ہے، اگر کسی شخص کا وہاں جانے کا ارادہ ہو تو اس میں کوئی تنگی نہیں ہے،ہم اس کو روکنے والے کون ہیں؟ "ہاں البتہ اگر کوئی شخص ہماری گردن پر پاؤں رکھ کر جہنم میں جانا چاہے گا تو ہم اس کی ٹانگ پکڑ لیں گے”ـ
اس واقعہ کی روشنی میں موجودہ زمانہ کے ان پُرجوش حضرات کی خدمت میں حضرت شاہ صاحب رح کا مذکورہ جواب پیش ہے جو یہ کہتے ہیں کہ علماء ارطغرل سیریل کے دیکھنے سے منع کیوں کرتے ہیں؟
میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ صوفی صاحب اگر آپ کو ارطغرل سیرئیل دیکھنا ہے شوق سے دیکھیے!! مگر اللہ کے واسطے کسی غلط کام کو شرعی جواز مت عطا کیجیے!اپنے ایک غلط کام کے لیے دار العلوم دیوبند کے مؤقر مفتیان کرام کی ہتک عزت سے بچیے! اس کی ترغیب دے کر اپنے فاسد نظریات سے گمراہی کو فروغ نہ دیجیے،اسکے فضائل و مناقب بیان کرکے امت کو تباہ نہ کیجیے! ایک سیرئیل کے چلتے ان علماء دین کا مذاق مت اڑائیے جو انبیاء کے وارث ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کی شمعیں روشن ہیں! دین چراغ گل ہونے سے بچا ہوا ہے،غلط کو غلط کہنا علماء کرام کہ ذمہ داری ہے، حق کو دلائل کی روشنی میں واضح کرنا انکا فریضہ ہے اور انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی دار العلوم دیوبند نے جن چیزوں کو بنیاد بنا کر فتویٰ دیا ہے وہ یقیناً حرام ہے
(تفصیل کے لیے دار العلوم کی ویب سائٹ پر فتویٰ ملاحظہ فرمائیں)
دار العلوم دیوبند کا ارطغرل سیرئیل پر فتویٰ در اصل شریعتِ مطہرہ کے عین مطابق ہے، اور ایسے پر فتن ماحول میں دار العلوم دیوبند کا فتویٰ احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے بے حد ضروری تھا، دار العلوم غازی ارطغرل کے کارناموں کا انکار نہیں کرتا, لیکن ان سب کے لیے کتب تواریخ موجود ہیں،اور عظیم الشان فتوحات کے لیے فتوح الشام، اور صحابہ کرام کے جنگی معرکہ کا آپ مطالعہ کرسکتے ہیں یاد رہے کہ اسلامی تاریخ میں ارطغرل غازی اور عثمان غازی پیدا ہوئے لیکن اس کے لیے یقیناً انہوں نے کسی فلم یا سیرئیل کا سہارا نہیں لیا ہوگا، بلکہ قرآن مجید کی صاف ستھرے احکام اور احادیثِ نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی پاکیزہ تعلیمات، اولیاء اللہ اور علماء دین سے ربط ہی وہ کیمیا ہے جس نے ان کے قلوب کو مسخر کیا اور ایمانی جذبہ اور غیر متزلزل یقین ان کے دلوں میں پیدا ہوا تب جاکر انہوں نے تین بر اعظموں پر مشتمل ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی دار العلوم دیوبند کا فتویٰ کسی تنگ نظری کا نتیجہ نہیں بلکہ شریعتِ مطہرہ کی پاسبانی کا عینی گواہ ہے اگر نسل نو کی یہی حالت رہی گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیا، بلکہ بے باکی سے گناہ میں مصروف رہے تو پھر نعوذ باللہ سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
اللہ ہمیں فہم سلیم عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین