حیدرآباد: 4؍مارچ (راست) ہم جس حسین ملک بھارت میں زندگی بسر کررہے ہیں یہ ملک مختلف اہم ترین خصوصیات کا حامل ملک ہے۔ اس ملک میں مختلف مذاہب، مختلف رنگتوں ، مختلف زبانوں، مختلف طبقا ت، مختلف تہذیبوں اور مختلف زبانوں والے رہتے ہیں جس میں رواداری، ہمدردی، محبت اور حسن سلوک کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس ملک پر ناجائز طورپر انگریز قوم قابض تھی ۔ ہمارے ملک کو مختلف مذاہب اور مختلف ریاستوں سے وابستہ فکر مند مجاہدین نے ایک ہوکر آزاد کیا، جن کی قربانیوں نے ہم سب بھارتی باشندوں کو ستر سال تک امن و سکون، سلامتی و شانتی کے ساتھ آزاد زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ پچھلے چند سالوں سے اس ملک کی سلامتی کو فرقہ پرستوں کی ناپاک اور ظالمانہ کوششوں سے خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ اس ملک کی مٹی میں مجبت او رامن دونوں عناصر شامل رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں وراثت میں محبت اور امن جیسی دولت چھوڑی ہے۔ اس ملک کے اولیاء اور بادشاہوں نے رواداری اور خدمتِ خلق کی روشن اور زندہ مثالیں چھوڑ ی ہیں۔ ان اولیاء اور بادشاہوں کی نگاہوں میں ہندو اور مسلمان ایک ہی جسم کی دو آنکھیں تصو رکی گئی تھیں۔ انسانیت کی بنیاد پر اولیاء کرام نے لنگر کا پیارا نظام قائم کیا تھا جس سے مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع ملا۔ موجودہ قیادت نے اپنے نامعقول اور جابرانہ فیصلوں سے پورے ملک میں تشویشناک حالات اور مایوس کن ماحول پیدا کیا ہے۔ یہ وقت شکوہ شکایت، خوف و ہراس، مایوسی اور بزدلی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ کا حل تلاش کرنا، منصوبہ تیار کرنااور عملی اقدامات کی جانب قدم بڑھانا ہے۔ دہلی فسادات سے ایک طرف بھارتی مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے ہر قسم کا ظلم ڈھاسکتے ہیں اور وہ کسی بھی حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اس فساد کی گہرائی پر غور کرنے سے یہ سبق ملا کہ کئی ہندوؤں نے مسلمانوں کو اس موقع پر پناہ دی او ربروقت ان کی مدد کی۔ اسی طرح کئی مسلمانوں نے ہندوؤں کو پناہ دی او ران کی بروقت مدد کی۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے والے مقامی احباب تھے جو ایک دوسرے کے شناسائی تھے جن کے ایک دوسرے سے تعلقات اچھے تھے۔ حملہ کرنے والے وہ فسادی اور دنگائی تھے جو باہر سے آئے تھے یا منصوبہ بند طریقے سے بھیجے گئے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر محلہ واری سطح پر ہندو ، مسلم ، سکھ، عیسائی متحد ہوجائیں اور امن بحالی کے لئے تمام مذاہب کے ذمہ دار ذی اثر احباب پر مشتمل نئی امن کمیٹیاں موثر انداز میں تشکیل دی جائیں تو فرقہ پرستوں کے منصوبے ناکام ہوں گے اور کوئی باہر کا آدمی کسی بھی محلہ میں ظلم و بربریت کی نیت سے گھس نہیں پائے گا۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی بانی و محرک منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا۔ دہلی فسادات کے موقع پر سکھ برادری کے ایک ہمدرد شخص نے ایک زخمی مسلمان کے خون کو روکنے کیلئے اپنی پگڑی کھول دی اور زخمی مسلمان کے چہرے وغیرہ پر باندھ دی، جو سکھ اپنی پگڑی کے لئے جان دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہے وہی سکھ اپنی پگڑی کو ایک زخمی بھارتی کے خون سے آلود کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ اس ملک میں رواداری، محبت اور ہمدردی اب بھی ہے اور اگر اس پر مزید محنت کی گئی تو فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوں گے اور ملک گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار رہے گا۔