مدارس اسلامیہ دین اسلام کے محافظ اورعلوم نبوت کے امین ہیں،ملت اسلامیہ کی آنکھوں کاتارااوراس کی فکرونظرکاقبلہ ہیں،مدارس سنگ وخشت کی عمارتوں کانام نہیں ہے؛بلکہ یہ ایک عالمگیرد ینی تحریک ہے جس نے پوری دنیا میں ایک خوشگواراورصالح انقلاب پیداکیا،اورخزاں رسیدہ چمنستان عالم کواپنے چشمہ فیض سے سیراب کیا،یہ وہ میکدۂ علم وعمل ہے جہاں بادۂ صافی کے خم کے خم لنڈھائے جاتے ہیں،اوررندان قدح خوارکوعلوم ومعرفت کاجام پیش کیا جاتاہے،یہ وہ عملی تربیت گاہ ہے جہاں سے ذہن ودماغ اسلامی رنگ میں ڈھلتے ہیں،اورغوروفکرکے نئے زاویے کھلتے ہیں،مدارس کی بے لوث خدمات اوراس کے محیرالعقول کارناموں کی داستاں قیس وفرہادکے افسانوں سے زیادہ دلکش ودلآویزہے اوراس پرتاریخ کوبھی بجاطورپرفخرہے۔
مدارس کے قیام کامقصد
مدارس دینیہ کے قیام کابنیادی اوراساسی مقصد اپنے آغاز سے ہی قرآن وسنت کی حفاظت، صحابہ و تابعین کے مزاج ومذاق کے مطابق دین مبین کی تشریح وتعبیراورمسلمانوں کے اسلامی تشخص کا تحفظ رہاہے،اسلامی تعلیمات اورنبوی ہدایات کو صحیح اوراصلی صورت میں امت تک پہونچانا، امت کو اسلامی اخلاق وآداب سے آراستہ کرنا، زندگی کے ہرشعبہ میں امت کی رہنمائی کرنا مدارس دینیہ کا ہدف اورمشن رہاہے،آج مسلمانو ں میں جو دینی غیرت وحمیت پائی جاتی ہے،اسلامی تہذیب وثقافت کی حفاظت کا جو جذبہ پایا جاتاہے و ہ بلاشبہ ان مدارس اسلامیہ ہی کی رہین منت ہے،موجودہ دورمیں الحاد ودہریت اورمادہ پرستی کے سمندرمیں مدارس اسلامیہ کی حیثیت مضبوط جزیروں اورمحفوظ قلعوں کی ہے،اس سے وابستہ افراد بحمد اللہ علم وعمل، اخلاص وللہیت،تقوی وپرہیز گاری اور قناعت وسادگی کے مجسم پیکرہوتے ہیں، ان کے ہر فعل وعمل کا مقصد اللہ تبارک وتعالی کی خوشنودی ورضاجوئی ہوتی ہے؛اسی لئے مدارس نے روزاول سے ہی اس بات پرزوردیاکہ مدرسہ کی چہاردیواری میں ایسے افرادتیارکیے جائیں جوایک طرف شرعی علوم میں مکمل رسوخ اورپختگی رکھتے ہوں تودوسری طرف وہ حالات زمانہ کے لحاظ سے امت مسلمہ کی دینی رہبری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں،تاکہ مسلمان اس پرفتن اورمہیب دورمیں اپنے تمام دینی وملی امتیازات وتشخصات کے ساتھ زندگی گزاریں،اوراسلامی تہذیب وثقافت کواپنے لئے سرمایہ عزوافتخارسمجھیں،اس بلنداورآفاقی نصب العین کوسامنے رکھ کرہمارے نبض شناس اورعصری آگہی کے حامل اکابرعلماء نے ایک ایساجامع نصاب ترتیب دیاجس میں ایک طرف نحووصرف اورعربی ادب کی کتابیں شامل کی گئی ہیں؛تاکہ طلبہ کے لئے علوم اسلامی ……جن کا بہت بڑاسرمایہ عربی زبان میں ہے …… کے اصل مصادرسے استفادہ کرناآسان ہوتودوسری طرف فن تفسیر،فن حدیث اورفقہ کی کتابیں داخل درس کی گئی ہیں؛تاکہ شریعت کے مقاصد اوراس کے احکام وہدایات سے طلبہ کوکماحقہ روشناس کرایاجائے؛تاکہ وہ صحیح معنوں میں امت مسلمہ کی دینی رہبری کافریضہ انجام دے سکیں۔
