وطن عزیز ہندوستان دنیا کا عظیم ترآزاد جمہوری ملک کہلاتا ہے جسے طویل جدجہد ،بے مثال کوششوں اور بے شمار قربانیوں کے بعد ۱۹۴۷ء کو قابض وغاصب ،مکار وچالاک ،دھوکے باز ودغاباز ، تن کے گورے من کے کالے انگریزوں سے آزاد کرا یا گیا ،تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز کو غلامی سے نجات دلانے اور ان غاصب انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے پُر جوش مظاہرے کرنے پڑے تھے، طویل ترین جہد جہد کرنی پڑی تھی ،پُر خطر راہوں سے گزرنا پڑا تھا ،میدان جنگ میں برسوں پڑاؤ ڈالنا پڑا تھا ،باشندگان ہند جس میں سبھی مذہب ومشرب کے ماننے والے شامل تھے یکسو ہو کر،ایک جُٹ ہوکر ،کندھے سے کندھا ملا کر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انتہائی طاقتور فوج کے مقابلہ میں محض وطن کی محبت میں میدان عمل میں کود نا پڑا تھا ، سچے محبان وطن نے آزادی کی دیوانونگی کے ساتھ شمع پر پَروانوں کی طرح نچھاور ہونے کے لئے وطن کی خاطر شہید کی مکھیوں کی طرح دشمنوں پر ٹوٹ پڑے جس طرح شہید کی مکھیاں اپنے چھتے پر ہاتھ لگانے والوں پر ٹوٹ پڑتی ہیں ،ان جیالوں نے وطن کی محبت کے نشے میں چور ہو کر ،سر پہ کفن باندھ کر ،سینہ تان کر کبھی بندوق کی گولیا کھائی تو کبھی توپ کے دہانوں پر سر رکھا تو کبھی تلوار کے زخم کھا ئے ، کبھی تو پھانسی کے پھندوں کو چوم کر اور نعرہ آزادی بلند کرتے ہوئے وطن کے لئے آزادی کی بنیاد رکھی ،ان محبان وطن اور جانثاران ملک کی مشقت بھری داستانیں سن کر اور ان کی قربانیوں کے تذکرے سن کر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں ،انہوں نے آزادی کے لئے جس حوصلے سے کام لیا تھا اور جس دیوانگی کا مظاہرہ کیا تھا جی چاہتا ہے کہ کھڑے ہوکر ان کی روحوں کو سلام پیش کریں اور عالم تصور میں جاکر ان کے ماتھے کو چوم کر ان کا شکریہ اداکریں کہ جن کی بدولت ہم وطن والوں کو آزادی میں سانس لینا نصیب ہوا ہے۔
جیسا کے اوپر لکھا جا چکا ہے کہ آزادی کے شاہینوں کا تعلق کسی ایک جماعت ،دھرم ،مذہب اور مخصوص شناخت رکھنے والوں سے نہیں تھا کہ بلکہ وطن کی آزادی میں تمام ہندستانیوں نے مل کر اپنا اپنا فریضہ انجام دیا تھا ،اگر وہ اس وقت مذہب ومسلک اور فرقہ وطبقہ کی چکر میں پڑ کر منقسم ہوجاتے تو شاید کبھی بھی ہندوستان آزاد نہ ہوتا ،اگرچہ یہ بات اور ہے جسے تاریخ ہند کبھی فراموش نہیں کر سکتی کہ آزادی کا صور پھونکنے والے ،مردہ جسموں میں آزادی کی روح پھونکنے والے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کے گیت گانے والے سب سے پہلے مسلمان اور ان کے مذہبی پیشوا یعنی علماء کرام اور مشائخین عظام ہی تھے ، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں وطن کی آزادی کے لئے کم وبیش تین لاکھ سے زائد مسلمانوں اور تقریبا باون ہزار علماء کرام نے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنا لہو دے کر ملک کی آبیاری کی ،آزادی کا صور پھونکنے والی سب سے پہلی شخصیت نواب سراج الدولہ تھے جنہوں نے ۱۷۰۰ء میں وطن کو آزاد کرانے کی خاطر میدان میں کود کر انگریز غاصبوں کو للکارا تھا ،پھر شہید ہند سلطان ٹپوؒ نے اسے آگے بڑھایا تھا ، اس کے بعد فخر ہند ،امام الا ولیاء ،نازش وطن حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتوی نے اس میں جان پیدا کی تھی اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی تحریک ریشمی رومال نے اسے عروج عطا کیا تھا، آپؒ نے اپنے شاگردوں اور خصوصاً شاگر د رشید شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کو ساتھ لے کر پوری قوت کے ساتھ ملک میں آزادی کی زور دار مہم چلائی اور اسی جرم کی پاداش میں کئی سال مالٹا (کالاپانی) اور دیگر جیلوں کی کوٹھریوں میں گذاردئے تھے ، بالاخرپوری قوت ، نہایت استقامت ، متحدہ کوششوں کے ساتھ طویل جد جہد نے اپنا اثر دکھایا اور شہیدوں کا خون رنگ لایا،وہ دن آیا جس کا باشندگان ہند کو بے صبری سے انتظار تھا ملک عزیز کو انگریزوں سے نجات مل گئی اور اس میں آزادی کا سورج طلوع ہوا ،وہ دن ہندوستانی تاریخ کا سب سے سنہرا ،خوشیوں سے بھر پور اور یادگار دن تھا۔
