اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بہت سی نعمتیں اس کا ئنات میں دی ہیں ، ان میں ایک بہت بڑی نعمت وقت ہے ، انسان سمجھتا ہے کہ اس کی عمر بڑھ رہی ہے ، اس کے اوقات بڑھ رہے ہیں ؛ لیکن در حقیقت عمر گھٹتی جاتی ہے اور ہر لمحہ وقت کی متاع گراں مایہ اس کے ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے :
ہو رہی ہے عمر مثل برف کم
چپکے چپکے ، لمحہ لمحہ ، دم بہ دم
وقت کی قدرو قیمت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کتنے ہی مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے ، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی ، ( اللیل : ۱ – ۲ ، مدثر: ۳۳-۳۴ ، تکویر : ۱۷- ۱۸) کبھی رات کے ساتھ شفق کی قسم کھائی گئی ، ( انشقاق : ۱۶-۱۷) کبھی فجر اور اس کے ساتھ دس راتوں کی ( الفجر : ۱-۲) کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھاجانے کی (الضحیٰ: ۱- ۲) اور کبھی خود زمانہ کی، ( العصر : ۱) دنوں کی آمد و رفت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے ، قرآن مجید نے جابجا اللہ کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کر سکیں ’’ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ‘‘( الفاطر: ۳۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن آدمی سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں گذاری اور اپنی جوانی کو کس مقصد میں صرف کیا ؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں ، جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں ، صحت اورفراغت ِوقت ۔
سلف صالحین جنھوں نے اعلیٰ درجہ او ربلند قیمت علمی کام کئے ہیں ، اپنے وقت کے ایک ایک لمحہ کو وصول کرتے تھے اور ایک منٹ کا ضائع ہونا بھی ان کو گوارا نہیں تھا ، وہ آخر دم تک اپنے وقت کو مشغول رکھتے تھے ، امام ابو یوسفؒ ( ۱۱۳- ۱۸۲ھ) اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ ہیں ، ان کے بارے میں اہل تذکرہ نے قاضی بن جراح سے نقل کیا ہے کہ وہ مرض وفات میں امام صاحب کی عیادت کے لئے پہنچے ، آپ پر بے ہوشی طاری تھی ، ابراہیم بیٹھے رہے ، کچھ دیر میں ہوش آیا ، امام صاحب نے پوچھا کہ حج میں جمرات کی رمی پیدل کرنا افضل ہے یا سواری پر ؟ ابراہیم نے استاذ سے عرض کیا :اس حال میں بھی آپ فکر و تحقیق کو نہیں چھوڑتے ، امام ابویوسف ؒ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نے کہا : سوار ہو کر رمی کرنا افضل ہے ، امام ابو یوسف ؒ نے کہا : یہ غلط ہے ، ابراہیم نے کہا پھر پیدل رمی کرنا افضل ہوگا ، فرمایا: یہ بھی غلط ہے، ابراہیم نے عرض کیا :جورائے صحیح ہو ، اسے آپ ہی ارشاد فرمائیں ، فرمایا : جس رمی کے بعد کوئی اور رمی ہو ، اس کو پیدل کرنا افضل ہے، اور جس کے بعد کوئی اور رمی نہ ہو ، اسے سوار ہو کر ، ابراہیم وہاں سے اُٹھے اورامام صاحب کے گھر کے دروازہ ہی پر پہنچے تھے کہ اہل خانہ کے رونے کی آواز آئی ، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ امام ابو یوسف ؒکا انتقال ہو گیا ہے ، یہی امام ابویوسفؒ ہیں ، جن کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے سترہ ۱۷؍ سال تک اپنے استاذ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں اس طرح شرکت کی کہ کبھی فجر کی نماز فوت نہیں ہوئی ، یہاں تک کہ عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن بھی ؛ بلکہ صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو تجہیز و تکفین کا انتظام اپنے اعزہ اور پڑوسیوں کو حوالہ کرکے درس میں شریک رہے اور درس سے محرومی کو گوارا نہیں کیا ۔ ( مناقب مکی : ۱ ؍ ۴۷۲)
ایک بڑے محدث عبید بن یعیشؒ گذرے ہیں جو امام بخاری اور امام مسلم کے اساتذہ میں ہیں ، ان کے بارے میں حافظ ذہبیؒ نے نقل کیا ہے کہ تیس سال تک رات میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھایا ؛ بلکہ خود حدیث لکھنے میں مصروف رہتے اور بہن منھ میں لقمہ دیتی جاتی (سیراعلام النبلاء : ۱۱؍۴۵۸) احمد بن یحییٰ شہبانی ( ۲۰۰ – ۲۹۱ھ) عربی لغت ، ادب ، گرامر اور قراء ت وغیرہ کے بڑے نامی گرامی آدمی تھے اور ثعلب کے نام سے مشہور تھے ، ان کا حال یہ تھا کہ اگر دعوت دی جاتی تو داعی سے فرماتے کہ کھانے کے وقت ان کے لئے چمڑے کے تکیہ کی مقدار جگہ خالی رکھی جائے ، جس میں وہ کتاب رکھ کر مطالعہ کریں ( الحث علی طلب العلم الخ للعسکری: ۷۷) امام ثعلبؒ کا معمول تھا کہ راستہ چلتے بھی ہاتھ میں کتاب رہتی اور مطالعہ کرتے جاتے ؛ چنانچہ اسی طرح چل رہے تھے کہ گھوڑے نے ٹکر دی ، گڈھے میں گر پڑے اور ایسی چوٹ آئی کہ دوسرے ہی دن وفات ہو گئی ۔ ( وفیات الاعیان لابن خلکان : ۱ ؍ ۱۰۴)
اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے ابتداتی دور میں اہل علم نے اتنا عظیم تصنیفی اور تالیفی کام انجام دیا ہے کہ سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے اور آج ان کتابوں کو ایک شخص کا پڑھ لینا بھی دشوار ہے ، امام ابن جریر طبریؒ بہت ہی بلند پایہ مفسر ، محدث اور فقیہ ہیں ، انھو ںنے اپنی عظیم الشان تفسیر ۳ ؍ہزار اور اق میں ۲۸۳ھ تا ۲۹۰ھ یعنی صرف سات سال کے عرصہ میں مکمل کی ، پھر ایک تفصیلی تاریخ لکھنی شروع کی ، جس سے ۳۰۳ھ میں فارغ ہوئے ، یہ دونوں کتابیں تین تین ہزار گویا ۶؍ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں ، طبری کی یہ تفسیر ۱۱ ؍ ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری کی تصنیفات کا حساب لگایا جائے تو یومیہ ۱۴؍ ورق یعنی ۲۸؍ صفحات کا اوسط ہوتا ہے ۔
حافظ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ انھوں نے جو روشنائی خریدی ، اس کا حساب کیا گیا تو وہ سات سو درہم کی تھی ، ابو ریحان بیرونیؒ کی وفات کے وقت اس زمانہ کے مشہور فقیہ ابو الحسن و لوالجی گئے ، بیرونی نزع کی حالت میں تھے اور سینے میں گھٹن محسوس کر رہے تھے ، اس وقت علامہ ولوالجی سے ’’ جدات فاسدہ ‘‘ ( نانی ) کے حق میراث کا مسئلہ پوچھا ، ولوالجی کو رحم آیا اور کہنے لگے :اس وقت بھی آپ کو یہ فکر پڑی ہے ؟ بیرونی نے کہا:دنیا سے اس مسئلے سے واقف ہو کر جانا بہتر ہے یا ناواقف ہو کر ؟ ولوالجی نے مسئلہ کی وضاحت کر دی اور واپس ہوئے ، کچھ ہی دور آئے تھے کہ رونے دھونے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ علامہ بیرونی کا انتقال ہو گیا ہے ۔
