واتقوافتنۃ لاتصیبن الذین ظلموامنکم خاصۃ….الآیہ
آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوے فرمایاکہ ظلم عربی زبان کالفظ ہے جس کے معنی تو ہے وضع الشی علی غیرمحلہ
کہ کسی بھی چیزکو جس مقصد کے لےء بنایاگیا ہے اس کے علاوہ میں استعمال کرنا جس کی بہت ساری حسی مثالیں دے کر سمجھایا ظلم موجب سزاء وگناہ یے اگراس کو مسلم معاشرہ کے لےء استعمال کیا گیا تو اس کا مطلب ہوگا گناہ اور اللہ تعالی نے اپنے ایمان والے بندوں کو ظلم سے یعنی گناہ سے باز رہنے اور بچنے کی تاکید فرمای ہے اگربندہ اس سے بچے گا تو وہ کامیاب اورمطیع وفرمانبدار کہلاے گا ورنہ تو گناہ گار ونافرمانوں کی فہرست میں اس کا شمار ہوجاے گا
اللہ تعالی آنکھ بنای اس کااستعمال جائز وحلال چیزوں کو دیکھنا ہے اس سے دیکھ کر قرآن کی تلاوت کی جاے گی تو یہ درست بات ہے اگر اس آنکھ سے ہم نے نامحرم کو دیکھ کسی بھی اجنبی عورت پر نظر ڈال دی تو یہ ظلم ہے کیونکہ آپ نے اس کا مس یوز اورغلط استعمال کیا کان کو اچھی اوربھلی باتیں سننے کے لحء بنایا گیا زبان کو ذکراللہ وقرآت قرآن اور نیک باتوں کا مذاکرہ کرنے اور حق بولنے کے لےء بنایا گیا اگر کوی بندہ اس سے جھوٹ بولتا ہے جھوٹی گواہی دیتا یے گانے گاتا ہے گالی گلوچ کرتا ہے تو یہ ظلم ہے جو گناہ ہے اللہ کی نافرمانی اوعدوان ہے اسی طرح بدن انسان کاہرعضو ایک خاص مقصد کے لےء بنایا گیا ہے جس سے ہٹ کر استعمال کرنے کی صورت میں وہ ظلم اورگناہ بن جاے گا
آج ہم لوگوں نے زندگی کو ایک کھیل تماشہ سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ بندہ کو آمائش وامتحان کے لےء دی گیء ہے یہ دنیا بندگی کی امتحان گاہ ہے
اللہ چاہتے تو اسی وقت دنیا میں ہماری برائیوں اور ظلم کی سزا جاری کردیں اور آنکھ کو نابینا کردیں کانوں کو بہرہ اور زبانوں کو گونگا کردیں ہاتھ پیر اور اعضاء بدن کو شل ومفلوج کرسکتے ہیں
لیکن اللہ کا قانون اورعادت اللہ یہی جاری ہے کہ وہ اس امتحان گاہ میں جزاء وسزاء نہیں دیتا بلکہ جب اس امتحان گاہ میں پرچہ لکھ کر میدان محشر میں پہونچیں گے تو وہ ہمارے سارے اعمال کھول کر رکھ دے گا اور سب اچھے وبرے اعمال کو بندہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اس کے بعد سارے کے سارے اعمال کو ھباءا منثورا بناکر اڑادیگا چونکہ وہ اعمال اللہ کی مرضی اور چاہت اور اس کے حکم کے مطابق ہی نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ قبولیت کی حد تک نہیں پہونچ ہاے اور اکارت ہوگےء انسان بھی عجب شی ہے وہ دنیا کی ساری طاقتوں سے ڈرتا ہے پولیس والوں سے ڈرتا ہے ماں باپ سے ڈرتا ہے بھای بہنوں سے اور عوام سے ڈرتا ہے کہ کہیں میرے اس گناہ کو کوی دیکھ نہ لیں اور میں ذلیل ورسواء ہوجاؤں لیکن اگر وہ نہیں ڈرتا ہے تو بس اللہ کی ذات سے نہیں ڈرتا ہے حالانکہ وہ ذات ایسی ہیکہ تم اس کی نگاہ سے چھپ کر کوی کام کرہی سکتے دنیا کے لوگوں سے تو بچ سکتے ہولیکن اس کی آنکھ سے کیسے بچ پاوگے جو ساتوں آسمان کی بلندیوں اور ساتوں زمین کی ہستیوں میں سے بھی تم دیکھ سکتاہے وہ حی وقیوم ہے لاتاخذہ سنۃ ولانوم اس کی شان عالی اس کو نہ اونگھ آسکتی ہے نہ ہی نیند آتی وہ ہرحال میں ہرجگہ اپنے بندوں کی نگرانی کررہا ہے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
حضرت سفیان ثوری سے ایک مرید نے اجازت چاہی اور کہا کہ مجھے شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہے مجھے زناکی اجازت دیجیے اور میں زنا کرنا چاہتا ہوں سفیان ثوری نے کہا کہ ٹھیک ہے کرلو مگر ایک شرط ہیکہ تم زناکرتے وقت اس بات کا خیال رکھو کہ کوی ایسی جگہ زنا کرلو جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہوں وہ تھوڑی دیر کے لےء خوش تو ہوگیا کہ اجازت مل گیء مگر پھر پریشان ہوا کہ کیا روے زمیں پر کوی ایسی جگہ بھی مل سکتی ہے جہاں اللہ کی نظر نہ پڑسکتی ہوں
یہ ممکن نہیں کیونکہ وہ ہرجگہ موجود ہوتا ہے اور تم اس کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہوسکتے ہو آج ہمارے اندر سے یہ احساس ہی نکل چکا ہے کہ ہمیں اللہ دیکھ رہاہے
آج ہم اصلاح معاشرہ کے بڑے بڑے جلسے کرتے ہیں بڑی جدوجہد کرتے ہیں لیکن یادرکھو معاشرہ کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں ہے جن تک کہ ہم میں سے ہر ایک فرداپنی اصلاح نہ کرلے اس لےء کہ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور جب افراد کی اصلاح ہوجاے گی تو معاشرہ خود بخود درست ہوجاے گا معاشرہ کی اصلاح کے لےء کی جانے والی تمام تدبیریں اور فکریں بے سود ہوجائیں گی ہم اگر اصلاح چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرلیں اور من کی دنیا کو بنانے کی فکر کرلیں
حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا اور تکڑا ہے اگر وہ درست اور صالح بن گیا تو انسان کا سار جسم درست اور صالح بن جاے گا اور ہے قلب یعنی دل
جب دل میں اللہ کا خوف آتا ہے تو پھر زندگی کے ہرموڑپر انسان اللہ کی نافرمانی اور ظلم سے بچ جاتاہے
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی ذات کی اصلاح کی فکر نصیب فرماے
دل گلستاں تھا تو ہرشی سے ٹپکتی تھی بہار
دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا