انسانوں کا آپسی رشتہ اوپر جاکر ابوالبشر سیدنا آدم ؑ اور سیدہ حواء ؑ سے ملتا ہے کیونکہ سارے انسان انہیں کی اولاد ہیں اور ان سب کے یہ ماں باپ ہیں ، اس لحاظ سے دنیا کے سارے انسان چاہے وہ جس ملک اور قبیلے کے ہوں آپس میں انسانی رشتہ رکھتے ہیں ،رشتہ انسانی عظیم ترین رشتہ ہے جس کا لحاظ ایک دوسرے پر لازم ہے ،انسانی رشتوں کی پامالی انسانیت کی پامالی ہے ،انسانیت کی بقا اور دنیا کا سکون احترام انسانیت میں مضمر ہے ، دنیا میں امن وامان اور چین وسکون قائم رکھنے کے لئے انسانی رشتوں کا تقدس ضروری ہے،انسانی رشتوں کی پامالی بد امنی کو جنم دیتی ہے اور بد امنی نفرتیں پھیلاتی ہے ،جس سے انسانی رشتوں میں دراڑ پیدا ہوجاتا ہے ، آپسی احترام رخصت ہونے لگتا ہے ،محبت کے بجائے نفرتیں جنم لیتی ہیں اور ہر طرف بے قراری وبے اطمینانی کے گھنے بادل چھاجاتے ہیں جس سے انسانیت کا دم گھٹنے لگتا ہے ،مذہب اسلام جسے آسمانی مذہب ہونے کا شرف حاصل ہے ،جو دنیا کا سب سے سچا مذہب ہے، جس کی تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں ، جو انسانیت کے لئے سراپا رحمت ہی رحمت ہے ،جس نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا ہے اور اپنی بے مثال تعلیمات کے ذریعہ احترام انسانیت کی وہ تعلیم دی ہے جس کی تاریخ انسانیت میں کوئی مثال نہیں ہے ،دنیا کے سارے مذاہب اسلام جیسی انسانیت بھری تعلیمات پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہیں ،بلکہ ان کے مذاہبی پیشوا یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام ہی انسانیت کا علمبردار ہے اور اسی کی تعلیمات سے دنیا امن وامان پا سکتی ہے ، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ؐ نے اپنے قول وفعل کے ذریعہ پوری دنیا کو انسانیت کی تعلیم دی ہے اور انہیں ایک دوسرے کی مدد ونصرت کرنا سکھایا ہے ،پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے کہ ’’ انصر اخاک ظالما او مظلوما‘‘(بخاری) ہر حال میں اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ،کسی نے عرض کیا کہ مظلوم کی مدد کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کرنا سمجھ میں نہیں آتا ،تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ظالم کو ظلم کرنے سے روکنا ہی ظالم کی مدد کرنا ہے ،ایک اور حدیث میں ظلم وتشدد کو روکنے کی تعلیم دیتے ہوئے آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر اپنی طاقت کے بقدر روکنا ضروری ہے ،ہاتھ سے روکنے کی طاقت ہے تو اس سے روکیں ،نہیں تو زبان سے روکیں اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو پھر دل میں اسے بُرا سمجھیں ، محدثین فرماتے ہیں کہ دل میں بُرا سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں یہ عزم وارادہ رکھیں کہ جب کبھی طاقت وقوت پیدا ہوگی تو ضرور ظالم کو اپنی طاقت کے بقدر ظلم سے روکنے کی کوشش کروں گا۔
رشتہ ٔ انسانی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے آدب و احترام کا پاس ولحاظ رکھیں اور ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ ترحم کا معاملہ کریں ، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ؐ کی پوری سیرت احترام انسانیت سے بھری پڑی ہے اور آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو خصوصیت کے ساتھ تعلیم دی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ،ان کے ساتھ ایثار وہمدردی کا معاملہ کریں اور آپس میں محبت ومؤدت کے ساتھ میل جول قائم رکھیں،جو شخص محض انسانی بنیاد پر کسی دوسرے انسان کے ساتھ ترحم کا معاملہ کرتا ہے تو خدائے رحمن بھی اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے ،ایک موقع پر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ؐ نے ترحم کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: مخلوق ِ خدا پر رحم کھانے والوں اور ان کے ساتھ ترحم کا معاملہ کرنے والوں پر خدائے رحمن کی خاص رحمت ہوگی ،(اے انسانوں!) تم زمین والی مخلوق پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحمت فرمائے گا(ابوداؤد:۴۹۴۳)،جو انسان کسی انسان پر زیادتی کرتا ہے ،اپنی قوت وطاقت اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھا تے ہوئے کسی پر ظلم وزیادتی کرتا ہے وہ خالق ومالک مکمل اختیارات رکھنے والے اور آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے کی رحمت ،شفقت اور عنایت سے دور ہوجاتا ہے،انسانیت کی سب سے بڑی غمخوار شخصیت محسن انسانیت ؐ نے سخت دل انسانوں کے ساتھ ترحم سے پیش نہ آنے والے کو خدا کی رحمت سے دوری کی اطلاع دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ:اُس شخص پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی جو اس کی پیدا کئے ہوئے انسانوں پر رحم نہ کھائے اور ان کے ساتھ رحمت وشفقت کا معاملہ نہ کرے(بخاری:۷۳۷۶)، اگرکوئی انسان بلاوجہ کسی دوسرے انسان کو نشانہ بناتا ہے،اس پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا ہے ،اس کو ناحق تکلیف دیتا ہے اور اس کے ناحق قتل سے اپنے ہاتھ رنگین کرتا ہے تو وہ صرف ایک انسان کا قاتل نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قاتل ہے ،خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف بھیجے گئے دستور حیات میں صاف اور واضح لفظوں بتایا گیا کہ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرتا ہے ،اس کے قتل سے اپنے ہاتھ سرخ کرتا ہے اور ناحق قتل کے ذریعہ خود کو مجرمین کی فہرست میں شامل کرتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ اس نے صرف ایک انسان کو قتل نہیں کیا بلکہ پوری انسانیت کو قتل یا ہے،ارشاد ربانی ہے: مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًا بِغَیۡۡرِ نَفۡسٍ أَوۡ فَسَادٍ فِیۡ الأَرۡضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا(المائدہ:۳۲)’’جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والاہو،قتل کر ڈالیں تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا‘‘ ،اس ارشاد خداوندی سے انسانی جان کی قدر وقیمت اور تکریم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل ،جرم میں پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے،ایسا شخص سخت ترین سزا کے لائق اور مستحق ہے بلکہ قتل ناحق کے جرم میں جلد از جلد قتل کئے جانے کے قابل ہے ،کیونکہ اس نے اپنے گھناؤنے عمل کے ذریعہ خدا کو ناراض اور زمین کو ناپاک کر دیا ہے ،لہذا اس ظالم کا قصاصاً قتل ہی زمین کی پاکی،ظلم کا سد باب اور انسانیت کے چین وسکون کا ذریعہ ہے۔
ہندوستان جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے لوگ شیر وشکر بن کر ،آپس میں پیار ومحبت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ہمدرد وغم خوار بن کر زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں ،ان کی آپسی محبت اور رواداری مثالی رہی ہے اور یہ لوگ خوشی اور غم میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں ،اگر چہ یہ مختلف مذاہب اور دھرموں کے ماننے والے ہیں مگر مذہب کی بنیاد پر کبھی ان میں اختلاف وافتراق پیدا نہیں ہوا ، یہی وجہ تھی کہ ملک کی آزادی کے لئے سبھوں نے مل کر قابض انگریزوں کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا اور ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا لگا کر اور ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر وطن عزیز کے لئے جان دی تھی ،انگریز یہاں سے چلے تو گئے مگر جاتے جاتے مذہبی منافرت کا بیج بو دیا جس کی جڑیں آج ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں ، مذہبی منافرت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اس کے بہانے مظلوموں پر قہر برسایا جارہا ہے ،سب سے زیادہ ظلم کا شکار مسلمان ہورہے ہیں ،آزادی کے بعد سے مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہورہا ہے اس کی ایک طویل داستان ہے،ہر پانچ سالوں میںحکومتیں بدلتی ہیں مگر مسلمانوں کے ساتھ تقریباً سب کا انداز ایک جیسا ہی ہے ،کوئی بہلا پھسلا کر داغ دیتا ہے تو کوئی ڈرا دھمکاکر زخم پہنچاتا ہے،مسلمانوں کو نئے نئے طریقوں سے ڈرا ،دھمکاکر مارا پیٹا جارہا ہے اور انہیں تختہ مشق بناکر ان کی جانوں سے کھیلا جارہا ہے ، تقریباً پچھلے دو تین سالوں سے مختلف علاقوں میں ہجومی تشدد کی ایک لہر سی چلی ہے اس کے ذریعہ بعض حیوانی صفت ،انسانی لباس میں درندہ صفت اور جنونی مزاج کے حامل ، مذہب کے نام پر گروہ کی شکل میں تہتے ،معصوم اور بے قصور مسلمان کو گھیر کر بڑی بے رحمی کے ساتھ مارمار کر ہلاک کر رہے ہیں ،اب تک درجنوں مسلمان بے قصور ہجومی تشدد کا شکار ہوکر موت کی ابدی نیند سو چکے ہیں ،ہجومی تشدد کا نشانہ صرف اور صرف مسلمانوں ہی ہیں ،یہ درندہ صفت لوگ جس درندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جسے دیکھ کر یقینا جنگل کے درندے اور چیر پھاڑ کرنے والے بھیڑئے بھی شرما رہے ہوں گے اور زبان حال سے کہہ رہے ہوں گے ’’ ہم درندے تو اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکار کرتے ہیں اور یہ انسان صرف اپنے انا کی تسکین کے لئے ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں اور وہ بھی مذہب کا نعرہ لگا کر ،ان بے رحم انسانوں سے ہم تو جنگل کے درندے اچھے ہیں‘‘ ،ظلم تو بہرے حال ظلم ہی ہے ، انصاف تو ہر حال میں ہونا ہی چاہیے ،ظلم ظالم کا اس طرح پیچھا کرتا ہے جس طرح سایہ انسان کا پیچھا کرتا ہے،کفر کی سزا آخرت میں دی جاتی ہے مگر ظالم کو ظلم کی سزا دنیا ہی سے شروع کر دی جاتی ہے ، عدل وانصاف ،امن وامان اور ظلم کے سد باب کے لئے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچا نا ضروری ہے ، جہاں اور جس جگہ ظلم وستم کا بازار گرم ہے اور معصوم ان کا شکار ہورہے ہیں ، مجموعی طور پر وہاں رہنے والے سب لوگوں کی ملکی ،آئینی ،مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے اور خاص کر سر کار ی حکمرانوں کی اہم ترین اور بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حال میں ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور انہیں کڑی سزا دیں ، قانون کے رکھوالے اور آئین کے محافظ اور سرکاری عہدے رکھنے والے اگر ان مجرموں کو پکڑ کر سخت ترین سزادایں گے تو ان ظالموں کی کمر ٹوٹ جائے گی اور آئندہ اس طرح انہیں ظلم کی ہمت نہ ہوگی ، ظلم پر تماشائی بنے رہنا اور صرف زبانی مذمت کرنا ظالموں کی طرف داری کے مترادف ہے، ظلم وستم کے بعد اگر ظالم آزاد گھوم رہاہے اور مظلوم دہشت زدہ ہے ،ان کی فریاد رسی کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے اور حکام وعہد ار آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں تو یہ بھی ایک طرح کے مجرم اور ظالم کے ساتھ ظلم میں برابر کے