کیامدارس کانصاب تعلیم فرسودہ ہے؟
کچھ عصری تعلیم یافتہ اورانگریزی داں طبقہ جنہیں روشن ضمیری اورعصری آگہی کاکچھ زیادہ ہی زعم؛بلکہ فریب ہوتاہے ان کی طرف سے بارہایہ آوازیں سننے کوملتی ہیں:مدارس کامروجہ نصاب تعلیم فرسودہ اورغیرنفع بخش ہے،مدارس میں جاری نظام تعلیم زوال وپستی کی خمیرسے تیارشد ہ ہے،مدارس سے فارغ التحصیل علماء کرام گردوپیش کے حالا ت سے بے خبرہوتے ہیں، سما ج اورمعاشرے کاعضومعطل اورناکارہ جزوہوتے ہیں،مدارس کانصاب تعلیم مکمل طورپرقابل ترمیم وتنسیخ ہے،مدارس کے نصاب کوعصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے،اس میں سائنسی علوم،سوشل،فزیکس اورکامرس وغیرہ کوداخل کرنے کی ضرورت ہے،گویایہ طبقہ مدارس کے پورے نصاب ونظام ہی کوغرق مئے ناب کرنے پرآمادہ دکھائی دیتاہے۔
نصاب تعلیم میں حالات زمانہ کے لحاظ سے تبدیلی کی گنجائش ہے
ہمیں یہ بات بالکل تسلیم نہیں کہ نصاب تعلیم منزل من السماء ہے،اورقرآن کریم کی طرح غیرمتبدل ہے،جس سے سرموانحراف کرنے کی گنجائش نہیں ہے،حالات زمانہ کے پیش نظرنصاب تعلیم میں تبدیلی کی جاسکتی ہے،خودحجۃ الاسلام حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ اوران کے رفقاء نے جب دارالعلوم کی بنیادڈالی تونصاب میں تبدیلی کی ہے،منطق وفلسفہ کی کم وبیش ستائیس کتابیں درس نظامی میں داخل تھیں،اورحدیث کی صرف دوکتابیں تھیں،جنہیں لوگ پڑھ کرحکومتی عہدوں پرفائزہوتے تھے،حضرت مولاناقاسم نانوتویؒ نے ان کتابوں میں تخفیف کرکے علوم دینیہ یعنی تفسیر،حدیث اورفقہ کی کتابوں کوداخل درس کیا؛بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ مولانانظام الدین سہالویؒ کی جانب منسوب درس نظامی اورموجودہ مدارس کے نصاب میں آسمان وزمین کافرق ہے،برصغیرمیں رائج نصاب تعلیم مولانانظام الدین سہالویؒ کے ترتیب شدہ نصاب سے بالکل مختلف اورجداگانہ ہے،تاہم پورے نصاب تعلیم اورنظام تدریس کوخام اورفرسودہ قراردیناجہالت اورکم علمی کی بات ہے،اورعصری ودنیاوی علوم سے مرعوبیت کی آئینہ دارہے۔
مدارس میں عصری تعلیم
جوحضرات دینی تعلیم کے ساتھ عصری نصاب پر مشتمل کتابوں کوباقاعدہ مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کامشورہ دیتے ہیں،اس طورپرکہ مستقل فن کی حیثیت سے اسے بھی پڑھایاجائے،تاکہ مدارس سے سائنس داں، انجینئر اورڈاکٹر بھی تیارہوں،اوروہ کائنات کی تعمیراورتہذیب تمدن میں نمایاں کرداراداکرسکیں،یہ مشورہ خواہ کتنی ہی نیک نیتی اورخلوص کے ساتھ کیوں نہ دیاگیاہوتجربہ اورمشاہدہ سے اس کی تائیدنہیں ہوتی،اوراس کے اسباب وعوامل درج ذیل ہیں:
نصاب تعلیم کوبوجھل بنانے کے مترادف
مدارس میں دینی علوم کے ساتھ باقاعدہ سائنس کی کتابوں کوشامل کرنانصاب تعلیم کوبوجھل اورثقیل بنانے کے مترادف ہے،جن حضرا ت نے باقاعدہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی ہے یاجن کومدارس کا تعلیمی نظام قریب سے دیکھنے کاموقع ملاہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ نحو،صرف اورعربی ادب …… جوعلوم شریعت کوسمجھنے کے لئے موقوف علیہ کی حیثیت رکھتے ہیں …… سے مناسبت پیداکرنے کے بعدقرآن وحدیث میں جوعلوم واسرار چھپے ہوئے ہیں ان کوصحیح طورپرسمجھنااورفقہ جیسے دقیق اورمشکل فن سے کماحقہ مناسبت پیداکرنامسلسل جدوجہداورشبانہ روزمحنتوں کامتقاضی ہے،جنہوں نے شرعی علوم کے بحرناپیداکنارکی غواصی کی ہے وہ جانتے ہیں کہ آٹھ دس سال کی مدت اس کے لئے ناکافی ثابت ہوتی ہے،ایسے میں اگرسائنس کوبھی باقاعدہ نصاب میں شامل کیا جائے،اوراس فن کی مبادیات پڑھانے کے بعداونچی اوراعلی سطحی کتابیں داخل نصاب کیاجائے تویہ نصاب تعلیم کوبوجھل اوربہت ہی ثقیل بنانے کے مترادف ہوگا،اوریہ نصاب تعلیم نسل نوکے لئے غیرنفع بخش ثابت ہوگا۔
آدھاتیترآدھابٹیر
موجودہ دوراختصاص کادورہے،متخصصین اورماہرین کودین ودنیا کے ہرشعبہ میں ترجیح دی جاتی ہے،اوران کوعزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھاجاتاہے،مدارس کے قیام کابنیادی مقصدیہ ہے کہ طلبہ کے اندرشرعی علوم میں اختصاص پیداکیاجائے،قرآن وحدیث اورفقہ میں ان کوامتیازی صلاحیتوں کامالک بنایاجائے،جہاں تک رہی بات سائنس اوردیگرعصری علوم کی تواس کے لئے دنیا بھرمیں سرکاری سطح پراورپرائیویٹ طورپرہزاروں کالج اوریونیورسیٹیاں قائم ہیں،اوران کے قیام کامقصدہی یہی ہے کہ ماہرڈاکٹر،ماہرانجنیئراورماہرسائنسداں ملک وملت کوفراہم کیاجائے،تاکہ وہ معاشرے کی تعمیراورتہذیب تمدن میں حصہ لے سکیں،ایسے میں سائنسی علوم کوبھی باقاعدہ مدارس میں شامل کیا جائے توآدھاتیترآدھابٹیرہوگا، طلبہ کوشرعی علوم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوگی نہ وہ ماہرسائنسداں بن کرنکلیں گے؛بقول شاعر:
نہ خداہی ملانہ وصال صنم
نہ ادھرکے رہے نہ ادھرکے رہے
بلکہ ایسے پیچیدہ اورمغلق نصاب سے افرادسازی نہیں؛افرادکشی ہوگی،وقت اورسرمایہ کی بچت نہیں؛بلکہ ضیاع ہوگا،کیوں کہ چاندسورج کی طرح یہ ایک سدابہارحقیقت ہے کہ کسی فن میں اختصاص اورمہارت صرف سرسری مطالعہ سے نہیں ہوتی ہے؛بلکہ اس کے لئے مسلسل محنت وجانفشانی اورشب وروزکوشش کی ضرورت ہوتی ہے،تب جاکرانسان کی کوششیں رنگ لاتی ہیں،اوروہ ماہرفن بن کرنکلتاہے۔حضرت مولاناقاسم صاحب نانوتویؒنے دارالعلوم دیوبندکے قیام کے چندسالوں بعدایک تقریرمیں تین باتیں کہی تھیں جومبنی برحقیقت ہے اوران کی غیرمعمولی بصیر ت اورفکری تنورکی آئینہ دارہے،حضرت نے فرمایا:
اول یہ کہ عصری تعلیم اورعلوم جدیدہ کے لئے سرکاری ادارے اورمدارس پہلے سے موجودہیں،ضرورت دینی تعلیم کے اداروں کی تھی،اسی ضرورت کے پیش نظردارالعلوم قائم کیا گیاہے،دوسرے یہ کہ علوم عصریہ کی آمیزش دونوں کے لئے یکساں طورپرنقصان دہ ہے،نہ دینی علوم میں مہارت پیداہوگی اورنہ ہی عصری علوم میں رسوخ،کہ زمانہ واحدمیں علوم کثیرہ کی تحصیل سب کے حق میں باعث نقصان ثابت ہوگی،تیسرے یہ کہ علوم نقلیہ میں پختہ استعدادپیداکرنے کے بعداگرطلبہ ئمدارس سرکاری اداروں میں جاکرعلوم جدیدہ کوحاصل کریں توان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤیدہوگی۔
سائنسی علوم سے مرعوبیت کانتیجہ
سب سے پہلے توہمیں اس بات کوطئے کرناہوگاکہ دین وشریعت اورسائنس وٹکنالوجی میں سے کونسی چیزانسان کی زندگی کاجزولاینفک ہے؟اوربحیثیت مسلمان زندگی گزارنے کے لئے ان دونوں میں سے کونسی چیزکلیدی اوربنیادی حیثیت رکھتی ہے؟ظاہرہے کہ دین وشریعت مسلمانوں کی زندگی کاایک اہم اوراٹوٹ حصہ ہے،سماج میں جیسے جسمانی امراض کے علاج ومعالجہ کے لئے ڈاکٹراوراطباء کی ضرورت ہے اس سے بدرجہازیادہ علماء اورفقہاء کی ضرورت ہے؛لہذا سائنسی علوم کوبطورفن مدارس کے نصاب میں داخل کرنے پراصرارغیردانشمندانہ اورغیرمتوازن سوچ کانتیجہ ہے،اورعصری علوم سے مرعوبیت کی عکاس ہے،اورکیا غوروفکرکادوسراپہلویہ نہیں ہے کہ کالج اوریونیورسیٹیوں میں جہاں عصری تعلیم دی جاتی ہے وہاں شرعی علوم کوباقاعدہ داخل نصاب کیا جائے،تاکہ کالج اوراسکول سے ایک طرف ماہرانجنیئراورماہرسائنسداں بن کرنکلیں تودوسری طرف بہترین مفسراورصلاحیت مندفقہاء تیارہوں،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ کالج اوریونیورسیٹیوں میں دینیات کے عنوا ن سے ایک دوکتابیں پڑھائی جاتی ہیں،جن سے طلبہ کونہ دین کے فرائض وواجبات کاپتہ چلتاہے اورنہ عائلی اورمعاشرتی زندگی کے حوالہ سے کوئی ٹھوس رہنمائی ملتی ہے،یہی وجہ ہے کہ آج عصری اسکولوں سے فارغ ہونے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دین وشریعت کے بنیادی احکام سے ناواقف ہوتی ہے،وضواورغسل کے فرائض تک کاان کوپتہ نہیں ہوتا،سالہاسال کالج اوریونیورسیٹیوں میں پڑھنے کے بعداگرچہ وہ ماہرڈاکٹراورعظیم سائنسداں بن جاتے ہیں؛تاہم دینی بے شعوری کی تاریکیوں کے اسیرہوتے ہیں،اسلام کے بنیادی نظریات وعقائدتک ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں،کیا یہ صورت حال مفکرین اوردانشوران قوم کے لئے لمحہئ فکریہ نہیں ہے؟ اورکیا یہ اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ اس کامضبوط اورمتوازن حل تلاش کیا جائے!!!
