آج کے اس پرفتن اورمہیب دورمیں نت نئے فتنے اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ سرابھاررہے ہیں،اورنسل نوکے ایمان ویقین جیسے قیمتی سرمایہ پرشب خون ماررہے ہیں،ہرآنے والادن فرزندان توحیدکے لئے مشکل اورصبرآزماثابت ہورہاہے،اوروقت گزرنے کے ساتھ چراغ مصطفوی سے شراربولہبی کی ستیزہ کاری کامنظرنمایاںہوتاجارہاہے،موجودہ دورکے فتنوںکاایک نیااورتازہ ایڈیشن ہے مرعوبیت اوراحساس کمتری کافتنہ۔
نگاہوںکوخیرہ کردینے والے مغربی تہذیب کے مظاہرسے آج امت مسلمہ کاایک بڑاطبقہ مرعوب ہے،اوراسلامی تہذیب وتمدن اوراس کے روشن وتابناک نقوش کے حوالہ سے احساس کمتری کاشکارہے،مرعوبیت اوراحساس کمتری کے فتنے نے صرف عام مسلمانوں کومتاثرنہیں کیاہے؛بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اورسماج میں دین دارسمجھے جانے والے حضرات بھی اس سے دوچارہیں،فرنگی تمدن کی پرفریب دل کشی ودل ربائی سے مجموعی طورپر مسلمانوں کاتارنظراس قد رالجھ گیاہے کہ مغرب سے پھوٹنے والے افکاروتصورات پرایمان لانے کووہ ضروری سمجھتے ہیںاوراپنی مجلسوں میں انہیں موضوع بحث بنانے کوروشن خیالی کالازمہ تصورکرتے ہیں،مغربی تہذیب کی عالمگیر وباء اور ذرائع ابلاغ کے جھوٹے پروپیگنڈوں نے صورت حال اتنی تبدیل کردی ہے کہ آج اسلامی افکار وتصورات کے ببانگ دہل اظہار کرنے کو بھی جمود پرستی اور تاریک خیالی کا آئینہ دار سمجھا جارہاہے، اور اسلام کی روشن وتابناک تہذیب و ثقافت کو عملی زندگی میں برتنے والے کو بنیاد پرست اور فرسودہ روایات کا حامل قرار دیا جارہا ہے، آج مغرب کی پرفریب شان وشوکت اور کروفر کی وجہ سے خود مسلمانوں میں اخلاق واقدار کے پیمانے بدل چکے ہیں، صحیح اور غلط کے معیار میں تبدیلی آچکی ہے، عروج وترقی اور زوال وانحطاط کے خود ساختہ اصول جڑ پکڑ چکے ہیں، فرنگی تہذیب کی ہلاکت خیز لہروں نے ہمارے عقیدہ وایمان اور ہمارے افکار وتصورات پر کیسا شب خون مارا ہے، اور ہماری عملی زندگی کو کس طرح انتشار اور اضطراب سے دو چار کیا ہے اس کی چند مثالیں مسلم معاشرے سے پیش کی جارہی ہیں:
مغربی تہذیب کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ اور اس سے مرعوبیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج جہاد جوایک اہم اسلامی فریضہ ہے، اور مسلمانوں کے لئے عزت و عظمت کا ضامن ہے ،اور انہیں سر اٹھاکر جینے کا حوصلہ دیتا ہے،اس کو ہمارے بعض خود کوروشن خیال سمجھنے والے مسلمان مذہب اسلام کے لئے دھبہ سمجھتے ہیں، اور اس سے دامن چھڑانے میں ہی عافیت خیال کرتے ہیں، جب کہ کچھ مسلمانوں کا خیال بن گیا ہے کہ جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں کیا جائے، اور اندرونی تقاضوں کو زیر کیا جائے، جہاد کا جو حقیقی اور اصلی مفہوم ہے کہ اسلام کی سربلندی، عدل و انصاف اور امن وامان کی فضا کو دنیا بھر میں یقینی بنانے کے لئے تلوار اٹھایا جائے،اور طاغوتی طاقتوں کا بالکلیہ استیصال کیا جائے، اور شر پسند عناصر کی سرکوبی کی جائے، اس معنی ومفہوم کے ساتھ جہاد کا جو اصل تصور ہے وہ رفتہ رفتہ امت مسلمہ کے ذہنوں سے رخصت ہوتا جارہا ہے،اور اس پر کھل کر اظہار خیال کرنے کو خود مسلم حلقوں میں معیوب اور ناپسندیدہ خیال کیا جارہاہے ۔مرد ایک سے زائد چار شادیاں کرسکتا ہے یہ ہماری شریعت مطہرہ کا حصہ ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، لیکن جب مغربی تہذیب کے علمبرداروں اور اس کے پرجوش حامیوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ تو عورتوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کے مترادف ہے، تعدد ازواج کو جائز ٹھہرانا صنفی مساوات کے خلاف ہے، اس جھوٹے پروپیگنڈے سے مرعوب ہوکربہت سے مسلمان مغرب کے دام فریب میں آجاتے ہیں ، اور بے جا حیلے اور تاویلات سے صفائی پیش کرنے لگتے ہیں۔