ہندوستان آزاد ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی کا اعلان ہوا اور اس نے اپنا کام ۹ ؍ڈسمبر ۱۹۴۷ء سے شروع کر دیا ،اس دستور ساز اسمبلی نے دوسال گیارہ مہینے اور اٹھارہ دن میں ہندوستانی آئین کو مرتب کیا اور دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کو ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو ہندوستانی آئین سپرد کیا گیا ،یہی وجہ ہے کہ ۲۶؍نومبر کے دن کو ہندوستان میں یوم آئین کے طور پر ہرسال منایا جاتا ہے،پھر اس آئین میں کئی اصلاحات اور تبدیلیوں کے بعد کمیٹی کے ۳۰۸ ممبران نے ۲۴؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو آئین کے ہاتھ سے لکھی ہوئی دو کاپیوں پر دستخط کئے ،اس کے دو دن بعد آئین ۲۶؍ جنوری کو ملک بھر میں نافذ کر دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ ہر سال ۲۶؍ جنوری کو’’ یوم جمہوریہ‘‘ منایا جاتا ہے،پی ،آئی ،بی ( پریس انفارمیشن بیورو ،حکومت ہند) کے مطابق ملک میں ۲۶؍جنوری ۱۹۵۰ء کو صبح ۱۸۔۱۰ بجے ہندوستان ایک جمہوریہ بنا، اس طر ح ہندوستان دنیا کی عظیم پارلیمانی ،غیر مذہبی جمہوریت بن گیا،یہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ،ایک ارب ۳۰ کروڑ شہریوں کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والی ریاست میں اس کا نام درج ہے ، اس میں مختلف مذاہب اور الگ الگ تہذیب وتمدن کے لوگ رہتے ہیں ،یہ شروع ہی سے پیار ومحبت کا گہوارہ رہا ہے ،یہاں کی بھائی چارگی پوری دنیا میں مشہور تھی، کہنے والے اسے مختلف رنگ ونسل اور مذہب وملت کا حسین گلدستہ تک کہا کرتے تھے ، یاد رہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان کے آئین اور دستو ر بنانے کے لئے ڈاکٹر امبیڈ کر کی چیئر مین شپ میں دیگر دوسرے اراکین کے ساتھ مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا ،ان میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ، بیرسٹر آصف علی ،خان عبدالغفار خان،محمد سعد اللہ ،عبدالرحیم چودھری،بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانیؒ شامل تھے ،اس دستاویزپر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کئے ۔
ہندوستانی آئین کی خصوصیت اور کے اجمالی ذکر سے قبل جانتے ہیں کہ آخر جمہوریت کسے کہتے ہیں اور اس کی تعریف کیا ہے ،جمہوریت کے لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘جمہوریت کا لفظ دو یونانی الفاظ Demo یعنی’’ عوام‘‘ اور Kratos یعنی ’’حکومت ‘‘سے مل کر بنا ہے ، دستور ہند نے ہندوستانی عوام کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کے لئے خود مختار بنایا ہے اور ہندوستانی عوام کو سر چشمہ اقتدار مانا ہے،دستور نے پارلیمانی طرز کی جمہوریت کے سامنے کابینہ کو اپنے فیصلے قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لئے جواب دہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت میں پرودئے گئے ہیں ،جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا ،دستور کی 42 ویں ترمیم کی رو سے ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘ کہا گیا ہے ،جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا،مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گااور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملے گا،آئین کی رو سے ہر ہندوستانی قانون کی نگاہ میں برابرہے،ہر شہری کو آزادی رائے ،آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے ،اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے ۔
