رمضان المبارک کی ہر رات میں عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعات تراویح، دس سلاموں سے پڑھنا، مرد وعورت سب کے لیے سنتِ مؤکدہ ہے۔ التراویح سنۃ مؤکدۃ للرجال والنساء توارثھا الخلف عن السلف من لدن تاریخ رسول اللہﷺ لی یومنا۔ [خانیہ ، ہندیہ]
تراویح کا وقت
تراویح کا وقت عشاء کے بعد سے صبحِ صا دق تک رہتا ہے،بہتر یہ ہے کہ عشاءاور وتر کے درمیان پڑھ لی جا ئے ، لیکن اگر وتر کے بعد ترا ویح پڑھیں، تو بھی شرعاًدرست ہے۔ وأکثر المشائخ علی أن وقتھا بین العشاء الی طلوع الفجر۔۔۔ ولو صلی بھا بعد الوتر یجوز ، قال الشیخ الامام أبو علی النسفی : ھذا القول أصح۔[تاتارخانیہ ، ہندیہ، درمختار ]
مسجد میں تراویح
مسجد میں تراویح کی نماز با جماعت ادا کرنا سنتِ مؤکدہ کفایہ ہے، اس لیے لاک ڈاؤن کی صورت میں بھی دو چار لوگ تو محلّے کی مسجد میں اس کا اہتمام ضرور کریں۔ اگر محلّے کی مسجد میں تراویح کی جماعت نہ ہوئی، توسب محلّے والے گنہ گار ہوں گے۔ الجماعۃ سنۃ کفایۃ فیھا حتی لو أقامھا البعض فی المسجد بجماعۃ وباقی أھل المحلۃ أقامھا منفرداً فی بیتہ لا یکون تارکاً للسنۃ۔[مراقی الفلاح مع الطحطاوی ]
گھروں میں تراویح
لاک ڈاؤن کی موجودہ صورتِ حال میں جب کہ مسجد میں باجماعت تراویح جاری رہے اورباقی لوگ اپنے اپنے گھر پر رہ کر تراویح تنہا یا با جماعت ادا کریں، اس میں کوئی مضایقہ نہیں۔ ’فتاویٰ دارالعلوم دیوبند‘ میں ہے کہ اگر کوئی (نمازِ تراویح) جماعت سے اس طرح پڑھے کہ مسجد کی جماعت بند نہ ہو تو یہ درست ہے، مگر یہ لوگ مسجد کی فضیلت سے محروم رہیںگے۔ [فتاویٰ دار العلوم دیوبند]
گھر کی جماعت میں عورتوں کی شرکت
گھر کا آدمی اگر گھر میں تراویح پڑھائے اور اُس کے پیچھے گھر کی محرم وغیرمحرم عورتیں تراویح پڑھیں تو جائز ہے، محلّے یا بستی میں سے عورتوں کو جمع کرنے کی اجازت نہیں کہ فتنہ و فساد کا زمانہ ہے ۔درمختار میں ہے:کماتکرہ امامۃ الرجل لھن فی بیت لیس معھن رجل غیرہ ولا محرم منہ کاختہ او زوجتہ او امتہ اما اذا کان معھن او امھن فی المسجد لا۔ (درمختار مع الشامی)یہ مکروہ ہے کہ مرد گھر میں عورتوں کی امامت کرائے اور ان عورتوں کے ساتھ نہ کوئی مرد ہو اور نہ امام کی محرم عورتوں میں سے کوئی عورت ہو، جیسے امام کی بہن یا اس کی بیوی ، مگر جب کوئی مرد ہو یا کوئی محرم عورت ہو تو مکروہ نہیں۔ [فتاویٰ رحیمیہ]
تنہا عورتوں کی جماعت
عورت حافظہ ہے، قرآن نہ سنانے کی وجہ سے بھول جانے کا احتمال ہے، تب بھی تراویح باجماعت کی اجازت نہیں۔ تنہا تنہا پڑھ لیں ۔ عورتوں کے لیے جماعت مکروہِ تحریمی ہے اگرچہ تراویح ہو’مالا بد منہ‘ میں ہے: جماعت زناں تنھا نزد امام ابو حنیفہ ؒ مکروہ ست و نزدیگر ائمہ جائز است۔(ترجمہ)امام ابو حنیفہ ؒکے نزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے اور دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز ہے۔[فتاویٰ رحیمیہ جدید]تنہا عورتوں کی جماعت کے متعلق درِ مختار میں ہے: یکرہ تحریماً (جماعۃ النساء) و لو فی التراویح۔ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں: ( و لو فی التراویح) افاد ان الکراھۃ فی کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضاً او نفلاً۔ [شامی]
