عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی مدظلہ :19؍اپریل2020ء بروزاتوار کیے گئے خطاب کے کچھ اہم نکات
ضبط وترتیب: مولانا مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمیؔ (استاذ دارالعلوم حیدرآباد)
آج کا سبق التحیات کا سبق ہے، یہ سب کویاد رہتا ہے ، سارے لوگ نمازوں میں اس کوپڑھتے ہیں؛مگر ہماری نفسیات کچھ ایسی ہیں کہ جس کو ہم باربار دہراتے ہیں اس کے معنی و مفہوم کی طرف توجہ نہیں کرتے ، جیسے ایک دعا کثرت سے مانگی جاتی ہے : ربنا أتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار۔(البقرۃ:۲۰۱)مگراس کے معانی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی، جس کے نتیجہ میںلوگ دوسری دعائیں ، دوسرے وظائف، کوئی دوسرا عمل پوچھتے ہیں ،کچھ بتادیا جائے تو کہتے ہیں کہ مزید کچھ اور ہے تو بتائیے،پھراستفسار کرتے ہیں: کیا پڑھنا ہے، کس وقتپڑھناہے اور کتنی مقدار میں پڑھنا ہے۔ حالاں کہ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیاں اس دعا:ربنا أتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار۔(البقرۃ:۲۰۱)میں چھپی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کو دعائے قنوت یاد نہ ہوتو یاد ہونے تک وتر میں دعائے قنوت کی جگہ اس دعا کو پڑھاجاسکتا ہے ۔ (عالمگیری: ۱؍۱۱۱، الباب الثامن فی الوتر) اس مسئلہ کی روسے بھی اس دعاء کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دو قسم کے لوگ
دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک وہ لوگ ہیں جو اللہ سے صرف دنیاکی بھلائیاں مانگتے ہیں،جن کے اندر آخرت کے بارے میں کچھ فکر نہیں پائی جاتی ،ایسے لوگوں کو دنیا تو بقدر مقدر مل جاتی ہے ؛ مگر آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہوتا، اللہ نے فرمایا:فمن الناس من یقول ربنا آتنا فی الدنیا وما لہ فی الآخرۃ من خلاق ۔(البقرۃ:۲۰۰) اور کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں : جو اللہ سے دنیا اور آخرت دونوںکی بھلائیاں مانگتے ہیں، چنانچہ اللہ نے فرمایا: ومنھم من یقول ربنا أتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار۔ أولئک لھم نصیب مما کسبوا۔(البقرۃ:۲۰۱، ۲۰۲) اللہ نے ایسے لوگوںکی تعریف کی ہے ،ان کو دنیا اور آحرت دونوںکا خیرملے گا۔
ساری دنیا کا ایک ہی پہاڑا
دنیامیں زیادہ دن رہنا نہیں ہے؛مگر سب کو یہیں کی فکر ہیکہ ہماری ماکولات(کھانے کی چیزیں)، مشروبات (پینے کی چیزیں)، مرغوبات(نفسانی ساری خواہشات)، ملبوسات (لباس وپوشاک)، مسکونات(زمینات ومکانات)، مطویات (سواریاں)، مالوفات اورمانوسات( وہ چیزیں جن کے ساتھ ہمارے جذبات شامل ہوتے ہیں) عمدہ سے عمدہ ہوں۔ساری دنیا کے لوگوں کا ایک ہی پہاڑا ہے: کھانا اچھا ہونا، کپڑا اچھا ہونا، رہنا اچھا ہونا،مکانات اچھے ہونا، لباس اچھا ہونا، سواریاں اچھی ہونااور جن لوگوںکو میں چاہتاہوں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا۔
ایک جملہ میں ساری خواہشات مانگ لی
