مسلم نوجوانوں میں فیشن پرستی ومغربی کلچر کا بڑھتا ہوا رجحان لمحہ فکریہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ زندگی اور دستور حیات ہے اس کے ماننے والوں کو اپنی تعلیمات سے ہٹ کر کسی اور مذہب یاکلچرل کی جانب نظرکرنے اور دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے زندگی کے ہرموڑ پر وہ اپنے ماننے والوں کی بہترین راہبری کرتا ہے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سچی اور صاف ستھری تعلیمات انسان کو ایک اچھی زندگی گذارنے  کے اصول وضابطے بیان کرتی ہیں خواہ وہ مواقع خوشی کے ہوں یا غم کے موت وحیات کی کشمکش ہوں یا معاشرت ومعاملات کی راہیں دین ودنیا کو سنوارنے اوربنانے کا ہرراستہ نبی اکرم نے انسانیت کو بتلادیا اگر بندہ مومن اس پر چلے اور مضبوطی کے ساتھ اس کو تھام لے تو دنیا کی ہرراہ پر وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکتا ہے
لیکن ہمارے معاشرہ سماج اور سوسائٹی کے بعض نوجوان اسلامی ثقافت اور تہذیب کو پس پشت ڈال کر فیشن پرستی اور مغرب پرستی کے دل دل میں پھنس کر اپنے آپ کو ماڈرن اور تہذیب یافتہ سمجھ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ اپنے والدین کی دولت اور اپنے دینی تشخص دونوں کو تباہ کررہے ہیں مغرب کی بے ہودہ حرکات ولغویات اور نت نئے فیشن کو اختیار کرکے وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں حالانکہ وہ تنزلی اور ذلت کی گہری کھائی اور عمیق غار میں گررہے ہیں
منجملہ ان لغویات میں سے
(1)ایک عمل
عیسوی سال کے آغاز پر یکم جنوری کو نیاسال منانا ہے جو کسی بھی اعتبار سے ایک مسلم سماج کو زیب نہیں دیتا ہے اولا تو نیاسال منانا خود ایک غیرشرعی عمل دوسرے اس کا اسلامی تاریخ اور مذہبی تقویم سے کو ئی واسطہ ہی نہیں محض یورپین ممالک کی دیکھادیکھی بے جا تقلید میں ہمارے مسلم نوجوان اس غیر شرعی عمل کے مرتکب ہوتے جارہے  ہیں چہ جائیکہ اس میں کئی ایک مضرات ومفاسد بھی ہوتے ہیں بعض اطلاعات کے مطابق تو ہمارے نوجوان رات رات بھی جاگ کر بارہ بجے کا انتظار کرتے ہیں آتش بازیاں ہوتی ہیں مال کابے موقع استعمال کرکے اسراف وفضول خرچی جیسے شیطانی عمل کو انجام دیا جاتا ہے گاڑیوں کی آپسی دوڑ لگاکر سڑکوں پر نعرہ بازیاں کی جاتی ہیں گلیوں میں رات کے سناٹے کے موقع پر ہارن بجاتے ہوئے گذرتے ہیں جس سے دوسرے مسلم وغیر مسلم سب کو تکلیف پہونچای جاتی ہے ایذاء مسلم جو ایک حرام عمل ہے اس کو بھی جذبات میں کر گذرتے ہیں حالانکہ اس میں کیا لطف اور مزہ آتا ہے واللہ اعلم
(2)دوسرا
اسی طرح ایک بری رسم آج کل شوقیہ طور پر ہوٹلنگ کا عام ہوتی جارہی ہے اچھے خاصے پڑھے لکھے معزز گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں ایک فیشن کے طورپر دھابوں ریسٹورینٹ اور ہوٹلوں کا رخ کرکے کبھی لنچ کبھی ڈنر کے نام پر بے محابہ اور بلا جھجھک چلے جارہے ہیں اور اس کو اپنی تہذیب کا حصہ سمجھ رہے ہیں افسوس کا مقام ہے کہ والدین کی محنت ومجاہدہ سے کمای ہوئی دولت پر ناز کرنے والی یہ نئ نسل پانی کی طرح دولت کو بہارہی ہے اور ذرہ برابر ان کو افسوس اور غم بھی نہیں ہے ابھی حالیہ دنوں میں شہر اور دیگر مقامات پرکئ ایک واقعات ایسے رونما ہوچکے جس سے کئی ایک نوجوانوں کی موت بھی واقع ہوچکی ہے
فیاللعجب
(3)تیسرا
اسی طرح ایک اور قابل ترک عمل خواتین میں موٹر سائیکل رانی کا عمل ہے آج کچھ عورتیں اپنی ضرورت سمجھ کر اور کچھ محض شوق میں آکر سڑکوں پر اپنی فطری نسوانیت کی حدود کو پار کرکے بڑے طمطراق  سے گاڑیاں چلاتی ہیں جس عورت کانام ہی اللہ پاک نے عورت یعنی چھپانے کی چیز رکھا ہے وہ آج اپنے آپ کو عیاں اور ظاہر کرتے ہوئے فخر محسوس کررہی ہیں شریعت مطہرہ نے عورت کو زینت خانہ بنایا مگر
براہو
مغربی کلچرل کا جس نے اس صنف نازک کو بازاروں اور سڑکوں کی زینت بنادیا اور اسی رنگ میں ہماری نوجوان لڑکیاں رنگتی جارہی ہیں جس سے ان کی حیاء وپاک دامنی ان کی عفت وعصمت تارتار ہوتی جارہی ہیں آے دن نت نئے واقعات بھی اخبارات کی سرخیاں بن چکے ہیں لیکن ہماری قوم مسلم ہے کہ وہ حالات کو سمجھنے کے لیے کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے
فیاحسرتاہ
اللہ پاک توفیق فہم اور عقل سلیم نصیب فرماے
آمین بجاہ سید المرسلین

Exit mobile version