کورونا وائرس نے اس وقت پورے ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لوگ جیسے درندہ جانوروں سے ڈرا کرتے تھے، آج آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں،پہلے زندہ انسانوں کے لئے جگہ کی تنگی تھی، اور لوگ سر چُھپانے کے لئے زمین کے طلب گار ہوتے تھے، اب مُردوں کے لئے جگہ کم پڑ رہی ہے، نفسی نفسی کا علم ہے، قرآن مجید نے قیامت کا نقشہ کھینچا ہے کہ لوگ اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے بھی راہِ فرار اختیار کریں گے، آج اس کا ایک نمونہ لوگ اِس دنیا میں دیکھ رہے ہیں، ہسپتال تنگ پڑ گئے ہیں، بڑی بڑی رقمیں دے کر ایک بیڈ نہیں مل پا رہا ہے۔
ان حالات نے بہت سے سماجی، معاشی، نفسیاتی مسائل پیدا کر دئیے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مذہب کے نمائندوں خاص کر دین حق کے حاملین کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟————- مذہب دوہرے رشتہ کو استوار کرتا ہے، وہ انسان کے دل میں خدا کی محبت بھی پیدا کرتا ہے اور خدا کے بندوں کے ساتھ حُسن سلوک کے جذبہ کو بھی پروان چڑھاتا ہے؛ اسی لئے یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ مذہبی مراکز پر کھانے کے عام لنگر چلائے جاتے ہیں، جس میں بلا امتیاز مذہب وبرادری ہر ایک کی بھوک مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہمارے ملک میں اس کی بہترین مثال سِکھ بھائیوں کے گرودوارے ہیں، جن کے یہاں لنگر گرودوارے کے بنیادی کاموں میں شامل ہے، مسلمانوں کے یہاں بھی بہت سی جگہ بزرگوں کے مزارات پر اس کا انتظام کیا گیا ہے، موجودہ وقت میں بھوک مٹانے سے زیادہ اہم ضرورت بیماروں کے لئے علاج کی سہولت فراہم کرنے کی ہے؛ کیوں کہ ہاسپیٹل اور سرکاری مراکز بھرے ہوئے ہیں، ابھی چند دنوں پہلے ایک با صلاحیت نوجوان عالم، صحافی اور سماجی کارکن کی وفات ہوئی، ان کے بارے میں خبر آئی کہ جب حالت نازک ہوئی تو یکے بعدیگرے بیس ہسپتالوں میں لے جایا گیا؛ لیکن آئی سی یو کی سہولت حاصل نہیں ہو سکی، بالآخر ایک ایسے نرسنگ ہوم میں ایڈمٹ ہوئے، جس میں آئی سی یو کا شعبہ نہیں تھا، اور بہت تھوڑے وقت میں وہ دنیا کو الوداع کہتے ہوئے آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے، ہاسپیٹل ہی نہیں قرینطینہ سینٹر کی بھی بہت کمی ہے، بحیثیت مسلمان ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان حالات میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہئے۔
اسلامی تعلیمات اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے، آپ صرف مسلمانوں کے لئے رحمت نہیں تھے، تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے رحمت تھے: وما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین(انبیاء: ۱۰۷) انسانی بنیادوں پر حُسن سلوک کی جتنی صورتیں ہو سکتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مذہب وملت سے بالا تر ہو کر انجام دینے کی ترغیب دی ہے، مشریکن مکہ جب پوری قوت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں پر یلغار کر رہے تھے، اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا لحاظ رکھا، غور کیجئے کہ غزوۂ احد ہو چکی ہے، ستر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کا زخم بالکل تازہ ہے، اسی زمانہ میں مکہ میں شدید قحط پڑا، لوگ درخت کے پتے اور سوکھے ہوئے چمڑے کھانے پر مجبور ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے قحط دور ہونے کی دعاء بھی فرمائی، اور مدینہ کے فاقہ کش مہاجرین وانصار سے ریلیف وصول کر کے پانچ سودینار ان کو بھجوائے، پانچ سو دینار کوئی معمولی رقم نہیں تھی؛ کیوں کہ دینار سونے کا سکہ ہوتا ہے، اور بیس دینار ساڑھے ستاسی گرام سونے کے برابر ہوتا ہے، نیز یہ خطیر رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے ان دو سرداروں کو تقسیم کے لئے بھیجی جو مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں پیش پیش تھے، یعنی ابو سفیان اور صفوان بن امیہ، جو بعد کو دامن اسلام میںآئے، یہ مصیبت کے وقت صرف غیر مسلموں کی مدد نہیں تھی؛ بلکہ جانی دشمنوں کی مدد تھی۔
غرض کہ مصیبت کی گھڑی میں مذہب ومسلک کا لحاظ کئے بغیر تمام انسانوں کی مدد کی جائے، یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، موجودہ صورت حال یوں تو برادران وطن کی طرح مسلمانوں کے لئے بھی تکلیف دہ ہے؛ مگر ایک داعی ٔ امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارے لئے ایک موقع بھی ہے، موقع ہے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو پیش کرنے کا، موقع ہے نفرت کی اس آگ کو بجھانے کا جو فرقہ پرست عناصر کی طرف سے برادروان وطن کے دلوں میں سلگائی جا رہی ہے، موقع ہے اسلام کی رواداری ، فراخدلی اور انسانیت پروری کو پیش کرنے کا، اور موقع ہے اس بات کو واضح کرنے کا کہ یہ اُمت دنیا طلب قوموں کی طرح نہیں ہے؛ بلکہ داعی امت ہے، جو سیاسی مقاصد اور دنیاوی فوائد کے لئے نہیں؛ بلکہ اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے اور آخرت کا اجر حاصل کرنے کے لئے انسانیت کی خدمت کرتی ہے، بیماروں کے لئے مسیحا بنتی ہے، غریبوں کے لئے بِچھ جاتی ہے، اور بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دیتی ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن میں قریب قریب ہر علاقہ میں مسلمانوں نے اپنی صلاحیت کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا، اور نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے باوجود حقیقت پسند لوگوں نے اس کا اعتراف کیا، اب جو کورونا کی نئی لہر آئی ہے، اس میں بھی بعض مسلمانوں نے اس میدان میں اپنے قدم بڑھائے ہیں، ملک کے کئی بڑے مدرسوں نے کورونٹائن کے لئے تمام سہولتوں کے ساتھ اپنی عمارتیں پیش کی ہیں، بعض جگہ مسجدوں کو بھی کووڈ سینٹر بنانے کی پیش کش کی گئی ہے، اور بلا تفریق مذہب وملت وہاں مریضوں کا علاج ہو رہاہے، ضرورت ہے کہ اس کوشش کو اور آگے بڑھایا جائے، بحمداللہ ملک کے چپہ چپہ میں مدارس ہیں،ا چھی خاصی تعداد مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں کی ہے اور ہر شہر بلکہ قصبہ میں کشادہ مسجدیں موجود ہیں، جو تمام ضرورتوں سے آراستہ ہیں، نماز کے لئے مطلوب جگہ بچاتے ہوئے ان کو عارضی طورپر گورنمنٹ کو کووڈ سینٹر بنانے کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے، اس سے لوگوں کو بڑی سہولت ہوگی؛ کیوں کہ عام طور پر مسجدوں میں تمام بنیادی انفرااسٹرکچر موجود ہوتا ہے، روشنی کا معقول انتظام ، پنکھے، کھلا ہوا ہوادار