مگر یہ بات تجربات ، مشاہدات اور موجودہ حالات کی روشنی میں کہتے ہوئے کوئی تامل نہیں ہو رہا ہے کہ اس عظیم جمہوری ملک جس کے دستور میں سب کے لئے مساویانہ حقوق بیان کئے گئے ہیں اور ہر ایک کو آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر مکمل عمل کا اختیار حاصل ہے اس کے باوجود یہاں کے باشندگان مثلاً بچھڑے طبقات ،دلت ،آدیواسی اور خصوصاً مسلمان مستقل ظلم وستم اور ناانسافی کا شکار ہورہے ہیں ،کبھی ان سے ان کے حقوق چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو کبھی آئین میں تبدیلی لاتے ہوئے ان سے ان کے حقوق چھینے جا رہے ہیں اور ان فوائد سے انہیں محروم کئے جانے کی مذموم سازش کی جارہی ہیں ، کبھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو کبھی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے ،جب یہ اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان پر طرح طرح کے بے بنیاد الزامات بلکہ ملک غداری جیسے گھناؤنے الزامات لگا کر ان بے گناہوں اور مظلوموں کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے ،جب سے زعفرانی جماعت اقتدار پر آئی ہے تب سے کمزوروں اور خصوصاً مسلمانوں پر ظلم وستم حد سے بڑھ گیا ہے،یہ لوگ مذہب کی آڑ میں نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں ،یہ ملک سے جمہوریت کے خاتمہ کا خواب دیکھ رہے ہیں ،اس جمہوری گلدستہ کو زعفرانی رنگ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کو مذہب کے نام پر پاٹ دینا چاہتے ہیں ،یہ ملک کے تحفظ کی تو بات کرتے ہیں مگر اپنے قول وعمل کے ذریعہ اس میں نفرت کی آگ لگانے میں مصروف ہیں ،ملک سے سچی محبت یہ ہے کہ باشندگان میں پیار و محبت کو بڑھایا جائے ،ان کے درمیان خلوص کو پروان چڑھایا جائے اور انسانی وملکی بنیادوں پر ان کی خدمت کی جائے ،انہیں ہر طرح کی سہولت مہیا کی جائے اور سرکاری وغیر سرکاری عہدوں کے دینے میں کسی بھی طرح کا تعصب نہ برتا جائے ، ملک سے سچی محبت درحقیقت اس کے آئین کی حفاظت میں ہے ،اگر آئین محفوظ ہے تو ملک اور اس میں بسنے والے سب ہی محفوظ ومامون ہیں اگر خدانخواستہ آئیں خطرہ میں پڑجائے تو سمجھ لیجئے کہ ملک پر بد امنی ،ظلم اور ناانصافی کے بادل منڈلانے والے ہیں ،اس وقت یہی کچھ صورت حال ہے ،اصلاحات وترقی کے نام پر وقفہ وقفہ سے آئین میں ترمیم وتبدیلی کی جارہی ہے اور اس سازش کے ذریعہ جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کیا جارہا ہے اور اس پر زبردستی آمریت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد سے یہ مستقل سازش کے تحت کچھ نہ کچھ کرتے جارہے ہیں اور جمہوری نظام پر ہٹلری ہتھوڑا مار کر اس پر آمریت کو مسلط کرکے اپنے ستر سال پرانے خوابوں کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں ،انہوں نے پہلے مسلم عورتوں کا سہارا لے طلاق ثلاثہ بل پاس کرایا ،اس کے ذریعہ شریعت اسلامی میں راست مداخلت کی کوشش کی ،عازمین حج کی سبسڈی برخواست کی اور ان کے لئے انکم ٹیکس سیٹی فیگٹ لازم قرار دیا، تعلیم میں اصلاحات کے نام پر سبز باغ دکھاتے ہوئے زعفرانی نصاب لاگو کرنے کی کوشش کی ہے ،جس کے ذریعہ مذہبی اداروں اور خصوصاً دینی مدارس پر لگام کسنے کی تیاری ہے ،ین آر سی کے نام پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ملک سے باہر کرنے کی پلانگ کی گئی ،زرعی شعبہ کے متعلق بل پاس کرتے ہوئے کسانوں کا گلا گھوٹنے اور سرمایہ داروں کو راست فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ،ین آر سی کی مخالفت میں پورا ملک سڑکوں نکل آیا تھا اور پُر امن احتجاج کرتے ہوئے حکومت ہٹلر سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کرنے لگا تھا ،مگر کورونا نے آکر کچھ وقت کے لئے ان کے عزائم کو کچل کر رکھ دیا ،مگر یہ جن پھر کس وقت بوتل سے باہر نکلے گا معلوم نہیں ،اس وقت زرعی قوانین کی مخالفت میں تقریبا ڈیڑھ ماہ سے ہزاروں کسان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس ظالمانہ بل کے واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ،اب تک دس مرتبہ حکومت سے بات ہو چکی ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے،حکومت جس کا مقصد ہی عوام کی بھلائی تھا وہ عوام کا درد سمجھنے سے قاصر ہے ، سخت ترین سردی کے باوجود کسان نہایت ثابت قدمی کے ساتھ بل کی مخالفت میں جٹے ہوئے ہیں اور سرکار سے کہہ رہے ہیں اگر تم ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو ہم بھی کسان ہیں درخت لگانا بھی جانتے ہیں اور اسے اُکھاڑ نا بھی جانتے ہیں ، ان تمام حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہی ہے ،اس کی نظر میں عوام کی بھلائی نہیں بلکہ اپنے ناپاک عزائم کی اہمیت ہے ۔
مگر یاد رکھیں باشندگان ہند اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کی نیت کیا ہے اور وہ ان قوانین میں تبدیلی کے ذریعہ وہ کیا چاہتی ہے ،باشندگان ہند کے دلوں میں وطن کی محبت پیوست ہے ،وہ بھوک وپیاس برداشت کر سکتے ہیں مگر ان کے آباواجداد کے لگائے ہوئے اس سایہ دار درخت پر ہر گز آنچ آنے نہیں دیں گے ،یہ جمہوریت کی بقا اور اس کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اور زبان حال وقال سے کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت میں ووٹ ایک ایسی طاقت ہے جس کے بل پر کسی کو بٹھا یا بھی جا سکتا ہے اور کسی کو اُتارا بھی ،یوم جمہوریہ کی تقریبات جو ہر سال بڑے اہتمام اور شان وشوکت سے ملک بھر میںمنا ئی جاتی ہیں ،اس کا مقصد صرف ترنگا لہرا کر اسے بلند کرنا نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی بلندی کو برقرار رکھنا اور اس کی حفاظت کا عہد کرنا ہے ،یقینا یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر شہری اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ ملک کے آئین کی حفاظت کرے گا اور جمہوریت کے استحکام وبقا کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا ، اس سے بڑھ کر اور کیا مذاق ہو سکتا ہے کہ ادھر آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہو رہا ہے ،جمہوریت خطرہ میں پڑ ی ہے اور باشندگان ہند اذیت میں مبتلا ہیں اور دوسری جانب یوم جشن جمہوریہ بھی منایا جا رہا ہے ،یہ بھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ جن کے ہاتھوں میں جمہوریت کا دم گھٹ رہا ہے وہی لوگ جمہوریت کے نام پر پرچم کشائی میں مصروف ہیں ،یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر ایک شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی حفاظت، جمہوریت کے استحکام اور اس کی بقا کے لئے جد جہد کرنے کا عہد کریں اور اسے کسی بھی قیمت پر آنچ نہ آنے دیں ،اگر شہری مضبوطی سے اس کی حفاظت کرتے ہیں تو پھر آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنا ،اس میں رد بدل کرتے ہوئے اسے نقصان پہنچانا اور اس پر آمریت کا جن مسلط کرنا ممکن نہیں ہوگا ، بلا شبہ جمہوریت ہمارے ملک کی شان ،بان اور پہچان ہے اسے ہم کبھی مٹنے نہیں دیں گے ۔