آئیےذراصاف صاف بات کرتےہیں۔ کبھی کبھی ہم نیک ارادے سے کوئی کام کرتے ہیں؛ لیکن اس کا نتیجہ برانکلتاہے۔ یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب ہم بہتر منصوبہ بندی کئے بغیرہی یا محض جذبات کی بناء پر کوئی کام شروع کر دیتے ہیں۔
کرونا کی وبا کے اس مشکل اور تکلیف دہ گھڑیوں میں جب کہ بغیر بہتر منصوبہ بندی کے پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن چل رہاہے، لاکھوں افراد بیچ میں پھنس گئے ہیں اور مختلف چیزوں یا متعدد قسم کی ضروریات کے لئے محتاج بنے ہوئے ہیں۔
ریلیف کاکام کرنا اور غریبوں کی مدد کرنا بہت اہم اور نیک عمل ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو، اپنے کنبہ کے افراد کی صحت کو بچانانیز لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانابھی اس سے ضروری عمل ہے۔ لاک ڈاؤن ایک ہفتہ پہلے ہی آجانا چاہئے تھا، تاہم ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے اور اس کےعلاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔
اس وقت سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ ہر طرح کے اجتماع اور بھیڑ بھاڑ سے بچاجائے۔ جسمانی روابط اور ایک انسان کادوسرے انسان کے ساتھ جمع ہونا و غیرہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا بنیادی ذریعہ ہے۔ جب لوگوں کو معاشرتی فاصلہ برقرار رکھنے کی وجہ سے کسی بھی مسجد یا دوسرے مذہبی مقام پر جمعہ کی نماز یا کسی بھی طرح کی پوجا پاٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے،اس سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتاہے کہ گھر میں رہنا کتنا ضروری ہے، توپھر سینیٹائزرکےاستعمال، ضروری احتیاط اور کم سے کم فاصلہ بنائے بغیرریلیف تقسیم کرنا کیسے اچھا کام ہوگا؟
موجودہ وبائی مرض کوئی سیلاب، زلزلے یا کسی اور قدرتی آفات کی طرح نہیں ہے، جس کا ماضی میں ہم تجربہ کرچکےہیں؛ بلکہ یہ ایک ایسی آفت ہے جس سےماضی میں ہمارا کبھی بھی سابقہ نہیں پڑاہے، اس لیے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ دِکھنے میں اچھا لگتاہےکہ آپ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے خود خطرہ مول رہے ہیں اور آپ کی نیت بھی صاف ہے، لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو پہلے ہی سے انفکشن ہو اور آپ زندگی کے بجائے ضرورت مندوں میں اموات بانٹ رہے ہوں! یا اس امدادی کام کے دوران ہوسکتاہے کہ آپ کسی ایسے آدمی کے پاس جارہے ہوں،یاان سے رابطہ کررہے ہوں، جس کو پہلے ہی سے یہ وائرس ہے — یہ پیکنگ، خریداری یا تقسیم کرتے وقت بھی ہوسکتاہے– اورپھرآپ اس سے موت کولیکر اپنے گھر میں جارہے ہوں، جس سےخود آپ اورآپ کے متعلقین متاثر ہوں گے۔یقینا آپ نہیں جانتے کہ کیا آپ یاآپ کے قریب کھڑا شخص اس مہلک وائرس سے محفوظ ہے! یہ کوئی نہیں جانتا ہےکہ یہ بیماری کب علامات ظاہر کرنا اورآپ کاشکار کرنا شروع کردے!
ازراہ کرم کسی بھی کام میں جلدی نہ کریں۔ آپ اپنی سنجیدگی کی کمی کی وجہ سے یا نیک کام پر محض جذباتی طور پردوڑنے کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے مقصد کو ہی خراب کرسکتے ہیں۔
اس انتہائی سنگین وقت میں گھر سے باہر عوامی خدمات ماہرین کی نگرانی میں صرف تربیت یافتہ رضاکاروں کو ہی حکومت کی اجازت سے کرناچاہئے؛کیوں کہ آج ہندوستان میں عوام میں امدادی سامان تقسیم کرنے کے بجائےاس بیماری کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کے اسباب کو کم کرنا زیادہ اہم ہے۔
مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ کچھ ریاستی حکومتوں مثلاً مغربی بنگال، مہاراشٹرا، کیرالہ، دہلی اور آسام نے لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لئے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ ہمیں ان اقدامات کو سراہنے کی ضرورت ہے، نیز فی الحال ہم کو بہت ہی صبر اور تحمل کا مظاہرہ بھی کرناچاہئے۔
ہمارا واحد مقصد اس لاک ڈاؤن کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے میں حکومت کاتعاون کرنا ہے؛ کیونکہ ہندوستان میں اجتماعی زندگی کوبچانے کایہی ایک بہترذریعہ ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ احباب پریشان ہیں اور کچھ دوسرے لوگ حقیقتاً تکلیف اور چیخ و پکار میں مبتلا ہیں، ظاہر ہے کہ یہ صرف خداتعالیٰ ہی ہیں جواس قدرتی آفت سے دوچار ہوئے پوری دنیا کے لوگوں کے معاملات پر توجہ دے سکتا ہے اور ہر ایک کو یکساں طور پر خوش کر سکتا ہے اورہرایک کی تکلیف کو بیک وقت دوربھی کرسکتاہے۔
ہمیں حکمت سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ایک آدمی کی جان کوبچانے کےلئے دس لوگوں کو بسترِمرگ پر ڈال سکتے ہیں؟ نہیں، کیوں کہ سخت اور غیر معمولی حالات میں بہتر فیصلہ زیادہ لوگوں کو بچاتا ہے۔
موجودہ حالات میں بھوک عام طور پر جلدی موت کا سبب نہیں بنے گی، کیوں کہ ہمارا نظام اس وقت چوکس ہے یا بدترین صورتحال میں اس سے چند افراد مرسکتے ہیں، لیکن یاد رکھئے، اگر ہماری چھوٹی موٹی غلطیوں کی وجہ سے معاشرے میں کورونا وائرس پھیل گیاتو پھر اس سے ایک دن میں سینکڑوں اموات ہوں گی اور یہ سلسلہ ہفتوں اورمہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
آئیے ذراسمجھداری سےکام لیتے ہیں، جو لوگ امدادی کام کر رہے ہیں وہ عام طور پر مطلوبہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے ہیں، ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ راہگیروں، ڈرائیوروں اوردیگرلوگوں کے لئے سڑکوں پر کیلے اور بِسکٹ بانٹ رہے ہیں،یا کھانا پیش کررہے ہیں، لیکن لینے والے قطار میں ہیں، وہ ایک دوسرے کو چھو رہے ہیں، حتی کہ ضروری فاصلہ کے بغیر کھڑ ےہیں، اس طرح اکھٹاہوکرکام کرنا امداد لینے اوردینے والےدونوں کے لئے خطرناک ہے ۔
دوسری طرف کچھ دوسرے لوگ شرم کو بالائے طاق رکھ کر انسان کی عزتِ نفس اوروقار کاخیال کئےبغیرچھوٹی موٹی انسانی خدمات کرنےکی تصاویر کھنچواتے اور ویڈیو کلپس بنواتےہیں؛ یہاں تک کہ فیسبک اور یوٹیوب پرلائیونشرکرتے ہیں، گویا کہ یہ ان کی نام نہاد خیرات کی نمائش کابہترین موقعہ ہے۔ حالاں کہ خیراتی کام وہ اچھے ہوتے ہیں جن میں فائدہ اٹھانے والا بھی آپ کو پہچان نہ سکے۔
دہلی حکومت جس طرح سے سڑکوں پر کھانا تقسیم کررہی ہے وہ معاشرتی فاصلے کے اعتبار سے بالکل بھی مناسب نہیں ہے اور کوویڈ-19 کے احتیاطی تدابیر کے خلاف ہے۔ اسی طرح مختلف ریاستوں میں پولیس کے کچھ دستوں نےعوام کے ساتھ جورویہ اپنایاہواہے — متعدد ویڈیو فوٹیج میں دیکھاجاسکتاہے– وہ نہ انسانی ہے اورنہ پولیس کے اعتبار سے پیشہ وارانہ عمل ہے۔ یہ پولیس اہلکار اپنی صحت، زندگی اور اپنے متعلقین کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی صحت کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن آرڈر نافذ کرنے کے جوش میں ان میں سےکچھ پولیس والے درحقیقت قومی لاک ڈاؤن کے مشن کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایک پولیس اہلکار غریب سبزی فروش کو غیر انسانی طور پرکیسے پیٹ سکتا ہے، جبکہ اس کو ضروری اشیاءکے استثناء کے تحت، دکان کھولی رکھنے کی اجازت ملی ہوئی تھی؟یہ پولس والے بزرگ افراد اور خواتین کو، جو پریشانی کے عالم میں اپنے گھروں ہی کی طرف مجبوری میں پیدل جارہے ہیں، سب کے ساتھ، یکساں طورپراور اندھا دھند کیوں ماررہے ہیں؟ سڑکوں پر ہمارے کچھ پولیس اہلکار عوام کے خلاف انتہائی ظالم کیوں نظر آتے ہیں؟ وہ کسی کی بھی سنے بغیر مارناشروع کردیتے ہیں،حالاں کہ ممکن ہے کہ کوئی شہری کسی واقعی ضرورت کی بناء باہر آیاہو۔
پولیس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ غریب لوگ، جن میں سے کچھ کو چھوٹے بچوں اور خواتین کے ساتھ کوئی دوسرامتبادل نہ ہونے کی وجہ سے سو سو میل سے زیادہ پیدل چلناپڑرہاہے،بھی انسان ہیں اوروہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔
آپ کو اس بات کاحق نہیں ہے کہ آپ اپنے ہی لوگوں کو محض ان کی مجبوری کی وجہ سے سڑکوں پردوڑائیں، ان کی عزت وقار کو پامال کریں، مرغا بنائیں اور انھیں اور ان کے اہل خانہ کو مستقل طور پر شرمندہ کرنے کے لئے اس کی فلمیں بنائیں۔
ہر طرف سے بہت زیادہ انتہا پسندی باقاعدگی سے اور مسلسل ہورہی ہے۔ ہمیں تمام محاذوں میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ لاک ڈاؤن پر عمل ہو؛ لیکن ہرگلی کوچہ میں انسانیت بارباردم نہ توڑے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے پاس سامان رہنے کے باوجود ہمارے پڑوس میں کسی کو بھی کھانا یا پانی کی کمی کی وجہ سے تکلیف اٹھانا نہ پڑے۔
یادرکھئیے! اپنے بچے کی مدد کرنے سے پہلے اپنے منہ پر ماسک پہن لیں۔طبی اہلکار، پولیس فورس اورریلیف تقسیم کنندگان کو چاہئے کہ اپنی بھی صحت کا خیال رکھیں؛ کیوں کہ دوسروں کوبچانے کے لئے خود کا صحتمند ہونا بھی ضروری ہے۔
——————————————
مضمون نگار مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی کے ڈائریکٹر اورانگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسینٹ کے مدیر ہیں۔