شریک ہیں، ظالم کی پشت پناہی کرنے کے جرم میں یہ بھی مجرم کے ساتھ سزا کے مستحق ہیں، ملک کی صورت حال روز بروز بگڑتی جارہی ہے، شر پسند اور درند ہ صفت انسان امن کی فضا کو مکدر کرتے جارہے ہیں، آئے دن کہیں نہ کہیں شرپسند ،امن کے دشمن اور درندہ صفت لوگ معمولی معمولی بہانے سے معصوموں اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرتے جارہے ہیں ،کبھی انہیں بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جارہا ہے تو کبھی گلا دبا کر سانس روک کر ہلاک کیا جاتا ہے تو کبھی ستون سے باندھ کر دھار دھار آلوں سے ان کی جان لی جارہی ہے اور کبھی بے قابو ہجوم کے ذریعہ انہیں اپنے عتاب کا شکار بناکر ہمیشہ کی نیند سلادیا جارہا ہے،آئے دن اخبارات ،ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے ذریعہ دل ہلادینے والے تصایر دیکھنے کو مل رہے ہیں ،جسے دیکھ کر جسم پر لرزہ طاری ہورہا ہے، آنکھیں اشک بار ہورہی ہیں اور اندر سے دل رو رہا ہے ،صورت حال اس قدر خطر ناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ تنہا نکلنے اور سفر کرنے میں ڈر محسوس کر رہے ہیں ، حکومت کے کرسی پر براجمان اور انصاف کے نعرے لگانے والے لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دن بدن شرپسندوں کی جرأت بڑھتی ہی جارہی ہے ،جس طرح سے مسلمانوں پر ظلم وستم کیا جارہا ہے اگر کسی اور قوم پر ہوتا تو وہ آسمان سر پر اٹھا لئے ہوتے ، انتقاماً سڑکوں پر نکل آتے مگر مسلمانوں کو دیکھئے کہ صبر وتحمل برتے ہوئے ہیں اور جمہوری انداز میں اپنے غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت وقت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مظلوموں کے ساتھ انصاف کیا جائے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ،اس موقع پر ملک کے سمجھدار شہری ، انسانیت کا درد رکھنے والے اور امن کے متلاشی افراد کوآ گے آنے کی ضرورت ہے اور اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے مجرموں کو سخت سزا دلوانے کی حکمرانوں سے مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے اور آئندہ پھر کسی کو اس طرح کے جرم کی جرأت نہ ہو سکے ،مسلمان اپنے ساتھ دیگر اقوام کے سنجیدہ ،انسانیت پسند اور امن کے حامی لوگوں کو لے کر جمہوری انداز میں مگر زبردست اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کریں اور حکومت وقت کو زندہ قوم ہونے کا احساس دلائیں اور بتائیں کہ عدل وانصاف ، وطن عزیز کے امن وامان اورمظلوموں کی مدد کے لئے روز اول سے ہم ہی نے پہلے قدم آگے بڑھایا تھا ،آج بھی آگے آرہے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے ، تعجب ہے ان لوگوں پر جو جمہوریت کا دم بھر تے ہیں ،انصاف کی بات کرتے ہیں ،سب کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کرتے ہیں ،جانوروں کے تحفظ پر ریالیاں نکالتے ہیں اور درختوں کے کاٹنے والوں کو مجرم گردانتے ہیں ،یہاں مسلمانوں پر ظلم پر ظلم ہورہا ہے اور یہ اندھے ،بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں اور جب مظلوم اپنا دفاع کرتے ہیں اور تشدد کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور بزدلی کے بجائے جواں مردی دکھاتے ہیں ،اپنے دفاع کے لئے زبان چلاتے ہیں اور اپنی حفاظت کے لئے ہاتھ پیر مارتے ہیں تو یہی اندھے ،بہرے اور گونگے بول پڑتے ہیں اور ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپا ں کر دیتے ہیں ؎
ہزروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا ٭اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے