امت کو دین صحابۂ کرام کے واسطے سے پہنچا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت نے رسول اللہ ﷺ سے دین سیکھا اور من و عن آگے منتقل کر دیا۔ اس مقدس جماعت کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے قرآن مجید کا نزول اور انھیں بارگاہِ رسالت میں نیاز مندانہ حاضری کا شرف حاصل ہوا، جس پر دنیا کی دیگر تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ ان کی تربیت و اصلاح میں بہ ذاتِ خود خلاصۂ کائنات ﷺ نے حصہ لیا، اسی لیے ہمارا ایقان ہے کہ نورِ نبوت کی ایک کرن نے اُن کی سابقہ تمام آلائشوں کو ختم کر دیا۔ اب صحابۂ کرامؓ کی عزت واحترام اور ان سے محبت رکھنا جزوِ ایمان اور ان میں سے کسی کی شان میں بے ادبی یا ادنیٰ گستاخی کرنا سخت محرومی کا باعث ہے۔
ہم اس دور میں جی رہے ہیں جسے دین بے زاری کا دور کہا جاتا ہے۔ فی زماننا مسلمانوں کی بڑی تعداد لفظ ’صحابہ‘ کے معنی تک سے لا بلد ہے۔ سچ کہیں تو صحابی تو بعد کی بات ہے، ’نبی‘و ’رسول‘کے بارے میں اپنے آس پاس کے عوام سے پوچھ کر دیکھ لیجیے، تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔ ہمارا ذاتی اور تلخ تجربہ یہ ہے کہ اسکول و کالج کے طلبہ سے جب ہم نے اس بابت معلوم کیا تو اُن کے پاؤں تَلے سے زمین کھسک گئی۔ہم نے اُن سے نبی کا نام پوچھا تو کچھ نے ہمت کر کے کہا’صلی اللہ علیہ وسلم‘۔ پوری کلاس میں دو چار نے صحیح جواب دے بھی دیا توکیا اس صورتِ حال میں سوشل میڈیا پر ’مشاجراتِ صحابہ‘جیسے نازک موضوع کو چھیڑنے کو کوئی عقل مند درست ٹھہرا سکتا ہے؟لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اور دین کی خدمت کے نام پر ہو رہا ہے، إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللہ۔ان حالات میں تقاضا پیدا ہوا کہ اپنے جیسے عوام کی خاطر آسان اور قابلِ فہم انداز میں چند باتیں پیش کر دی جائیں، اللہ کرے سود مند ہوں۔
صحابی کسے کہتے ہیں؟
لفظ’صحابی‘ کے اصل معنی رفیق اور ساتھی کے ہیں، لیکن یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کے مطابق ’صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوا ہو‘۔ (دیکھیے تدریب الراوی )
امام احمد بن حنبلؒ ’صحابی‘ کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:ہر وہ شخص جسے حضرت نبی کریم ﷺکی صحبت حاصل ہو؛ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی، یا اُس نے (بس ایمان کی حالت میں) آپ ﷺکو دیکھا ہو ، تو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے، جس قدر اس نے صحبت اٹھائی ہو۔(الکفایۃ فی علم الروایۃ)
امام بخاریؒ فرماتے ہیں :مسلمانوں میں سے جس نے بھی آپ ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط آپ کو دیکھا ہو، وہ صحابی ہے۔(بخاری،کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی ﷺ)حافظ ابن حجرؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:حضور کی خدمت میں حاضری اور صحبت ساٹھ بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے، خواہ مکالمہ بھی نہ کیا ہو۔ یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے، اور اسی میں ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا بھی داخل ہے۔(النظر بشرح نخبۃ الفکر)
مختصر یہ کہ ’صحابی‘ وہ ہے جس کو بہ حالتِ ایمان آں حضرت ﷺ سے شرفِ ملاقات حاصل ہواور ایمان ہی پر فوت بھی ہواہو۔ملاقات کے لیے گفتگو شرط نہیں ،باہمی نشست یارفتار سے یا ایک دوسرے کی جانب پہنچ جانے سے یا ایک دوسرے کو قصداً یا تبعاً دیکھ لینے سے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس تعریف کی بنا پر آنِ واحد کے لیے جس کو حضور ﷺ کی رویت یا صحبت ایمان کی حالت میں نصیب ہوئی ہوگی وہ بھی صحابی ہے، گو شرفِ صحبت حاصل ہونے میں تمام صحابہؓمساوی ہیں، تاہم مراتب میں تفاوت ضرور ہے۔چناں چہ جو صحابہؓآں حضرت ﷺ کی ملازمت میں رہے، آپ ﷺ کے ساتھ نبرد آزمائی میں شریک ہوں، یا آپ کے زیرِ عَلم جامِ شہادت پا گئے، ان کو اس صحابیؓپر ترجیح ہے، جو نہ آں حضرت ﷺ کی ملازمت میں رہے، نہ کسی معرکے میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، اور اس پربھی ترجیح ہے جس کو آپ ﷺ کے ساتھ قلیل گفتگو یا نشست و رفتار کا موقع ملا،یا دور سے یا بہ حالتِ طفولیت آپ ﷺ کے دیدار کا شرف حاصل ہوا،البتہ شرفِ رویت چوں کہ سب کو حاصل ہے، اس لیے تمام صحابہ سمجھے جاتے ہیں،یہی قول مختار ہے۔(مرغوب الفتاویٰ)
صحابہ کرامؓ کا مقام و مرتبہ
صحابہ کرامؓ کا رتبہ بقیہ تمام امت سے بڑھا ہوا ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒسے حضرت معاویہؓاورحضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے متعلق سوال کیا گیا کہ دونوں میں افضل کون ہے؟تو انھوں فرمایا تھا: حضرت معاویہؓ چوں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں،اس لیے حضرت نبی کریمﷺ کی معیت میں جب وہ جہاد میں تشریف لے گئے ،اس وقت ان کی ناک میں جو غبار لگا؛عمر بن عبد العزیزؒجو کہ اول درجے کے تابعی ہیں- ان کا مقام اس غبار کے برابر بھی نہیں۔اس لیے کہ حضرت معاویہؓ کو شرفِ صحابیت حاصل ہے،جو عمر بن عبدالعزیزؒکو حاصل نہیں۔(الصوائق محرقہ فی الرد علی أہل البدعۃوالزندقہ)
صحابہ کی شان میں گستاخی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَاۗءُ ۭ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَهَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ } اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ (یعنی صحابۂ کرام) ایمان لائے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اُسی طرح ایمان لائیں جیسے بے وقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے ۔(سورۃ البقرۃ، آیۃ)اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جب میرے صحابہ (کے باہمی اختلافات وغیرہ )کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ!(معجم کبیر طبرانی)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہوں، تو ان سے کہہ دو: تمھارے سر پر اللہ کی لعنت!(ترمذی )
اہل السنۃ و الجماعۃ کا موقف
اس لیے اہل السنۃ والجماعۃ ان روافض کے طریقے سے براء ت کرتے ہیں، جو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بغض رکھتے ہیں اور اُنھیں سبّ وشتم کرتے ہیں۔ اسی طرح ان ناصبوں کے طریقوں سے بھی براء ت کرتے ہیں جو کہ اہلِ بیت اطہار کو اپنی باتوں سے نہ کہ عمل سے ایذا وتکلیف پہنچاتے ہیں۔ اور صحابہ کرامؓکے درمیان جو اختلافات واقع ہوئے ہیں، ان کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ سکوت اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓکے بارے میں ان کی شان کے خلاف جو باتیں منقول ہیں، ان میں سے بعض تو بالکل جھوٹ ہیں، اور بعض ایسی ہیں کہ ان میں کمی زیادتی کردی گئی ہے، اور ان کا صحیح مفہوم بدل ڈالا گیا ہے۔ اور اس قسم کی جو روایتیں بالکل صحیح بھی ہوں، ان میں بھی صحابۂ کرامؓمعذور ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے تو اجتہاد سے کام لے کر حق وصواب تک رسائی حاصل کرلی اور بعض سے اجتہاد میں خطا ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ اعتقاد بھی نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ کا ہر فرد تمام کبائر وصغائر سے معصوم ہے، بلکہ ان سے فی الجملہ گناہوں کا صادر ہونا تو ممکن ہے، لیکن ان کے فضائل وسوابق اتنے زیادہ ہیں کہ اگر کوئی گناہ ان سے صادر بھی ہو تو یہ فضائل ان کی مغفرت کے موجب ہیں، حتی کہ ان کی مغفرت کے مواقع اتنے ہیں کہ ان کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ ان کی نیکیوں نے ان کے گناہوں کو محو کرڈالا ہے۔ (شرح العقیدۃ الواسطیۃ من کلام ابن تیمیۃ) اس سلسلے میں دیوبندی و بریلوی میں بھی کوئی اختلاف نہیں، جیسا کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔
علماے دیوبند کی صراحت
دارالعلوم دیوبند کے سابق مفتیِ اعظم، فقیہ الامت، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سب واجب الاحترام ہیں، کسی کی شان میں گستاخی و توہین جائز نہیں۔ اُن کے مشاجرات میں کفِ لسان کا حکم ہے، گو اتنی بات صحیح ہے کہ ان میں سے بعض افضل ہیں بعض سے، لیکن کسی کے متعلق بھی یہ کہنا درست نہیں کہ وہ باطل و ضلالت پر تھے۔ جو شخص صحابۂ کرام کو سب و شتم کرے، اس پر لعنت وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں۔(فتاویٰ محمودیہ جدید مخرج)
علماے بریلوی کی صراحت
صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ کسی صحابی کے ساتھ سوئے عقیدت بدمذہبی و گم راہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض ہے۔ ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سنّی کہے۔ مثلاً حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ، اسی طرح حضرت سیدنا عمرو بن عاص و حضرت مغیرہ بن شعبہ و حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہم حتیّٰ کہ وحشی رضی اللہ تعالی عنہ-جنھوں نے قبلِ اسلام حضرت سیدنا سید الشہدا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعد اسلام اخبث الناس مسیلمہ کذاب ملعون کو واصلِ جہم کیا-ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی تبرّا ہے۔