کرونا کی ناگہانی صورت حال کی وجہ سے ہم اپنے بہت سے چاہنے والوں اور عزیز و اقارب سے دور ہوگئے ،علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب بھی اس مہلک بیماری میں داغ مفارقت دے گئے ،گلستان مدارس کے بہت سے گل ولالہ،گلزارخانقاہ کے بہت سی یاسمین وگلناراور گلشن علمی کے بہت سے نسرین و نسترن جن سے گلستان میں رونق تھی ، چمن میں خوشبو تھی ،چمنستان میں بہار تھی لیکن یہ سب ویرانے میں تبدیل ہوگیے ،خزاں رسیدہ ہوگیے، باغیچہ کے بہت سے پھول مرجھائے گئے ، انہی خوشبو دار پھولوں میں ایک گل ِلالہ مولانا معز الدین صاحب تھے ، جن کی زندگی کی شمع اچانک گل ہوجانے سے علمی چمن میں پزمردگی چھاگئی۔
مولانا معز الدینؒ صاحب علم دوست تھے، کتابوں کے عاشق تھے، مطالعہ کے رسیا، ان کی زندگی دینی و ملی خدمات سے عبارت ہے ، ان کی پوری حیات مستعار جمعیت علماء ہند کے کاز کو پھیلانے ، مضبوط کرنے اور سنوارنے میں صرف ہوئی ہے ، آپ وضعدار اور ملنسارتھے، انتظامی صلاحیت آپ کے اندر غیر معمولی تھی، سادگی آپ کی پہچان تھی ،خوش اخلاقی کے آپ روشن عنوان تھے، آپ جس جگہ تھے وہاں ہمیشہ لوگوں کا ہجوم رہتا ہے ، ملنے جلنے والوں کی کثرت رہتی ہے ، بسا اوقات لوگوں کی کثرت کی وجہ سے پڑھنے لکھنے والوں میں اکتاہٹ اور چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے لیکن مولانا معزالدین صاحب اس سے یکسر مختلف تھے ،آپ جمعیت علماء کے بے لوث خادموں میں تھے، جمعیۃ کی مجلس عاملہ کے رکن ، امارت شرعیہ ہند کے ناظم اور مباحث فقہیہ کے روح رواں تھے وہ نام و نمود اور دکھاوے سے بہت دور تھے ،آپ اسٹیج کے کاموں سے وابستہ ہو کر اسٹیج سے بہت دور رہتے تھے مزاج او رطبیعت کی سادگی ان کی ہر چیز سے ہویدا تھی ان کے بارے میں اقبال کا یہ شعر بہت مناسب معلوم ہوتاہے ۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
مولانا معز الدین صاحبؒ سے میں زمانہ طالب علمی سے ہی واقف تھا؛ اس لیے کہ پڑھنے کے زمانے میں جمعیت کے سالانہ پروگراموں شوق سے گھومنے کے لیے جایا کرتا تھا، لیکن مولانا سے تعارف اور تعلق کا آغاز ۲۰۱۲ء سے ہوا جب مباحث فقہیہ کا گیارہواں اجلاس دارالعلوم حید رآباد میں منعقد ہو،ا اس وقت میں دارالعلوم حیدرآباد میں مدرس تھا اور سیمینار کے لیے مقالہ بھی لکھا تھا؛اس لیے مقالہ کے سلسلے میں ان سے پہلے موبائل کے ذریعہ گفتگو ہوئی پھر جب وہ تشریف لائے تو براہ راست ملاقات ہوئی اس وقت سے آج تک شرف ملاقات اور تعلقات کا ایک سلسلہ تھا۔
میں نے مولانا کی زندگی کی چند خصوصیات نوٹ کی ہیں ، جو ان کی زندگی کا لازمہ تھیں اور ان کو ممتاز کرتی تھیں ، مولانامرحوم مباحث فقہیہ کے ناظم تھے، اس لیے دوسو سے زائد علماء کرام سے ان کا رابطہ تھا،ہر ایک سے ملنا ، اور ان کے حالات ِسفر معلوم کرنا ، خیریت پوچھنا ،نیا ہو یاپرانا ، بڑا ہو یا چھوٹا ہر ایک کی خاطر داری کرنا اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرنا یہ ان کے اعلی درجہ کے منتظم ہونے کا پتہ دیتی ہیں ۔
مولانا بہت باخبر لوگوں میں تھے، حالات سے باخیر رہتے ،مطالعہ بڑی کثرت سے کرتے تھے، کتابوں کو جمع کرنے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا، گزشتہ سال اِسی اگست کے مہینہ میں کسی کام سے دہلی جانا ہوا تو جمعیت علماء کے دفتر میں ہی قیام کرنا تھا، وہاں مولانا سے ان کے کمرے میں ملاقات کی ، مولانا نے بڑے پر تپاک انداز میں ملاقات کی ، ملنے کے ساتھ ہی کہنے لگے اب تو آپ دیوبند آگئے ہیں ؟ میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آ پ کو اس کی اطلاع دینے والا ہی تھا لیکن آپ کو کیسے معلوم ہواکہ میں دارالعلوم وقف دیوبند میں آگیا ہوں ؟ تو کہنے لگے کہ یہ سب معلوم تو ہو ہی جاتا ہے۔ پھر مباحث فقہہہ کی وہ لسٹ نکال کر دکھائی کہ دیکھئے میں نے تو آپ کا ایڈریس بھی تبدیل کردیا ہے ، او رحیدرآبادکی فہرست سے آپ کا نام نکال دیا ہے ، اس موقع پر مباحث فقہیہ کے پروگرام کے تعلق سے بہت سی باتیں ہوئی تھیں جن کا یہ موقع نہیں ہے ، اس موقع میں ان کے کمرے میں کتابوں کی کثرت کو دیکھ کر میں نے سوال کیا کہ مولانا آپ کا کمرہ کتابوں کی وجہ سے بہت چھوٹا ہوگیا ہے ،کتابیں آپ نے اس طرح ایک پر ایک رکھ دی ہیں کہ اس کو تو نکالنا بھی مشکل ہوتا ہوگا ، تو کہنے لگے کہ کہ ضروری کتابیں جن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ تو الماری میں رکھتاہوں کہ وقت ضرورت ان کو نکال سکوں اور باقی دوسری کتابیں جن کے نکالنے کی ضرورت کم پڑتی ہے ان کی اسی طرح بے ترتیبی سے رکھ دیا ہے ۔ یہ ایک اچھی ملاقات ہوئی تھی ۔ مولانا کی زندگی اور ان کے کمرہ کی صورت حال بتارہی تھی۔
نکہت گل میری دہلیز پہ کیا ٹھہرے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
مولانا کے سلسلے میں ابتدائی چند ملاقاتوں کے بعد میرا تأثر یہ تھاکہ مولانا ایک علمی آدمی ہیں مطالعہ وسیع ہے لیکن لکھنے سے شاید زیادہ مناسبت نہیں ہے لیکن یہ میرا خیال تھا، بعد میں محسوس ہوا کہ میں غلط تھا، جمعیۃ علماء ہند نے صدی تقریبات کے ضمن میں جمعیت کے بانیوں اور ابتدائی زمانے کے متحرک لوگوں کے اوپر سیمینار کرانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں بھی مقالات لکھنے کا موقع ملا تو اس موقع پر جب میں نے جمعیت کی پرانے فائلوں کو پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک زمانہ میں مولانا بہت کثرت سے لکھتے تھے ، اور بہت سی شخصیات پر مولانا کی گراں قدر تحریریں موجود ہیں ،شخصیات کے علاوہ جمعیت کی خدمات ، تعارف اور ان کے کارناموں کے تعلق کے علاوہ دیگر موضوعا ت پر ان کی تحریریں نظر سے گزری ہیں ،اور وہ تحریریں بھی زبان وادب کے معیار سے مکمل ہم آہنگ ہیں اگر چہ ادھر چند سالوں سے وہ بہت سے زیادہ نہیں لکھتے تھے ۔
مولانا سوشل میڈیا سے بھی بہت مربوط تھے، اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ مولانا کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور کتابوں کے سلسلے آپ بہت فائق تھے، واٹس ایپ گروپ کی دنیا میں ایک معتبر گروپ علم و کتاب کے نام سے ہے جس کے ایڈمن مولانا عبد المتین منیری صاحب ہیں جو خود کتابستان کی دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں ، مولانا منیری صاحب کا مطالعہ بہت وسیع ہے ، اور تجزیاتی مطالعہ کرنے کے عادی ہیں اور حاصل مطالعہ کو اپنے تجزیے کے ساتھ بڑے عمدہ انداز سے تحریر کرتے ہیں جس سے پڑھنے والا عش عش کرتا رہ جاتا ہے اور قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے معلومات کا وسیع خزانہ ہاتھ آگیا ہو ، اس گروپ میں اکثر اہل علم حضرات ہیں ؛بلکہ قرطاس و قلم کے شہسوار ہیں ، علم و کتاب گروپ سے محسوس ہوتاہے کہ ابھی مطالعہ زندہ ہے ، اور پڑھنے والے اب بھی باقی ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ مبائل نے مطالعہ سے محروم کردیا ہے کہ بلکہ ارباب علم کا ایک قافلہ ہے جنہوں نے موبائل کو ہی اپنے مطالعہ کا ذریعہ بنالیا ہے ، مولانا معز الدین صاحب اس گروپ کے ممبر تھے ، اور میں نے محسوس کیا کہ جب بھی کسی نے کسی تاریخی یا قدیم کتابوں کا مطالبہ کیا تو مولانا معزالدین صاحب نے فورا یا ایک دن کے بعد ہی وہ کتاب فراہم کردی، اس کا مطلب یہ تھا کہ مولانا نہ صرف یہ کہ اپنے کمرے کو کتابوں سے آبادکر رکھا تھا؛ بلکہ اپنے موبائل کو بھی اپنی لائبریری بنالیا تھا، یہ ان کے ذوق مطالعہ کی دلیل ہے ۔ بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے مولاناکو میسیج کیا کہ فلاں سیمینارکے فلاں موضوع کی تجاویز کی ضرورت ہے اگر ممکن ہو تو ارسال فرمادیں ، حیرت ہوتی ہے کہ مولانا نے میرا میسیج دیکھا اور میری ضرورت پوری کردی،اس کا مطلب یہ تھا کہ مولانا موبائل میں بھی علمی چیزوں کو بہت مرتب رکھا کرتے تھے کہ جب ضرورت پڑے اس کو استعمال میں لایا جاسکے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے وہ تجاویز تو پروگرام کے بعد موبائل کے ذریعہ ہمارے پاس بھی آتی ہیں ، لیکن ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ کبھی موبائل بے وفائی کردیتا ہے اور کبھی ہم موبائل کے ساتھ بے وفائی کرجاتے ہیں اس طرح موبائل میں موجود بہت سی کارآمد چیز یں ضائع ہوجاتی ہیں لیکن مولانا کا یہ کمال تھا کہ ان کی چیزیں موبائل میں بھی مرتب رہا کرتی تھیں۔
مولانا کے اچانک چلے جانے کا بہت افسوس ہوا ، ابھی اس کی توقع بالکل ہی نہیں تھی،فقہ اکیڈمی انڈیا کے سکریڑی مولانا امین عثمانی صاحب اور مباحث فقہیہ کے ذمہ دارحضرت مولانا معزالدین صاحب کا اچانک رحلت کرجانا یقینا علمی دنیا کا ایک بڑا خسارہ ہے،دونوں فقہی اکیڈمیوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے ،اس طرح کے افراد جو یکسوئی کے ساتھ ، اخلاص کے ساتھ ، دلجمعی کے ساتھ اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے، اور جنہوں نے اپنے سوز دروں سے ان کو سینچا اورپروان چڑھایا تھا یقینا ہم سب کے لیے دکھ اور تکلیف کا باعث ہے، لیکن یہ سب فیصلہ خداندی ہے ، یہ سب کرشمہ قدرت ہے جس کے آگے ہم بے بس ہے ہم صرف دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی مولانامرحوم کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے سییئات کو حسنات سے مبدل فرمائے ،اور دونوں فقہی اکیڈمیوں کا اللہ تعالی ان کا نعم البدل عطافرمائے ۔