ماحول، استنجاء خانہ، وضوء خانہ، پینے کا پانی، استعمال کا پانی، صفائی ستھرائی کا نظم، شوروغل سے حفاظت وغیرہ، یہ روح کے مریضوں کے ساتھ ساتھ جسم کے مریضوں کے لئے بھی سازگار ماحول فراہم کر سکتا ہے، جہاں مسجدیں دو منزلہ ہوں، اور فی الحال ایک منزل نماز کے لئے کافی ہوتی ہو، یا جو مسجدیں کافی وسیع وعریض ہوں، ان کے ایک حصہ میں لکڑی کے پردے یا قناطیں گھیر کر نمازیں پڑھی جا سکتی ہوں، یا ایک حصہ اندر کا ہو اور ایک حصہ برآمدہ کا ہو، وہاں فاضل جگہیں موجودہ وبائی حالات کے لئے عارضی طور پر حکومت کو یا رفاہی جذبہ سے کام کرنے والے ہسپتالوں کو یا چیرئیٹی اداروں کو دی جائیں اور اس پر مسجد کی انتظامیہ کا کنڑول ہو تو اس سے سماج میں ایک اچھا پیغام جائے گا، اسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے آئے گی، نفرت انگیز پروپیگنڈوں کا ازالہ ہوگا، اور کیا خوب ہو کہ اگر ایسے عارضی سینٹر وں پر بورڈ لگا دیا جائے: ’’عارضی کووڈ سیٹر تحت مسجد …………… ‘‘نیز وہاں حسب ضرورت ہندی یا مقامی زبان میں ترجمہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر انسانیت نواز ارشادات کے فریم لگا دئیے جائیں ،یہ خاموش دعوت ہوگی، یہ ایک ایسی دعوت ہوگی جس میں زبان کے بول تو نہ ہوں گے؛ لیکن دلوں میں اترنے کی صلاحیت ہوگی، قرآن مجید نے برادران انسانیت کو مانوس کرنے کے لئے ’’تالیف قلب‘‘ کا جو لفظ استعمال کیا ہے، اس مقصد کی تکمیل ہوگی، حسب حالات جگہ دینے سے آگے بڑھ کر مریضوں اور ان کے تیمارداروں کے لئے کھانے پینے کا انتظام بھی کر دیا جائے تو یہ اور بھی بہتر صورت ہوگی، اور بحمداللہ مسلمانوں میں عمومی طور پر خیر کا جذبہ دوسری قوموں سے بڑھ کر ہے، خود لاک ڈاؤن کی اس مصیبت میں غربت اور معاشی پستی کے باوجود مسلمانوں نے جو قربانی دی ہے، وہ انسانی خدمت کا ایک روشن باب ہے، اور ضرورت ہے کہ اس کو نمایاں کیا جائے۔
مدارس و مکاتب، مسلم اسکولوں اور اداروں میں اگر ایسے سینٹر قائم کئے جائیں تو اس کے درست ہونے پر تو شاید کوئی اشکال نہ ہو؛ لیکن مسجدوں کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل درست ہوگا؟ کیا غیر مسلم حضرات کو مسجد میں ٹھہرایا جا سکتا ہے، جو عقیدہ کی نجاست کے علاوہ جسمانی طور پر بھی طہارت ونجاست کے اصول پر کاربند نہیں ہوتے؟ اور کیا یہاں مریضوں کو ٹھہرانا مسجد کے ادب کے خلاف نہیں ہوگا؟ کیوں کہ اس میں مسجد کے گندگی سے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہے، اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ حالت اختیار اور حالت مجبوری کے احکام الگ الگ ہوتے ہیں، عام حالات میں مسجدوں کو مسافر خانہ اور ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہ مسجد کے مقصد کے بھی خلاف ہے اور ادب کے بھی؛ لیکن اِس و قت مجبوری کی صورت حال ہے، اور شریعت نے قدم قدم پر انسانی مجبوریوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے، اُسوۂ نبوی کی روشنی میں غور کیجئے تو مسجدوں میںغیر مسلم حضرات کے آنے اور ٹھہرنے کا ثبوت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد بنوی میں ٹھہرایا؛ حالاں کہ وہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے( بخاری، حدیث نمبر: ۴۳۸۱) قبیلہ بنو ثقیف کا وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد میں خیمہ لگایا، صحابہؓ نے عرض کیا: یہ تو ناپاک لوگ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ انسان نجاست سے ناپاک ہو جاتا ہے ،زمین ناپاک نہیں ہوتی :انہ لیس علی الأرض من أنجاس الناس شئی (طحاوی: ۱؍۱۳) غزوہ بدر میں جو مشرکین قید کئے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد ہی میں ٹھہرایا، قبیلہ بنو حنیفہ کے ثمامہؓ بن اثال قید کئے گئے، وہ بھی مسجد میں ہی ٹھہرائے گئے، (بخاری، حدیث نمبر: ۴۶۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مختلف غیر مسلم قبائل کے وفود آیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر ان کو مسجد نبوی ہی میں ٹھہرایا کرتے تھے، وہیں ان کا قیام ہوتا تھا، اور وہیں ان سے گفتگو ہوتی تھی؛ اس لئے اگر مسجد میں ایسے غیر مسلموں کو ٹھہرایا جائے جو شرپسندی کے جذبہ سے نہیں آئے ہوں تو اس کی گنجائش ہے، محدثین وفقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔
جہاں تک مسجد میں مریضوں کو ٹھہرانے کی بات ہے تو بلا ضرورت ایسا کرنا واقعی مناسب نہیں، یہ بھی مسجد کے مقصد اور ادب کے خلاف ہے؛ لیکن اگر دوسری مناسب جگہ فراہم نہ ہو اور اس وجہ سے مسجد میں مریضوں کاعارضی قیام کرایا جائے تو اس میں حرج نظر نہیں آتا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کی مثال موجود ہے، غزوۂ خندق کے موقع سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدید زخمی ہوگئے تھے، ان کا گھر مسجد سے دور تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اپنی خصوصی نگہداشت میں انہیں رکھیں اور ان کی بہتر دیکھ ریکھ کریں؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے اندراُن کے لئے خیمہ لگوایا، اُس وقت مسجد میں قبیلہ بنو غفار کا بھی ایک خیمہ تھا، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم سے رِسنے والا خون بہہ کر بنو غفار کے خیمہ تک پہنچ گیا تو وہ گھبرا گئے، انھوں نے پوچھا کہ اس خیمہ سے خون کیوں آرہا ہے؟ پھر معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم سے بہنے والا خون ہے، آخر اسی میں ان کی وفات ہوگئی، (بخاری، حدیث نمبر: ۴۶۳، باب الخیمۃ فی المسجد للمرضیٰ وغیرھم) اس سے شارحین حدیث اور فقہاء نے یہ بات اخذ کی ہے کہ ضرورت وحاجت کی بناء پر مسجد میں مریض کو رکھا جا سکتا ہے: جواز التمریض……… فی المسجد للضرورۃ والحاجۃ (منار القاری شرح البخاری: ۲؍۳۶)
موجودہ حالات میں اگر سرکاری ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے ، پرائیویٹ ہسپتال بھی بھرے ہوئے ہیں، یا اُن میں جگہ ہو؛ لیکن غریب مریضوں کے اندر اُن کا ظالمانہ بِل ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو، اور کسی خیراتی ادارہ کو ایسے مریضوں کے لئے وقتی طور پر جگہ مطلوب ہو تو ان کو مسجد میں جگہ فراہم کرنے کی گنجائش ہے، اور اگر مسجد کی بجائے مدرسہ یا ملی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی کوئی عمارت ہو تو یہ تو اور بھی بہتر ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ برادران وطن کے سامنے خاموش دعوت پیش کرنے کا بہترین موقع اور بہت ہی مؤثر ذریعہ ہے، کاش، مسلم تنظیمیں، ادارے اور مساجد کے ذمہ داران اس پر توجہ کریں!