دینی ودنیوی تعلیم میں فرق کاپس منظر
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں کے عروج واقبال کادورتھا،اوران کی فتح وکامرانی کے جھنڈے ہرطرف لہرارہے تھے،اس وقت مسلمانوں کاایک ہی نظام تعلیم تھا،دینی اوردنیوی علوم کی تقسیم نہیں تھی،ایک ہی دانش گاہ سے جہاں لوگ صلاحیت مندعالم،باکمال مفسر،عظیم محدث اوربلندپایہ فقیہ بن کرنکلتے تھے وہیں اسی دانش گاہ سے عظیم سائنسداں،قابل انجنیئراورماہرفلکیات بن کرنکلتے تھے،آج دینی وعصری علوم کوہم نے دوالگ شعبوں میں منقسم کردیاہے،جس کی وجہ سے امت شکستہ پائی اورزبوں طالعی کی شکارہے،واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان پرجب انگریزوں کاتسلط ہوا،اورانہوں نے ایک جدید نظام تعلیم کے نفاذکاپروگرام مرتب کیاتوانہوں نے نہ صرف یہ کہ اس نظام تعلیم کے اغراض ومقاصد(عقائدواعمال میں پختگی واستقامت اورصحیح علمی ذوق)کی کچھ پرواہ نہ کی؛بلکہ اپنی تمام ترکوشش اس بات پرلگادی کہ مسلمانوں کے دل سے دین اسلام اوراللہ ورسول کی محبت کومحوکردیاجائے،قرآن وسنت کے علوم اورفقہ کی تدریس کوکالعدم کردیاجائے،اورمسلمانوں کارشتہ ان کے تابناک ماضی سے ہمیشہ کے لئے ختم کردیاجائے،بظاہرانگریزوں کایہ دعوی تھاکہ وہ مسلمانوں کوجدیدعلوم سے آراستہ کرناچاہتے ہیں،لیکن اس خوش نمااورجاذب نظردعوی کے پس پردہ وہ اہم مقصدکارفرماتھاجس کااظہارلارڈمیکالے (جواس جدید نظام تعلیم کابانی ومرتب تھا)نے اپنے نظریہئ تعلیم میں یوں کیاہے:
ہمیں اس وقت بس ایک طبقہ پیداکرنے کی سعی کرنی چاہیے جوہمارے اوران کروڑوں انسانوں کے مابین ترجمانی کے فرائض سرانجام دے سکے،جن پرہم اس وقت حکمراں ہیں،ایک ایساطبقہ جورنگ وخون کے اعتبارسے ہندوستانی ہو،مگرذوق،طرزفکر،اخلاق اورفہم وفراست کے نقطہئ نظرسے انگریزہو۔(میکالے کانظریہئ تعلیم،مترجم عبدالحمیدصدیقی،ص:۹۶مطبوعہ کراچی)
اندازہ لگائیے کہ اس جدید نظام تعلیم کے ترویج میں پس پردہ انگریزو ں کس قدر گھناؤنے عزائم تھے،مگرجدید نظام تعلیم پھیلتاچلاگیا،حتی کہ پورے ہندوستان میں اس کارواج ہوگیا،مسلمانوں نے بھی خوش آمدیدکہاکہ اس طرح جدید علوم،ٹیکنیکل اورصنعتوں سے بھی وہ فوائدحاصل کرسکیں گے،اوردیگرہندوستانی اقوام کے شانہ بشانہ چلنے کی ان میں بھی استعدادپیداہوجائے گی،دوسری طرف حکومت نے تمام سرکاری ونیم سرکاری ملازمتوں کے لئے اس جدید نظام تعلیم کے تربیت یافتہ کوقبول کیے جانے کااعلان کرکے درس نظامی کے بارے میں سردمہری؛بلکہ غفلت اوربے توجہی کارویہ اختیارکیا،جس کااثریہ ہواکہ اس کے تحت چلنے والے مدارس کی تعدادروزبروزگھٹتی چلی گئی۔
اس صورت حال نے ہندوستانی علماء کوچونکادیا،ان کوعلوم دینیہ کے ضائع ہونے کاشدت سے احساس ہونے لگا،چنانچہ علوم دینیہ کی حفاظت اوران کی نشرواشاعت کے پیش نظران حضرات نے درس نظامی کی تعلیم کے لئے نئے مدارس کھولنے کی طرف توجہ کی،جس کے نتیجے میں ہندوستان کے طول وعرض میں دینی مدارس کاقیام عمل میں آیا۔