کسی بزرگ نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایک شخص تھا ، وہ دعا کرتا تھا ؛ مگر اثر ظاہر نہیں ہوتا تھا،اس بندہ نے حضرت موسیٰؑ سے کہاکہ آپ اللہ سے کہیے کہ وہ میری دعا قبول کرے ،چنانچہ اس بندہ سے یہ بات کہی گئی کہ تم صرف ایک ہی چیز مانگو، وہ قبول ہوگی، تو اس نے ایک ہی چیز مانگی اور کہا : اے اللہ میرے پوتوں کی تھالی میں مجھے بہترین بہترین چیزیں دیکھنے کا موقع عطا فرما ۔ اس نے بظاہرایک جملہ کہا؛ مگر دنیاکی ساری خواہشات مانگ لی، اس کے ایک جملہ کا مطلب یہ ہے کہ عمر دراز ہو، ہر طرح کی فراخی ہو، اولاد ہو؛ بلکہ اولاد کی اولاد ہو، پھر ان کو دیکھنا مجھے نصیب ہو، اور وہ بھی اچھے مال دار ہوں، ایک جملہ میںساری رغبتیں اور خواہشیں مانگ لی ۔
اللہ کے پاس مقدار نہیں معیار دیکھا جاتا ہے
اکثر لوگ دعائیں طوطے کی طرح رٹ لیتے ہیں ، ان کے معانی پر نظر نہیں کرتے ، جس کے نتیجہ میں اکثروں کا یہ ذہن بن جاتا ہے کہ اللہ کے پاس مقبولیت کے لیے وظیفہ بڑی مقدار کا رہناچاہیے ، حالاں کہ اللہ کے پاس مقدار نہیں معیار دیکھا جاتا ہے ، دو رکعت پڑھو ؛مگر قاعدہ کی پڑھو، عمل چاہے تھوڑا کیوں نہ ہو؛ مگر عمدگی اور اخلاص کے ساتھ ہونا چاہیے۔
اسم اعظم کی حقیقت
کسی بزرگ سے ایک آدمی نے کہا :مجھے اسم اعظم بتائیے، تو انہوں نے کہا :فلاں دن، فلاں جگہ ،فلاں وقت، پانی کے کنارے پر آجانا،وہاں تمہیں اسم اعظم بتاؤں گا، تو وہ آگیا ، اس بزرگ نے اس کو کشتی میں بٹھالیا اور پانی کے بیچوں بیچ لے جاکر اس کوپانی میں ڈھکیل دیا، وہ کہنے لگا کہ مجھے بچالو، مجھے بچالو، وہ بزرگ پلٹ کر دیکھتے ہی نہیں ، جب ڈوبنے لگاتو اس کو سمجھ میں آگیا کہ اب میرا کوئی سہاراکا نہیں ، اب سوائے مرنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں تو اس وقت گڑ گڑا کر زور سے پکارا ، اے اللہ! اب تو ہی بچالے، وہ اتنی زور سے چلایا کہ وہ دور گئے ہوئے بزرگ واپس پلٹ کر آئے اور کشتی پر سوار کرلیا اور اس کو کشتی پر بٹھا کر کہا: تونے جس انداز سے گڑگڑا کر ، پوری مخلوق سے مایوس ہو کر، اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کر کے اس نیت کے ساتھ پکاراکہ اب میرا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں، اسی کیفیت کا نام اسم اعظم ہے۔
التحیات میں تین چیزیں ہیں
التحیات میں ہم لوگ تین چیز یں بولتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ للہ ہے التحیات للہ ، والصلوۃ للہ والطیبات للہ، ہم بظاہر پڑھتے ہیں التحیات للہ والصلوۃ والطیات؛ مگرعربی زبان کچھ اس طرح ہے کہ ایک لفظکبھی ایک ہی جگہ آتا ہے،دوسری جگہ وہ لفظوں میں ظاہر نہیں کیا جاتا ؛ لیکن معنوی اعتبار سے اس کا ذکر رہتا ہے ، جیسے فصل لربک وانحر۔ (الکوثر:۲)نماز پڑھیے اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے اپنے رب کے لیے، یہاں ’’وانحر ‘‘کے بعد ’’لربک‘‘بظاہر نہیں ہے ؛ مگر معنوی اعتبار سے موجود ہے۔ ایسے ہی التحیات للہ والصلوۃ اللہ والطیبات للہ ، یہاں لِلّٰہِ لفظوں میں نہیں ہے؛ مگر ہر لفظ کے بعد للہ معنوی طورپر موجود ہے۔
التحیات(تمام قولی عبادتیں)والصَلوٰۃ (تمام بدنی عبادتیں) والطیبات(تمام مالی عبادتیں) سب اللہ کے لیے ہیں، تحیات کا تعلق زبان سے ہے، صلوٰۃ کا تعلق بدن سے ہے ،طیبات کا تعلق مال سے ہے، زبان سے جو کچھ بولوں گا ،اللہ کے لیے بولوں گا، بدن سے جو کچھ کروں گا، اللہ کے لیے کروں گا، مال سے جو کچھ دوں گا، وہ اللہ کے لیے دوں گا ، یہ تین چیزیں بندہ اللہ کے دربار میں دو زانوں بیٹھ کر ، سرجھکاکراور بڑے ادب کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
تین چیزوں پر تین انعام
ان ہی تین چیزوںکو پیش فرمایاتھا نبیٔ رحمت ﷺ نے بارگاہ الہی میں، زبان کھولی تو اللہ کے لیے ، جسم کو استعمال فرمایا تو اللہ کے لیے، مال کا استعمال فرمایا تو اللہ کے لیے،جب یہ تین چیزیں پیش فرمائیں تو جواب میں انعام کے طور پر تین چیزیں ملیں السلام علیک أیھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ پر سلامتی ہو ، اللہ کی رحمتیں ہوں اور اللہ کی برکتیںہوں ، انسان کو یہی (سلامتی، رحمت اوربرکت)تین چیزیں چاہئیں ،یہ مل گئے تو دنیا کا خیر بھی مل گیا اورآخرت کا خیر بھی۔
سلامتی بڑی نعمت ہے
آج سلامتی نہیں ہے ، امن نہیں ہے ، حفاظت نہیںہے، ایک خوف کی کیفیت ہے ،سلامتی اتنی بڑی چیز ہے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے ملتے وقت یہی تعلیم دی گئی کہ یوں کہو: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہاوراس کے جواب میں بھی یہی بولنا ہے ، و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سب سے پہلی چیز سلامتی ہے ، امن اور حفاظت ہے ، ا س لیے یہ جملہ مشہور ہے ’’جان سلامت تو جہاں سلامت ‘‘اور ایک جملہ اس سے زیادہ مشہور ہے’’ جان بچی لاکھوں پائے‘‘ ،سلامتی اتنی بڑی چیز ہیکہ اس کے لیے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں، ایک ملک کا سربراہ کسی جگہ پر جاتا ہے تو اس کی سلامتی کے واسطے لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں،سیکڑوںلوگوں کا گھیرا ان کی حفاظت کے لیے رہتا ہے،پچھلے زمانہ کے بادشاہ بھی اپنی سلامتی کے لیے سات گھیرے رکھتے تھے اور کہتے تھے :سات گھیرے توڑ کر مجھ تک کو ن پہونچ سکتا ہے؟
نزلہ بر عضوِ ضعیف
اب حکومت کے لوگوں کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو بالکل سیدھے سادے قسم کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ایسے سیدھے لوگ کہ جن کو صرف اپنے ایمان، اپنے اعمال اور اپنی آخرت کے علاوہ کچھ فکر نہیں ، جو کسی کا برا نہیں چاہتے، انہیں دیکھا کہ یہ کمزور ہیں، سیدھے سادے ہیں تو ان پراپنا نزلہ اتارنا شروع کردیا ، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے: ’’نزلہ بر عضو ضعیف ‘‘آدمی کو جب نزلہ ہوتاہے تو اس کا اثر بدن کے کمزور حصہ پر زیادہ ہوتا ہے ،ایسا ہی ہوا کہ جو لوگ سب سے بے خطر تھے، انہیں کو سب سے زیادہ پُر خطر بتایا جارہا ہے۔
ایک لطیفہ
مجھے تو ایسے حالات میں وہ لطیفہ یاد آتا ہے کہ ایک آدمی نے چوری کی،لوگوں کو اس کی چوری کا احساس ہوگیا، چاروں سمت سے لوگ چور چور پکارتے ہوئے آنے لگیتواس نے سوچا کہ اب بچنے کی یہی شکل ہے کہ میں سب کے ساتھ مل کر چور چور پکا روں؛ لہذا اس نے بھی چور چور پکارنا شروع کردیا۔ اب موجودہ صورت حال یہی ہے کہ جن لوگوں نے کیاہے ،انہوں نے اپنے کو بچانے کے لیے ایسی ہی آوازیں اٹھانا شروع کردیں ۔