طلاق، حلالہ، گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا، اسلام میں ارتداد کی سزا اور اسلامی حدود وتعزیرات کے حوالے سے بھی یہی افسوس ناک رویہ اپنایا جاتا ہے، اور بددینوں اور زندیقوں سے اس نوع کی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے؛بلکہ بسا اوقات مسلمانوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جناب ہم تو اس نوع کے افکار وتصورات کے قائل ہی نہیں ہیں، آپ خواہ مخواہ ہم مسلمانوں سے بدگمان ہو رہے ہیں، بعض خود کو اسلامی مفکر ودانشور کہنے والے جہالت اور دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مولویوں نے ملت کا بیڑا غرق کردیا ہے، کٹھ ملا قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرتے ہیں، اور امت کو غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں، ورنہ تو اسلام میں اس طرح کے افکار وتصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔الغرض مغربی تہذیب وتمدن کے بڑھتے ہوئے طوفان سے مسلمانوں کی مرعوبیت اور احساس کمتری کا یہ حال ہے کہ اسلامی افکار ونظریات ان کی کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہے ہیں، شریعت ودین کے مسلمہ اور ناقابل انکار اصول وقوانین سے وہ دست بردار ہورہے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ ایسا امر ہے جس کی سرحدیں ارتداد اور الحاد ودین بیزاری سے ملتی ہیں، اعاذنا اللہ منہ، یقینا یہ پہلو کافی افسوس ناک ہے اور فوری طور پر اصلاح طلب ہے۔
مغربی تہذیب کے سیلاب نے ہماری عملی زندگی کے تار وپود کوبھی بکھیر کر رکھ دیا ہے، اور اس کی وجہ سے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جو نقصان پہنچا ہے وہ کافی تکلیف دہ اور دلوں میں کسک پیدا کرنے والا ہے ۔مغربی تہذیب سے حد درجہ مرعوبیت ہی کی وجہ سے آج انگریزی زبان میں گفتگو کرنے کو ترقی اور کامیابی کا ضامن سمجھا جارہا ہے، اور انگریزی داں کو ہی اسلامی مفکر ودانشور قرار دیا جارہا ہے،خواہ اسے قرآن وحدیث کا صحیح اور درست علم ہو یا نہ ہو، اور اس نے کسی معتبر دینی ادارے سے تعلیم حاصل کیا ہو یا نہ ہو،اس کے برخلاف کوئی ٹھوس اور مضبوط صلاحیتوں کا حامل ، قرآن وسنت کا گہرا علم رکھنے والا اور زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف وآشنا اگر اسے انگریزی زبان سے واقفیت نہ ہو، اور مغرب کی زبان میں اظہار خیال کرنے پر دسترس نہ ہو تو اسے کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے، اور اور اس کا جو صحیح اور حقیقی مقام ہے وہ نہیں دیا جاتا،یہ انگریزی زبان سے مرعوبیت اور اپنی مادری زبان کے حوالے سے احساس کمتری کا ہی نتیجہ ہے کہ اردو میں گفتگو کرتے وقت بھی تکلف انگریزی الفاظ استعمال کرنے کو روشن خیالی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور خود کو تعلیم یافتہ اور زمانے کے سرد وگرم سے واقف کار ظاہر کرنے کے لئے اس کو لازمی تصور کیا جارہاہے ۔موجودہ دور میں انگریزی زبان کی اہمیت وافادیت سے مجھے انکار نہیں، اس زبان میں مہارت وبرتری حاصل کرنا آج وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، اس سے آدمی کے لئے دعوت دین اور اشاعت اسلام کی وسیع راہیں ہموار ہوتی ہیں، اسلام کے آفاقی پیغام کو مثبت اور معروضی طریقے پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے یہ مضبوط ہتھیار کا کام دیتا ہے، تاہم اس زبان سے اس حد تک کہ مرعوبیت کہ اسے ہی ساری ترقیوں کا معیار قرار دیا جائے، اور اقبال وکامرانی کا راز اسی زبان سے واقفیت حاصل کرنے میں مضمر سمجھا جائے تو میں اس کو مرعوبیت اور احساس کمتری کا نتیجہ سمجھتا ہوں، آج چین، جرمنی اور فرانس نے جو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کی ہے، اور صنعتی شعبے میں انہوں نے جو پیش رفت کی ہے وہ اپنی مادری زبان کے سہارے سے ہی کی ہے، آج بھی اس ملک کے باشندے انگریزی زبان میں گفتگو کرنے کو نہ صرف یہ کہ اہمیت نہیں دیتے، بلکہ اس زبان میں گفتگو کرنے والوں کو اجنبی اور غیر ملکی سمجھتے ہیں ۔
یہ مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہماری پوری زندگی مغرب سے در آمد طور طریقوں میں رنگی ہوئی ہے، سر کے بال رکھنے کا انداز وہی ہے جو یوروپی لوگوں کا ہے ، ڈاڑھی کی کتروبیونت میں ہم مغرب کی نقالی کرتے ہیں، چہرے کی تزئین و آرائش کے لئے مغرب نے جو غیر معمولی دلچسپی دکھائی ہے،اور باقاعدہ اسے ایک فن کی حیثیت سے پیش کیا ہے آج ہم بالخصوص ہماری نئی نسل اس پر والہ وشیدا ہے، کھڑے ہوکر کھانا پینا جو بفے سسٹم کے نام سے مشہور ہے آج رفتہ رفتہ ہمارے مسلم سماج کا بھی حصہ بنتا جارہا ہے ، حتی کہ آج مسلمان بھی مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بفے سسٹم سے آراستہ ہوٹل اور بیکری کھول رہاہے، اور اسے ترقی اور روشن خیالی کی علامت سمجھا جارہا ہے۔مغربی تہذیب سے مرعوبیت کی وجہ سے ہی آج بعض مسلمان نکاح کو ایک فرسودہ رسم،ازدواجی رشتہ کو ایک ناقابل برداشت بندھن، زنا کو تفریح، شوہر کی اطاعت شعاری کو ایک نوع کی غلامی اور معشوقہ بننے کو خیالی جنت سمجھ رہے ہیں، اور اس کی وجہ سے مسلم سماج پر جو برے اور منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ کسی حساس اور باشعور شخص سے مخفی نہیں ہے ۔مغربی تہذیب وتمدن سے مرعوبیت اور اس پر فریفتہ اور شیفتہ ہونے ہی کی وجہ سے تنگ جینس اور ٹی شرٹ پہنے کو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترجیح دے رہی ہے، اور کرتا پاجامہ جو صلحاء اور نیک لوگوں کا لباس ہے اس سے دانستہ تغافل برت رہی ہے، اور اس پر غضب یہ ہے کہ کرتا پاجامہ پہننے والے اور سنت طریقہ کے مطابق ایک مشت ڈاڑھی رکھنے والے کو حقارت آمیز نگاہوں سے خود ہمارے بعض مسلمان دیکھتے ہیں، اور انہیں فرسودہ روایات کا حامل اورترقی کا پہیہ الٹا گھمانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماج کے یہ سارے مظاہر فرنگی تہذیب سے مرعوبیت اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے احساس کمتری؛بلکہ احساس محرومی کی عکاسی کرتے ہیں،اس موقع سے یہ بات ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہیے کہ اسلام کی تعلیمات لازوال اور دائمی ہیں، یہ زمان و مکان کے حدود وقیود سے بالاتر ہے، آفتاب اسلام کے طلوع ہوئے قریب قریب ساڑھے چودہ سو سال ہوچکے ہیں، اس طویل اور لمبے عرصے میں نہ جانے کتنی تہذیبیں اس کارگاہ عالم میں نمودار ہوئیں اور دم توڑ گئیں، نہیں معلوم کتنے انسانوں کے تشکیل دئے ہوئے تمدن سے انسانیت متعارف ہوئی؛لیکن چوں کہ وہ معنویت اور حقیقی روح سے خالی تھی،اور اس میں ظاہری چمک دمک کے علاوہ زندگی کے آثار نہیں تھے؛اس لئے اس تمدن کا قصر عظمت ایسا پیوند خاک ہوا کہ اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ برقرار نہیں رہ سکی۔لیکن اسلام وہ زندہ جاویدمذہب ہے جس کی ہدایات ہرزمانہ اورہرخطہ میں قابل عمل ہے،اوراسلامی تہذیب پوری آن بان کے ساتھ آج بھی موجودہے،نوع انسانیت کی فلاح وکامیابی اسی میں مضمراورپوشیدہ ہے،اوراسی کے سایہ میں کائنات انسانی کونجات مل سکتی ہے۔
تاہم مجموعی طورپرامت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تہذیب وثقافت کواس کی تمام خصوصیات وامتیازات کے ساتھ اپنائیں،اپنی زندگی کے بام ودرکوگلشن اسلام کے عطربیزپھولوںسے مہکائیں،اپنے ذہن ودماغ کواسلامی رنگ میں رنگنے کے لئے سنجیدہ کوشش کریں،اپنے افکاروتصورات کواسلامی سانچہ میںڈھالنے کااہتمام کریں،ملمع تمدن کے پرفریب مظاہرسے مرعوبیت کاشکارنہ ہوں،مغربی تہذیب کے چہرے پرجورنگین نقاب پڑی ہوئی ہے جس میںحیوانیت ودرندگی اورعریانیت وفحاشی کاخوفناک چہرہ چھپاہواہے اس سے دھوکہ نہ کھائیں،جب خودمسلمان اسلامی تہذیب سے مکمل طورپروابستگی برقراررکھیںگے،اوراسلامی امتیازات وخصوصیات کانقش اپنی زندگی کے صفحات پرثبت کریںگے،تویہ ان شاء اللہ اچھی اورخوش گوارپہل ہوگی،بہت سی معاشرتی برائیوں کاہمارے سماج سے خاتمہ ہوگا،مذہب اسلام دوسروں کے لئے کشش کاباعث ہوگا،اوراس کے محاسن اورخوبیوں سے متاثرہوکرلوگ کشاں کشاں حلقۂ اسلام میں پناہ لینے پرمجبورہوںگے۔