دنیا میں کوئی ہمیشہ ہمیش رہنے کیلے نہیں آتا ہے، دنیا کا سفر ہر ایک کا مختصر ہے، ایک نا ایک دن ختم ہوجایے گا، چاہیے وہ جن ہو یا بشر عام انسان ہو کہ پیغمبر، ہر نفس ایک نا ایک دن راہی ملک بقاء ہونے والا ہے،۔
حضور ﷺ جو کہ انبیاء کے سلسلے کے خاتم ہیں، اللہ رب العزت والجلال نے آپ سے سورہ زمر میں یوں فرمایا،،إنک میت وانھم میتون،، آپ کو بھی موت آنے والی ہے،
سرکار دوعالم ﷺ کی 23سالہ دور نبوت میں کی گئی، جہد مسلسل کے نتیجے میں اقوام عالم کے لوگ فوج در فوج اسلام سے وابستہ ہو رہیے تھے،
جب آپ نے سن 10ھ میں بحکم الہی مسلمانوں کی کثیر تعداد کے ساتھ حج کا فریضہ انجام دیا، وہاں پر آپ نے تکمیل دین کا اعلان فرمایا، اور اس کے کچھ ہی دنوں بعد آپ کو سورہ نصر میں استغفار کا حکم فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق سمجھ گیے کہ آپ کی بعثت کا مقصد مکمل ہوگیا، اس لیے تسبیح و استغفار کا حکم ہوا ، اور آپ ابھی حج سے فارغ بھی نہیں ہویے تھے، کہ لوگ اس کو حجتہ الوداع کہنا شروع کردییے، اس کے بعد آپ مدینے کے لیے روانہ ہوگیے،
حضور ﷺ حج کے بعد ذی الحجہ کے آخری تاریخوں میں مدینہ زادھا اللہ شرفا وعظما پہنچے،
حضور ﷺ کے مرض کی ابتداء کب سے ہوئی مختلف روایتیں ہیں، ایک روایت یہ ھیکہ حضورﷺ ایک رات جنازہ میں شرکت کرکے بقیع سے واپس آیے تو سر درد کی تکلیف سے دوچار ہویے یہیں سے آپ کے مرض الوفات کا سلسلہ شروع ہوا،
پھر رفتہ رفتہ یہ مرض شدّت پکڑتا گیا، بالآخر اسی مرض میں آپ اس دار فانی سے کوچ کر گیے،
حضور ﷺ تقریباً پورے ۸ دن بیمار رہے، دوشنبہ سے اگلے دوشنبہ تک پھر اسی دن آپ کا وصال ہوا،
مرض الوفات میں پیش آیے دیگر واقعات،
۱ ان ہی ایام میں آپ نے جیش اسامہ کو رومیوں سے مقابلہ کیلے روانہ کیا،اور اس لشکر پر حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنھما کو امیر مقرر کیا، اس لشکر میں دوسرے بڑے بڑے مہاجر وانصار صحابہ بھی موجود تھے، باجود اس کے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے امیر بنایے جانے پربعضوں نے اختلاف کیا تو حضور ﷺ غصہ میں آگیے پھر فرمایا، مجھے زید بن حارثہ بہت محبوب تھے، زید کے بعد ،زید کا بیٹا، اسامہ بن زید محبوب ہیں،
پھر فرمایا لوگوں میں ابھی بھی نسبی تفاخر موجود ہے،
۲ جب تک حضور ﷺ مسجد جانے کی طاقت رکھتے تھے، آپ نے ہر نماز مسجد ہی میں ادا کی جب آپ میں جانے کی سکت باقی نہ رہی تو آپ نے اماں جان عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کے وہ لوگوں کی امامت کریں، تو اماں جان نے حضورﷺ سے فرمایا کہ وہ رقیق القلب ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں رکھتے، یہ اس لیے کہا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ امامت کرنی شروع کردیں اور حضور ﷺ کا اسی مرض میں انتقال ہو جائے تو لوگ ابوبکر کو منحوس سمجھیں گے، اور پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ سے حسد کرینگے، لیکن اماں جان کی اس وجہ کو حضور ﷺ نے تسلیم نہیں کیا، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم دیا، بالآخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تقریباً ۲۱ اکیس نمازوں کی حضورﷺ کے حین حیات حضور ﷺ کے مصلے پر کھڑے ہوکر فرض نمازوں کی امامت کی، چنانچہ اسی وجہ سے حضور ﷺ کے وصال کے بعد سارے صحابہ نے بلا چوں و چرا آپ کو دنیوی امور پر امیر مقرر کرلیا، یہ کہتے ہوئے کہ حضور ﷺ نے ہمارے دینی کاموں کا جس کو ذمدار بنایا ہے، انہی کو ہم اپنے دنیوی امور میں امیر بنا ینگے،اس طرح بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونا، ثابت ہوتا ہے،
۳ جمعرات کے دن حضور ﷺ نے آخری مرتبہ امامت فرمائی، روایت میں یہ بات ہے،کہ حضور ﷺ کو جب کچھ افاقہ ہوا تو آپ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے سہارے پیروں کو گھسیٹتے ہوئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے، حضرت ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے، لیکن حضور ﷺ جب آگیے تو آپ نے بقیہ نماز کی امامت فرمائی، حضور ﷺ نماز پڑھاتے ، ابوبکر آپ کی اقتداء کرتے اور دیگر صحابہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس طرح حضور ﷺ نے آخری نماز پڑھائی،
۶ حضور ﷺ کا آخری خطبہ
جمعرات ہی کے دن حضور ﷺ نے آخری خطبہ دیا، جسکا آغاز آپ نے اس طرح فرمایا کہ، اللہ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہیے تو دنیا کو اختیار کرے، یا پھر آخرت کو تو اس بندہ آخرت کو اختیار کرلیا ہے، یہ سننا تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بے قابو ہوگیے تو لوگوں نے کہاآپ کیوں رو رہے ہیں،حضور ﷺ نے ایک بندہ کے تعلق سے یہ کہا ہے، تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بندہ خود حضور ﷺ ہیں،
پھر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضایل بیان کیے، کہ میں نے ہر شخص کا بدلہ ادا کردیا سوائے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بدلا اللہ خود ادا کریگا،
پھر فرمایا کہ اگر میں اللہ کے بعد کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا، لیکن وہ میرے دینی بھائی ہیں،
پھر فرمایا کہ مسجد نبوی میں جتنے دروازے کھلتے ہیں سب بند کردییے جائیں سوائے ابو بکر کے دروازے کے،
حضور ﷺ کی بیماری کی اطلاع سے انصار پریشان تھے تو حضور ﷺ کو جب اس کی اطلاع دی گئی، تو حضور ﷺ نے انصار کے متعلق فرمایا کہ انصار نے ہم کو اپنے ساتھ شریک کیا اور ہماری نصرت کی تو تم انصار کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور مہاجرین تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو،
پھر فرمایا کہ تم میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بناؤ، اس لیے کہ پچھلی قوموں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا اور وہ اللہ کی پھٹکار کے مستحق ٹھیرے،
پھر اس کے بعد حضور ﷺ مسجد میں حاضر نہیں ہوسکے، یہ حضور ﷺ کا آخری خطبہ تھا،
بالآخر وہ دن بھی آگیا، جس دن یہ ھدایت و رحمت کا آفتاب اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا،
دو شنبہ کے دن صبح کی نماز کے دوران حضور ﷺ نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹا کر اس جماعت کے منظر کو دیکھا، تو ابو بکر جو امام تھے، وہ پیچھے ہٹ رہے تھے، اور صحابہ آپ کے دیدار کے شوق میں قریب تھا کہ نماز توڑ دیں آپ نے ایک نظر ڈال کر پردہ چھوڑ دیا، یہ صحابہ کرام کو اپنے محبوب کا دنیا میں آخری دیدار تھا،
وصال سے کچھ پہلے حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر حضور ﷺ کے پاس تشریف لایے ہاتھ میں مسواک تھی، اماں جان نے حضور ﷺ کے مسواک کرنے کے اشتیاق کو دیکھ کر، عبدالرحمن بن ابوبکر سے مسواک لیکر جبایا پھر حضور ﷺ کو دیا، حضور ﷺ نے مسواک کی، حضرت اماں جان یہ بات فخریہ طور پر کہتی کہ حضرت کے دہن مبارک میں آخری مرتبہ میرا لعاب داخل ہوا،
اس کے کچھ دیر بعد ہی حضور ﷺ نے فرمایا اللھم رفیق الأ علی ،، اور بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوگیے،
پھر اسی دو شنبہ پیر کے دن چاشت کے بعد اور زوال سے پہلے، قیامت تک آنے والی نسل انسانیت کا یہ آخری نبی دنیا سے رخصت ہوگیا،
حضور ﷺ کی رحلت کا اثر
حضور ﷺ کی انتقال کی خبر تمام مدینہ والوں پر بجلی بن کر گری، کہ ہر شخص کے اوپر اپنے محبوب کے فراق کے سبب غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، آج ہر طرف مدینہ میں تاریکی پھیل گی، کہ حضور ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے،
بڑے بڑے صحابہ کے ہوش ہواس اڑگیے تھے، کسی کو حضور ﷺ کی وفات کا یقین نہیں آرہا تھا، عمر بن خطاب جیسا جلیل القدر صحابی بے قابو ہوکر، برہنہ تلوار ہاتھ میں لیکر، یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا، کہ اگر کوئی یہ کہے کہ حضور ﷺ کا انتقال ہوگیا میں اس کی گردن اڑادونگا، سارے صحابہ کی یہی کیفیت تھی، جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آتے ہیں تو سیدھے حجرے میں تشریف لیجاتے ہیں، حضور ﷺ کی پیشانی پر بوسہ دیکر فرماتے ہیں، کہ اللہ نے حضور ﷺ کےلیے جو موت لکھ دی ہے وہ موت آگئی،
باہر آکر سورہ آل عمران کی،، آیت ومامحمد ألا رسول قد خلت من قبلہ الرسل،، اور وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد،، پڑھ کر حضور ﷺ کی وفات کا اعلان کیا تو اب صحابہ کو بھی یقین ہوگیا کہ حضور ﷺ کا وصال ہوگیا ہے،
حضور ﷺ کی تجہیز وتکفین
حضور ﷺ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے غسل دیا، اور تین کپڑوں میں کفن دیا،
اور نماز جنازہ فرداً فرداً سب نے پڑھی، اور پھر اسی جگہ پر آپ کی تدفین ہوئی جہاں پر آپ کا وصال ہوا تھا،اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے لحدی قبر کھودی، حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنھما نے آپ کو قبر میں اتارا، سراپا رحم وکرم جود و سخا، اور خلاصہ کائنات، اور تخلیق مقصد کائنات کو قیامت تک کیلے،چھپا دیا،
جب تدفین سے فارغ ہوکر آیے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کس دل سے تم نے حضور ﷺ پر مٹی ڈالی،
یہ سہ شنبہ اور بدھ کے درمیان والی رات تھی، اور ربیع الاول کی بارہ تاریخ تھی، یہی جمہور امت کی رائے ہے،
اللھم صل وسلم دائما أبدا علی حبیبک خیر الخلق کلھم