یہی وہ بڑاسبب ہے جس کی وجہ سے دینی ودنیاوی دوالگ الگ شعبوں میں ہندوستانی مسلمانوں کانظام تعلیم منقسم ہوکررہ گیا،اس لئے ہندوستانی علماء کوخالص دینی مدارس کی ترویج وترقی اورپرانے طریقے کی بقاء کی کوششوں پرمجبورہوناپڑا۔اوراب موجودہ حالات کے تناظرمیں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کی پیوندکاری نہ صرف دینی علوم کے لئے نقصاندہ اورمضرثابت ہوگی؛بلکہ عصری تعلیم کے اندربھی مہارتوں کافقدان ہوگا۔
کیا دینی تعلیم پراجرت لینادرست نہیں ہے؟
کچھ حضرات مدارس کے نصاب میں سائنس اوردیگرعصری علوم داخل کرنے پراس لئے آمادہ نظرآتے ہیں کہ طلبہ مدارس سے فارغ ہوکرڈاکٹر،انجنیراورسائنسداں بنیں،تاکہ یہ لوگ دین کی بے لوث خدمت کرسکیں،اور عامۃ المسلمین کے چندہ اورصدقہ خیرات پر قانع اورمطمئن نہ ہوں؛بلکہ تجارت، طب یا کسی اورپیشہ کواپنی آمدنی کامستقل ذریعہ بنائیں، اورمعاشی لحاظ سے وہ مضبوط اورمستحکم رہیں، اور دین کی بے لوث،بے آمیز اورمخلصانہ خدمت کریں،تنخواہ یاکسی طرح کی اجرت لینے سے وہ گریز کریں، یہ مشورہ خواہ کتنی ہی نیک نیتی اوردردمندی کے ساتھ دیا گیا ہو؛مگرتجربہ اورمشاہدہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی؛کیوں کہ عام طورپر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو لوگ دین کی خدمت کرنے کے ساتھ تجارت یا طب یا کسی اورپیشہ میں مصروف ہوئے،تو دونوں طرف ان کی توجہ یکساں نہیں رہی، یاتو وہ تجارت اورکاروبارمیں ایسا مشغول ہوئے کہ دین کی خدمت ان کے لئے ثانوی اورغیر اہم چیز بن کررہ گئی، یادین کی خدمت اورتدریس کتب میں ایسا مصروف ہوئے کہ تجارت اورکاروبار کی طرف ان کا دھیان نہیں رہا، دوسرے یہ کہ دنیا کا یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ ہرصاحب فن اپنی خدمت اوراپنی محنت وکوشش کا معاوضہ لیتاہے،ڈاکٹر اپنی خدمت کا معاوضہ مریض سے وصول کرتاہے، وکیل اپنی خدمت کا
معاوضہ عوام سے وصول کرتا ہے، توکیا علماء کرام قوم کے نونہالوں کو دینی تعلیم سے آراستہ نہیں کرتے ہیں؟کیا ائمہ اورموذنین مساجد کو آباد نہیں رکھتے ہیں؟تو کیا پھر ان کے لئے حق خدمت وصول کرنادرست نہیں؟ کیا ان کے لئے اپنی محنت کا معاوضہ لینا جائز نہیں؟ تیسرے یہ کہ ہم قوم کو اس جانب کیو ں متوجہ نہیں کرتے کہ دینی خدمت گزاروں کے معاش کو مضبوط اورمستحکم بنائیں، اوراپنی وسعت وحیثیت کے بقدر علماء کاتعاون کریں؟
علماء عصری علوم کے خلاف نہیں ہیں
یہ توٹھیک ہے کہ علماء کرام عصری علوم مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کے حق میں نہیں ہیں،تاہم انہوں نے عصری علوم کی کبھی مخالفت نہیں کی؛بلکہ علماء عصری علوم کے حامی اورمؤ یدہیں،اگرعلماء عصری علوم کے مخالف ہوتے توصدرالمدرسین حضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندیؒ جامعہ ملیہ کے قیام میں دلچسپی نہ لیتے،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت شیخ الہندہی اس ادارے کے صحیح معنوں میں بانی ہیں،سرسیدخانؒ جنہوں نے جامعہ علی گڑھ یونیورسیٹی کی بنیادرکھی ہے انہوں نے علمائے دین کے سامنے ہی زانوئے تلمذتہہ کیا تھا،ان کی فکری گمراہیاں اوراسلام متصادم عقائدونظریات ایک الگ چیزہے،تاہم مسلمانوں کی شکستہ پائی وزبوں طالعی کوختم کرنے کے لئے انہوں نے عصری تعلیم کے لئے اس ادارے کوقائم فرمایاتھا۔