’’قنوت نازلہ ‘‘عدالت عظمیٰ میں مظلوم کی فریاد

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عارضی اور آخرت کو دائمی جگہ بنایا ہے ،یہاں کا قیام مختصر اور محدود ہے اور وہاں کا قیام طویل اور لامحدود ہے، دنیا میں آنے والے ہر شخص کو وقت مقررہ پر دنیا سے جاناہے مگر جانا کب ہے اور یہاں اس کا قیام کتنا ہے اسے معلوم نہیں ہے ، اس کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے،دنیا کا نظام کب تک باقی رہے گا اور اس میں بسنے والے کتنے عرصے تک رہیں کوئی نہیں جان سکتا ، اس کا علم صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے ، قرآن کریم میں ارشاد ہے : إِنَّ اللَّہَ عِندَہُ عِلۡمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الۡغَیۡۡثَ وَیَعۡلَمُ مَا فِیۡ الۡأَرۡحَامِ وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَداً وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ بِأَیِّ أَرۡضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ(لقمان:۳۴)’’یقینا (قیامت کی)گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے،وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے،اور کسی متنفس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ کونسی زمین میں اسے موت آئے گی ،بیشک اللہ ہر چیز کا مکمل علم رکھنے والا ہے،ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے‘‘، البتہ آخرت اور وہاں کا قیام کتنا رہے گا اس کا علم اللہ نے سب کو دیا ہے ،قرآن کریم میں ارشادہے:وَالۡآخِرَۃُ خَیۡۡرٌ وَّأَبۡقٰی (الاعلیٰ:۱۷)’’ حالانکہ آخرت(دنیا کے مقابلہ میں ) کہیں زیادہ بہتر اور پائدارہے‘‘، اور وہاں کے قیام کے متعلق ارشاد ہے: جَزَاؤُہُمۡ عِندَ رَبِّہِمۡ جَنَّاتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡأَنۡہَارُ خَالِدِیۡنَ فِیۡہَا أَبَدًا (البینہ:۸)’’ان کے پروردگار کے پاس ان کا انعام وہ سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
جس طرح دنیا کا قیام عارضی اور مختصر ہے اسی طرح یہاں کی نعمتیں اور مصیبتیں ،راحتیں اور مشکلیں ،حکومتیں اور سرکاریں اور خوشی اور غم سب کے سب وقتی اور عارضی ہیں ،یہاں کی نہ خوشی ہمیشہ ہے اور نہ مصیبت ہمیشہ ہے بلکہ کبھی خوشی سے ملاقات ہے تو کبھی غم کا سامنا ہے،دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہے جسے کبھی غم سے واسطہ نہ پڑا ہو اور نہ کوئی ایسا شخص ہے جسے خوشی نے لگے نہ لگایا ہو،آخرت ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں جنت میں داخلہ کے بعد خوشی ہی خوشی ہے اور جہنم میں گرنے کے بعد غم ہی غم ہے ،مومن وفرماں بردار کے لئے انعام واکرام کی حقیقی جگہ جنت ہے اور کافر و نافرمان کے لئے مقام سزا جہنم ہے ،مسلمانوں کے لئے ہر دو حالت نفع بخش اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہیں ،شکر پر مزید نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور صبر پر اجر وثواب سے مالا مال کیا جاتا ہے، انہیں معلوم ہے کہ دونوں طرح کی حالتیں خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ جسے چاہتا ہے کچھ دے کر آزماتا ہے اور جسے چاہتا ہے کچھ نہ دے کر آزماتا ہے ،دونوں حالتوں پر ثابت قدمی اسے خدا کے نزدیک اور جنت کی نعمتوں کی حقدار بنادیتی ہے ،بلکہ مسلمانوں کو ناموفق حالات سے دوچار کرکے اللہ انہیں ابدی زندگی کی لازوال نعمتوں سے مالامال کرنا چاہتا ہے ، سیدنا ابوعبیدہ بن حذیفہ ؓ اپنی پھوپی سیدہ فاطمہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم چند خواتین رسول اللہ کی تیمار داری کرنے کے لئے گئیں ،آپ ؐ کے اوپر ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا ،بخار کی حرارت کی وجہ سے اس کے قطرے آپ ؐ پر ٹپک رہے تھے ،ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ؐ !اگر آپ اللہ سے شفا کی دعا کریں تو وہ آپ ؐ کو شفا دے دے گا، یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا ’’ لوگوں میں سب سے زیادہ انبیاء ؑ پر آزمائشیں آتی ہیں،پھر ان پر جو مرتبے میں ان کے قریب ہوتے ہیں ،پھر ان پر جو ان کے قریب ہوتے ہیں پھر ان پر جو ان کے قریب ہوتے ہیں (مسنداحمد)۔