حافظہ عورت کے متعلق فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ عورت کا امام بن کر عورتوں کو نماز پڑھانا مکروہِ تحریمی ہے۔ بقاے حفظ کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ خارجِ نماز میں روزانہ والدہ، والد، بھائی، بہن، شوہر، اولاد کسی کو سنا دیا کرے اور جتنا سنائے اُس کو تراویح یا دوسری نمازوں میں پڑھ لیا کرے۔ اس سے حفظ بھی باقی رہے گا اور نمازوں میں طویل قراءت کی عادت بھی ہو جائے گی اور کوئی محظور بھی لازم نہیں آئے گا۔ [فتاویٰ محمودیہ جدید]نیز اگر وہ جما عت کر ہی لیں تو اُن کی اما م صف کے بیچ مقتدی عورتوں کے سا تھ ہی کھڑی ہو گی ، آگے بڑھ کر نہیں۔عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ام المؤمنین أنھا کانت تؤم النساء فی شھر رمضان فتقوم وسطاً الخ ۔[کتاب الآ ثار]یہ بھی خیال رہے کہ اگر عورت تراویح سنائے تو کسی مرد کو (خواہ اُس کا مِحرم ہو) اُس کی نماز میں شریک ہونا جائز نہیں۔ [آپ کے مسائل اور ان کا حل]
تراویح میں ختمِ قرآن کی حیثیت
ترا ویح میںکم سے کم ا یک مر تبہ ختمِ قرآن سنت ہے، اس سے زائد مستحب ہے ۔ السنۃ فی التراویح انما ھو الختم مرۃ ۔۔۔ والختم مرتین فضیلۃ، والختم ثلاث مرات أفضل۔ [ہند یہ]البتہ یہ ختمِ قرآن رسول اللہ ﷺسے صراحۃً ثابت نہیں اور نہ حضرت صدیقؓسے صراحۃً ثابت ہے، ہاں حضرت عمرؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت ابی بن کعبؓکوبلایا کہ سب لوگ قرآن نہیں پڑھ سکتے، میں چاہتا ہوں کہ تم سب کو رمضان کی راتوں میں نمازپڑھادیاکرو اور ظاہر ہے کہ صحابہ میں کوئی شخص بھی قدرِقلیل قرآن سے عاری نہ تھا، پس اس کے معنی سوا اس کے کچھ نہیں کہ حضرت عمرؓکی مراد یہ تھی کہ لوگ پورا قرآن نہیں پڑھ سکتے۔ نیز حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓکے زمانے میں تراویح اتنی دیرمیں ختم ہوجاتی تھی کہ بعض لوگ لاٹھی پرسہارا لیتے اور سحری کا وقت ہوجانے کااندیشہ کرتے تھے، اور بہ عادتِ غالبہ اتنی دیر جب ہی ہوسکتی ہے کہ امام قرآن ختم کرنا چاہتاہو۔ اور حضرت عائشہؓ کا غلام رمضان کی راتوں میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا(یعنی نماز سے پہلے یا نماز کے بعد قرآن دیکھ لیاکرتاتھا، تاکہ نمازمیں بھول نہ ہو) اور یہ بھی جب ہی ہوسکتا ہے جب کہ ختمِ قرآن کااہتمام ہو، ورنہ وہی سورتیں پڑھتاجو خوب یاد تھیں۔ یہ تمام دلائل اس امر کے ہیں کہ صحابہ کو تراویحِ رمضان میں ختمِ قرآن کا اہتمام تھا۔ صحابہ کے اس اہتمام سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بھی رمضان میں قرآن ختم کرتے ہوں گے، گوصراحۃً حدیثوں میں اس کا ذکر نہیں۔ بہ ہرحال مسئلۂ ظنیہ میں دلالتِ ظنیہ بھی کافی ہے، گومعارض پرحجت نہ ہو، خصوص جب کہ اس کے پاس بھی دلائل ہوں، پھر امام ابوحنیفہؒ نے ایک ختم کو سنت فرمایا ہے اور وہ تابعی ہیں، اِس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سلف کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا اور سنا ہوگا۔ [امداد الاحکام]
لاک ڈاؤن میں ختمِ قرآن کی سنت
لیکن یہ دونوں سنتیں الگ الگ ہیں؛تمام کلام اللہ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا یہ مستقل سنت ہے اور پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے۔[فضائلِ رمضان] اس لیے لاک ڈاؤن کی موجودہ صورت میں بھی حتی المقدور ان دونوں سنتوں پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اہلِ خانہ میں کوئی بھی حافظ نہ ہو تو جتنا قرآن مجید یاد ہو اُسی کے ساتھ یا الم ترکیف سے روزانہ بیس رکعت تراویح پڑھ لینے سے قیامِ رمضان کی فضیلت حاصل ہو جائے گی، ان شاء اللہ۔ فالحاصل أن المصحح في المذھب أن الختم سنۃ لکن لایلزم منہ عدم ترکہ إذ لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاھر اختیار الأخف علی القوم۔[درمختار مع الشامی]