ظلم کو کارنامہ قرار دینا ظالموں کا شیوہ ہے
دنیا میں حکومتوں اور سیاستوں کاعرصۂ دراز سے یہ شیوہ رہا ہے کہ کسی کمزور کو پکڑ کر اسی کو مجرم قرار دیتیہیں اور اس ظلم کواپنا کارنامہ قرار دینے لگتے ہیں، وہی سلسلہ اس وقت بھی چل رہا ہے ، حتی کہ اب وائرس کو بھی مسلمان بول رہے ہیں ،یہ لوگ اسلام سے اتنے متأثر ہیں کہ انہیں وائرس کو بھی مسلمان ماننے میں کوئی تکد رنہیں ،وائرس کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ کہاں سے شروع ہوا؟ وائرس چھوڑنے والے کون ہیں؟ تعجب ہے کہ باہر سے لاکھوں لوگ آئے ، وہ نہیں پھیلائے، ایک مسجد میں رہنے والے لوگوں نے پھیلادیا۔
سلامتی ہر انسان کی ضرورت ہے
سلامتی ہر انسان کی ضرورت ہے ، چھوٹے ہوں کہ بڑے، غریب ہوں کہ امیر، رعایا ہوں کہ حاکم سب کی ضرورت ہے، آج لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے ؛ مگر سلامتی نہیںہے، اسی لیے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم خوب کماتے ہیں، خرچ پورے نہیں ہورہے ہیں، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہمارا کمایا ہوا کہاں جارہاہے؟
رحمت الہی کی دوجہتیں
سارا خیر ملتا ہے اللہ کی رحمت سے، اور رحمت کی بھی دو جہتیں ہیں:ایک عام رحمت اور ایک خاص رحمت، جیسے کسی کو جان کا مل جانا رحمت ہے ،ایمان کا مل جانا یہ بھی رحمت ہے ؛ لیکن ایک رحمت عارضی ہے اورایک رحمت دائمی ہے ، جیسیایمان بچانے کے لیے جان چھوڑنا پڑے تو آدمی اس کی موافقت کرسکتا ہے ، جیسے صحابہؓ اور اللہ کے پسندیدہ بندوں نے یہ کیا ، جان دے دی؛ مگر ایمان نہ دیا۔خصوصی رحمت وہ چیز ہے :جس سے آدمی ابدی طور پر ہمیشہ کے لیے سعادت مند بن جاتا ہے۔
برکت بھی ایک بڑی ضرورت ہے
برکت بھی سب سے بڑی ضرورت ہے ، نبیٔ رحمت ﷺ کویہ دی گئی ہے اور بتایا گیا السلام علیک أیھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،اللہ نے آپﷺ کو دشمنوں سے محفوظ بھی رکھا، تمام رحمتوں سے سرفراز فرمایا؛ بلکہ خود آپ کو سراپا رحمت بنادیا (الانبیاء: ۱۰۷) اور برکتوں سے نوازا۔موجودہ زمانہ میں برکتوں کا فقدان ہے، آج ہم لوگ تین تین مرتبہ جی بھر کر کھانے کے بعد اتنی توانائی نہیں پاتے، جتنی توانائی صحابہؓ سوکھی روٹی اور کھجور کے چند دانوں میں پالیتے تھے، یہ برکت کا نتیجہ تھا۔
پہلے ماننا پھر مانگنا
التحیات میں ترتیب دیکھو، نبی ٔ رحمت ﷺ نے پہلے یہ تین چیزیں پیش کیں،(۱)زبان کااستعمال اللہ کے لیے ،(۲) جسم کا استعمال اللہ کے لیے (۳)اور مال کا استعمال اللہ کے لیے، پھر تین چیزیں ملیں:(۱) سلامتی ملی (۲) رحمت ملی (۳) اور برکت ملی۔ بڑے لوگوں کاایک جملہ آپ نے سنا ہوگا: پہلے ماننا پھر مانگنا،سورہ فاتحہ میں اللہ نے یہی ترتیب بتائی ہے: ایاک نعبد وایاک نستعین ۔(الفاتحہ:۵)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیںا ورتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اور ہم نے پورا معاملہ الٹاکر دیا کہ مجھے یہ دیجیے تومیں یہ کروں گا،جب کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ پہلے کروپھر ملے گا۔ایک اللہ کی سنت ہے اور ایک اللہ کی قدرت ہے، جیسے کسی کو اپنے فضل سے کوئی چیز دے دیں، جس کو چاہیں ،جب چاہیں، جیسا چاہیں، اور جہاں چاہیں دے دیں، یہ اللہ کی قدرت ہے ؛لیکن جہاں تک بندہ کے مکلف ہونے کا تعلق ہے اس کے ذمہ پہلے ماننا ہے پھر مانگنا ہے ۔
ماہِ رمضان میں خلق خدا کی خدمت کیجیے
اگر سلامتی، رحمت اور برکت چاہیے تو پہلے کچھ کرنا ہے ،زبان کو، بدن کو اور مال کو اللہ کی مرضی ہی کے مطابق استعمال کرنا ہے نیز موقع اور محل کے اعتبار سے ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا خاص خیال رکھنا ہے ، اب ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، رسول اللہﷺرمضان المبارک میں ہوا کی طرح سخی ہوتے تھے، اس وقت معاشی اعتبار سے لوگ پریشان ہیں تو جتنی خدمت ہم سے ہوسکتی ہے، ضرور کریں، صدقہ ،خیرات ، دوسرو ںکے ساتھ احسان اوراللہ کے ضرورت مند بندوں کی خدمت یہ چیزیں اللہ کی ناراضگی کو ختم کرتی ہیں، اللہ کے غصہ کوتھنڈا کرتی ہیں ۔ (سنن ترمذی:حدیث نمبر:۶۶۴، باب ما جاء فی فضل الصدقۃ)رمضان میںہم نمازیں اہتمام سے پڑھیں گے ،روزے اہتمام سے رکھیں گے، تراویح اہتمام سے پڑھیں گے ، صدقات و خیرات بھی اہتمام کریں گے ۔زکوۃ وہ نکالے گا جو صاحب نصاب ہوگااور جو صاحب نصاب نہ ہو تو وہ قناعت والی زندگی گزرانے کی کوشش کرے؛ اگر ضرورت پڑجائے تو اپنی روزی روٹی میں سے دوسروں کا خیال کریں، مثلا کھانے کو چار روٹیاں ہوں اور کوئی ضرورت مند آجائے تو ان میں سے کچھ اس ضرورت مند کو دے دے ، باقی اپنے لیے رکھ لے ۔
خیر کی سب کوضرورت ہے
جو ایمان، جو سلامتی، جو رحمت اور جو برکت ہمیں مطلوب ہے ، سارے لوگ اس کے حاجت مند ہیں، ہر ایک ضرورت مند ہے سلامتی کا، ہر ایک ضرورت مند ہے رحمت کا اور ہر ایک ضرورت مند ہے برکت ہے، اسی لیے فرمایا گیا کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی بھلائی میں شامل کرلو، السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ ہم پر بھی اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلامتی نازل فرمائیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی ضرورت کے پیش نظر تم اپنوں کو بھول نہ ہوجاؤ، اس لیے یہ تعلیم دی گئی ہے۔
ہر عبادت کی قبولیت کا معیار
ان تمام چیزوں میں قبولیت پیدا ہوتی ہے عقیدۂ توحید ورسالت سے، عقیدۂ توحید ورسالت ہر کامیابی اور قبولیت کی کلید ہے،
ہر خیر کا دروازہ اسی پر کھلے گا ، اسی لیے التحیات کے آخر میں اسی عقیدہ کی تجدید کروائی گئی ہے، ہم کہتے ہیں أشھد أن لا الہ الا اللہ واشھدأن محمدا عبدہ ورسولہ ۔ میں گواہی دیتا ہوںکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔
التحیات اوراس کا ترجمہ
التحیات للہ والصلَوٰۃ والطیبات السلام علیک أیھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللہ الصالحین ،أشھد أن لا الہ الا اللہ و أشھد أن محمدا عبدہ و رسولہ۔
تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، اے نبی آپ پر سلامتی ، اللہ کی رحمت اور اس کی برکت نازل ہو، سلامتی نازل ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