متقین اور مقربین کے لئے آزمائشیں تقرب الٰہی کا ذریعہ بنتی ہیں اور عام مسلمانوں کے لئے گناہوں سے معافی ،اپنے احوال درست کرنے ،تعلق مع اللہ پیدا کرنے اور صبر ضبط پر گناہوں سے پاکی کا ذریعہ بنتی ہیں ، مسلمانوں کو ہدایات اور تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر حالت میں خدا ہی رجوع ہوں ،راحت پر شکر کرتے رہیں اور مصیبت میں اسی سے فریاد کریں ،وہی مصیبت کے ماروں کی مصیبت دور کرتا ہے اور فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کرتا ہے ، مصیبت میں گرفتار اور ظلم کا شکار شخص جب اپنے مولیٰ اور آقا کو پکار تاہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے تو اس کی آوازفوراً عرش تک پہنچ جاتی ہے اور ظالم چاہے کتنے ہی طاقتور ہوں یا کرسی اقتدار پر فائز ہوں اور طاقت کے نشے میں چور ہوں خدا کا قہر ان پر برپا ہوتا ہے ،طاقت وقوت رکھنے والا جسم ہڈیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور حکومت واقتدار کی مستیوں میں جھومنے والے بڑے سر ذلت ورسوائی کے عمیق غاروں میں گر کر اہل دنیا کے لئے عبرت وموعظت کا نشان بن جاتے ہیں ،اسی لئے رسول اللہ ؐ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مظلوم کی بدعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے ( بخاری)۔
ظلم تو بہرے حال ظلم ہی ہے اور ظالم چاہے جو بھی ہو وہ ظالم ہی ہے، ظلم جب حد سے تجاوز کر جائے ، ظالم ظلم کی انتہا کر دے اور مظلوم وبے گناہ پس کر رہ جائیں تو مظلوم کو ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا اور ظالم کو ظلم سے روکنے کی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے ،مظلوم کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ظلم پر خاموش نہ رہے بلکہ اپنی قوت وطاقت کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ظالم کو منہ توڑ جواب دے ،ظلم پر خاموش تماشائی بنے رہنا بھی ایک طرح کا جرم ہے ،ظلم خود پر ہو ،اہل ایمان پر ہو یا اہل شہر وملک پر ہو یا پھر دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی انسان پر ہو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور حتی المقدور مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنا ہر ایک کی دینی ،ملی ،اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے ،رسول اللہ ؐ نے انسانیت کی بنیاد پر مظلوم کی مدد کی تعلیم دی ہے بلکہ اعلان نبوت سے قبل مکہ کے انصاف پسند اور امن کے متمنی چند لوگوں نے ملکر ایک کمیٹی بنائی تھی جس کا نام ’’حلف الفضول ‘‘ رکھا تھا ،سبھوں نے مل کر عہد کیا تھا کہ جب تک سمندر میں پانی رہے گا اور احد پہاڑ اپنی جگہ قائم رہے گا ہر حال میں مظلوم کی مدد کی جائے گی ،اس معاہدہ میں رسول اللہ ؐ بھی شریک تھے اور اعلان نبوت کے بعد اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فخر فرماتے تھے کہ اب جبکہ میں نبی بناکر مبعوث کیا گیا ہوں (انصاف کی آواز بن کر اٹھا ہوں اور لوگوں کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنے اور ان میں بھید بھاؤ مٹانے کے لئے آیا ہوں) اگر کوئی مجھے اب بھی بلاتا ہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں ،رسول اللہ ؐ نے ایک طرف جہاں ظلم وستم پر صبر وضبط،ہمت وجرأت سے کام لینے کی تعلیم دی ہے وہیں اپنی طاقت وقوت کے بقدر ظلم کا بدلہ لینے اور ظالم کو اس کے ظلم کا جواب دینے کی بھی ترغیب دی ہے تاکہ ظالم ظلم سے باز آجائے اور اسے اپنے کئے کی سزا ملے ،ایک طرف تو بقدر قوت وطاقت ظالم کا مقابلہ کرنا ہے ،ظاہری وسائل کا استعمال کرنا ہے اور منظم طریقے سے ،مرتب انداز میں اور اجتماعی قوت کے ساتھ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ظلم کا جواب دینا ہے وہیں صرف اسی پر اکتفا کرکے مطمئن نہیں ہو جانا ہے بلکہ اسباب کے بعد مسبب الاسباب کی طرف رجوع بھی ہونا ہے ،رسول اللہ ؐ کی سنت رہی ہے کہ ناموافق حالات ،مصیبت کے اوقات ،آفات سماوی اور دشمنوں سے مقابلہ کے وقت اللہ کی طرف رجوع فرماتے تھے اور گریہ وزاری کے ذریعہ رحمت الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے ، چنانچہ آندھی وطوفان ،قحط سالی وخشک سالی ، طاعون ووبائی امراض اور ظالموں کے ظلم وجبر کے موقع پر نہ صرف آپ ؐ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے بلکہ صحابہ ؓ اور ان کے واسطے سے امت مسلمہ کو تعلیم دی کہ وہ ان حالات میں اللہ ہی سے استعانت طلب کریں اور اسی سے مدد ونصرت مانگیں یقینا جب اللہ کی نصرت شامل حال ہوتی ہے تو پھر قلیل کثیر پر ، کمزور طاقتور پر اور معمولی اسباب رکھنے والے اسباب سے مالا مال لوگوں پر کامیابی حاصل کرتے ہیں ، رسول اللہ ؐ نے خاص حالات میں خاص طریقے سے اللہ کی طرف رجوع ہوکر ظالم وجابر اور دشمنوں کے حق میں بد عا فرمایا ئی تھی جسے قنوت نازلہ کہا جاتا ہے ،قنوت کے معنی اللہ کے سامنے خشوع وخضوع کا اظہار ہے اور نازلہ مصیبت میں گرفتار ہونے کو کہتے ہیں ،قنوت نازلہ کے ذریعہ مسلمان اللہ کے دربار میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں ،اپنے اللہ کو پکار تے ہیں اور اپنی حاجت اس کے سامنے پیش کرتے ہیں،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: میں قنوت اس لئے کرتا ہوں تاکہ تم اپنے پروردگار کو پکارو اور اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو(مجمع الزوائد) ۔
جب مسلمان کسی مصیبت میں گرفتار ہوں ،دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر دشمنان اسلام کی جانب سے ظلم وستم ڈھایا جانے لگے،شب وروز انہیں پریشان کیا جانے لگے اور انہیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا جانے لگے تو ان حالات جہاں مادی اسباب کے تحت ظلم وستم سے بجاؤ کی کوشش کی جاتی ہیں وہیں ظلم و ستم اور تشدد وجور سے بچاؤ کے لئے قنوت نازلہ پڑھی جاتی ہے، قنوت نازلہ کی ابتداء بیر معونہ کے واقعہ کے بعد ہوئی ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے کچھ لوگوں کے اصرار پر ستر(۷۰) صحابہؓ کو نجد کی جانب تبلیغ اور تعلیم کے لئے روانہ کیا تھا ،یہ منتخب حضرات تھے ،قرآن کریم کے حافظ تھے اسی لئے ان کو’’ قراء‘‘ کہا جاتاتھا،اوقات شب میں تلاوت کیا کرتے تھے اور دن کو لکڑیاں اکھٹا کرکے اُسے فروخت کرکے اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے ،راستہ میں کچھ قبائل نے بیر معونہ پر انہیں گھیر لیا اور سب کو شہید کر ڈالا،صرف ایک صحابی ؓ جو زخمی ہوکر لاشوں کے نیچے دب گئے تھے ،پھر ان کو ہوش آیا تو وہ بچ کر واپس آئے اور رسول اللہ ؐ کو اس حادثہ کی خبر دی ،آپ ؐ کو اتنا صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا ،وہ قبائل جو اس وحشیانہ جرم کے مرتکب ہوئے تھے ان کے لئے آپ ؐ نے بدعا کی اور ایک ماہ تک نماز فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے رہے ،حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ دعاء قنوت نازلہ پڑھنے کا یہ پہلا موقع تھا اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھا گیا تھا(بخاری) ،سیدنا ابوبکر صدیق ؓ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت اور سیدنا عمر فاروقؓ اہل کتاب سے مقابلہ کے وقت قنوت نازلہ کا اہتمام کیا تھا، حضرات خلفائے راشدین ؓ ،وتابعینؒ کے بعدسلف صالحین وائمہ مجتہدین ، ہر دور کے علماء وبزرگان دین اورمسلم حکمرانوں نے نازک حالات میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ،احناف کے پاس قنوت نازلہ نماز فجر میں پڑھنا مسنون ہے اگر چہ اس کے علاوہ نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا دیگر احادیث میں مروری ہے ،قنوت نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر امام کھڑا ہو جائے اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پر آہستہ آمین کہے،پڑھنے والے کی آواز میں خشوع ہو ،قرأت کی آواز سے کم ہو ، اور پھر دعا سے فارغ ہوکر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائے اور بقیہ نماز مکمل کرے ، قنوت نازلہ پڑھنے کی حالت میں جو مسبوقین امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آمین کہیں اور پھر امام کے سلام پھیر نے کے بعد اپنی دونوں رکعتوں کو پوری کرے، قنوت نازلہ کے وقت ہاتھوں کو باندھنے چھوڑے رکھنے اور دعا کی طرح اٹھانے تینوں طریقوں کا روایتوں میں ثبوت ملتا ہے البتہ علماء نے چھوڑے رکھنے کو ترجیح دی ہے ،قنوت نازلہ کا حکم عام ہے ،مرد ،عورت ،امام منفرد ہر ایک کو شامل ہے ،منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعائے قنوت پڑھ سکتے ہیں مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں(فتاوی رحیمیہ)، قنوت نازلہ کا اہتمام دشمن کے خلاف بدعا اور مسلمانوں کی مدد ونصرت کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے اس کا اہتمام اس وقت تک کرناچاہئے جب تک دشمن کا زور کم نہ ہو جائے ،دعائے قنوت نازلہ بہت سی روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ،ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے علماء کرام نے ایک جامع دعا نقل کی ہے وہ یہ ہے :اللھم اھدنا فیمن ھدیت وعافنا فیمن عافیت وتولنا فیمن تولیت وبارک لنا فیما اعطیت وقنا شر ماقضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک وانہ لا یذل من والیت ولا یعز من عادیت تبارکتا ربنا وتعالیت ولا منجا منک الا الیک نستغفرک ونتوب الیک وصلی اللہ علی النبی والہ وسلم،اللہم اغفر لنا وللمؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات والف بین قلوبہم واصلح ذات بینہم وانصرہم علیٰ عدوک وعدوہم ،اللہم العن الکفرۃ الذین یصدون عن سبیلک ویکذبون رسلک ویقاتلون اولیائک ،اللہم خالف بین کلمتہم وزلزل اقدامہم وانزل بہم بأ سک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین(قاموس الفقہ) ۔
یقینا مصائب وآفات اور دشمنوں کی دشمنی کے وقت اس دعا کا اہتمام نبوی سنت ہے ،لہذا اس کا التزام کرنا چاہیے لیکن اپنے اعمال درست کئے بغیر ،گناہوں سے توبہ کئے بغیر اور معاصی سے اجتناب کئے بغیر صرف اسی پر اکتفا کرنا شریعت اور اس کے مزاج ومذاق کے خلاف ہے ،گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کے ساتھ قنوت نازلہ پڑھی جائے تو بلاشبہ مقصود حاصل ہوگا اور یہ آہ وزاری دلوں کو چیر تی ہوئی عرش پر پہنچے گی اور ان شاء اللہ خدا کی مدد ونصرت کا ظہور ہوگا ؎

آہ! جاتی ہے فلک پر داد لانے کے لئے

بادلو!ہٹ جاؤ دیدوراہ جانے کے لئے

رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا

ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا

خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں

کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہے

Exit mobile version