سرکار دوعالم ﷺ کو جب خدا تعالیٰ ختم نبوت کا تاج زریں عطاء کرتے ہیں، تو سرکار دوعالم ﷺ سابقہ انبیاء کی طرح توحید ورسالت کی دعوت میں منہمک ہوجاتے ہیں ، وحدانیت کی اس پ کار کے بعد اپنوں اور غیروں کی جانب سے آپ کے خلاف یورشیں اور سازشیں شروع ہوجاتی ہیں، ظلم واندوہ کا ایک غیر متناہی سلسلہ چل پڑتا ہے، سرکار دوعالم ﷺ ان تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں،، لقد أوذیت فی اللہ ومایوذی أحد،، اس راہ میں مجھے اتنی اذیتیں پہنچائی گئی کہ جتنی کسی دوسرے نبی کو نہیں پہنچائی گئی، سرکار دوعالم ﷺ کے اصحاب اخروی وعدوں کے پیش نظر ، دشمنوں کو اف تک نہیں کہتے، صبرو استقامت کے کوہ گراں بن جاتے ہیں، اور برابر اللہ کی جانب سے ہجرت کے حکم کے منتظر تھے، کہ حکم ربی آتے ہی ہم مکہ (زادھا اللہ شرفا وعظما) سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوکر، آزادنہ اور پر أمن طریقہ پر اعلاءِ کلمت اللہ کو جاری رکھیں،
یہ حکم نبوت کے ۱۳سال بعد ماہ صفر المظفر میں ملتا ہے، اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین رفتہ رفتہ جانب یثرب رخ کرتے ہیں، اور پھر سرکار دوعالم ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم ہوتا ہے، اس وقت کفار مکہ، مشرکین مکہ ظلم و بربریت کی حدیں پار کرکے، سرکار دوعالم ﷺ کے قتل کے درپے ہوتے ہیں، ان کے مکر کی اطلاع اللہ رب العزت والجلال بواسطہ جبریل امین علیہ السلام ، اس آیت قرآنی کے ذریعے دیتے ہیں،، وأذیمکر بک الذین کفروا لیثبتوک أو یقتلوک أو یخرجوک ویمکرون ویمکرون اللہ و اللہ خیر الماکرین،، اس کے بعد سرکار دوعالم ﷺ مکمل اطمنان وسکون کی حالت میں، دشمنوں کی چمکتی ہوئی تلواروں کے سایے میں سے سورہ یٰس کی آیت،، فأغشیناھم فھم لایبصرون کی تلاوت کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ غار ثور کی جانب کوچ کرتے ہیں،
ادھر صبح جب دشمنوں کو سرکار دوعالم ﷺ کے بستر پر نہ ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو، سو اونٹ کی لالچ دیکر گھوڑ سواروں کو دوڑاتے ہیں، اسی انعام کی لالچ میں سراقہ بن جعشم بھی نکلتے ہیں، لیکن قریب پہنچتے ہیں تو گھوڑا زمین میں دھنستا چلا جاتا ہے، تائب ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں، اور سرکار دوعالم ﷺ سے امن کی تحریر لیکر واپس ہوجاتے ہیں،
سرکار دوعالم ﷺ کے رفیق سفر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عشق و محبت کی جو مثالیں اس سفر میں پیش کرتے ہیں، اس کی بدولت افضل بعد بشر از أنبیاء کا مثردہ حاصل کرتے ہیں، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پورا گھرانہ سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں لگا ہوا ہوتا ہے، خود حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ کے رفیق سفر ہیں، تو آپ کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنھا توشہ تیار کرتی ہیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ مکہ کی خبریں پہنچاتے ہیں، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خادم عامر بن فہیرہ بکریوں کے دودھ سے حضور ﷺ کی ضیافت میں مشغول ہوتے ہیں، اس طرح یہ پورا خاندان آفتاب نبوت کی خدمت میں لگا ہوا ہوتا ہے، بالآخر ۳ روز و شب غار ثور میں گزار کر مدینہ پہنچتے ہیں، وہاں پر حضرات انصار کی دن سے آپ کی آمد کے منتظر تھے، خوب گرم جوشی سے آپ کا استقبال کرتے ہیں، پھر ایک کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ماہتاب نبوت ہمارے گھر میں رک کر ہمارے گھر کو رونق بخشے، لیکن قضاء وقدر سے اونٹی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر ٹھیرتی ہے، اس طرح حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوتا ہے،
اس بابرکت سفر میں کئی ایک سبق آموز پہلو ہیں، جنکو پڑھنے سے ، ایمان کی لو تیز ہوتی ہے، یقین کی سطح بلند ہوتی ہے، دین اسلام کے خدمت گزاروں کی نصرت کے کرشمے نظر آتے ہیں، دشمنوں کی چال بازیاں ہیچ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، رفیق سفر کے محبت و عشق کے واقعات سامنے آتے ہیں،
اللہ حضرت محمد ﷺ پر کروڑوں درود وسلام کی بارش ہو اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح حب نبوی ﷺ عطاء فرمائے آمین