وقت کی حفاظت کرنے والے بزرگوں میں علامہ ابن عقیلؒ بھی ہیں ، جو بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کی سب سے اہم کتاب ’’ الفنون‘‘ ہے ، جس کے بارے میں بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس کی ۸ ؍ سو جلدیں تھیں ، اس کا کچھ حصہ ڈاکٹر جارج مقدسی مستشرق نے دو جلدوں میں ۱۹۷۰ – ۱۹۷۱ء میں شائع کیا ہے ، امام ابن جوزیؒ تاریخ اسلام کے بڑے مصنفین میں ہیں ، وہ ان لوگوں کو بہت ناپسند کرتے تھے ، جو چاہتے کہ ان کے پاس ملاقاتیوں اور ہم نشینوں کی بھیڑ لگی رہے ، خود بھی بے مقصد آنے والے سے بہت نالاں رہتے اور مجبوراً جن لوگوں سے ملاقات کرنی ہوتی ، ان سے ملاقات کے اوقات کو اس طرح استعمال فرماتے کہ اس وقت حسب ِضرورت کا غذ کاٹتے جاتے ، قلم تراش لیتے اور لکھے ہوئے اور اق باندھ لیتے ، اس کا نتیجہ تھا کہ بقول حافظ ابن رجبؒ شاید ہی کوئی فن ہو ، جس میں ابن جوزیؒ کی کوئی کتاب نہ ہو ، ابن جوزیؒ کی تصنیفات پانچ سو سے اوپر ہیں اور ان میں سے بعض بیس جلدوں اور بعض ۱۰؍ جلدوں پر مشتمل ہیں ، ابن جوزیؒ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے جن قلموں سے حدیثیں تحریر کی تھیں ، ان کے ڈھیر سارے تراشے جمع ہوگئے تھے ، انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرے غسل کا پانی اسی سے گرم کیا جائے ؛ چنانچہ پانی گرم کرنے کے بعدبھی قلم کے تراشے بچ رہے ۔
مشہور مفسر اور صاحب نظر امام رازیؒ کھانے کے وقت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے کہ اس وقت علمی مشغلہ فوت ہو جاتا ہے ، مشہور محدث علامہ منذریؒ کے صاحبزادے رشید الدین (م : ۶۴۳) کا انتقال ہوگیا، جو ان کو بہت محبوب تھے ، تو اپنے جواں مرگ بیٹے کی نماز جنازہ خود پڑھائی ، مدرسہ کے دروازہ تک جنازہ کے ساتھ خود چلے اور وہاں سے اللہ کے حوالہ کرکے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے ، امام نوویؒ جیسے محدث اور صاحب علم سے کون ناواقف ہوگا، راستہ چلتے ہوئے بھی علمی مذاکرہ میں اپنا وقت گذارتے ، اس کا نتیجہ ہے کہ صرف ۴۵؍ سال کی عمر پائی ؛ لیکن ہزار ہا ہزار صفحات ان کے قلم سے آج بھی محفوظ ہیں، جو اہل علم کے لئے حرز جاں ہیں ۔
ابن النفیس میڈیکل سائنس کی یادگار شخصیتوں میں ہیں، جسم میں دورانِ خون کا نظام سب سے پہلے آپ ہی نے دریافت کیا ، طب میں آپ کی کتاب ’’ الشامل ‘‘ تقریباً ۳۰؍ جلدوں میں ہے ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کاحال یہ تھا کہ سفر و حضر اور صحت و بیماری کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیتے ، ان کے شاگرد ابن قیمؒ نے ان کی تصنیفات کی تعداد پر جو رسالہ لکھا ہے، وہ خود ۲۲؍ صفحات کا ہے ، اخیر دور کے اہل علم میں علامہ شوکانی ؒکا حال یہ تھا کہ روزانہ دس اسباق پڑھاتے ، فتاویٰ بھی لکھتے ، فریضۂ قضاء بھی انجام دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک سو چودہ اہم تصنیفات آپ کی یادگار ہیں ، اعلامہ شہاب الدین آلوسیؒ (۱۲۱۷ – ۱۲۷۰ھ) کا حال یہ تھا کہ روزانہ چوبیس اسباق پڑھاتے ، افتاء کا کام بھی کرتے اور اس کے ساتھ انھوں نے روح المعانی کے نام سے ایسی عظیم الشان اور مبسوط تفسیر لکھی ہے ،جس کی پورے عالم اسلام نے داد دی ہے ۔
ہندوستان کے علماء میں مولانا عبد الحی فرنگی محلی نے صرف ۳۹؍ سال کی عمر پائی ؛ لیکن ان کی تصانیف ۱۱۰؍ سے بھی زیادہ ہیں اور ہر کتاب گویا اپنے موضوع پر حرف آخر ہے ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ہزار کے قریب ہے ، مولانا عبدالحی حسنیؒ نے الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند ، مولانا حبیب الرحمان شیروانیؒ نے ’ علماء سلف ‘ اور مشہور محقق شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ نے اپنی نہایت اہم اور فاضلانہ تصنیف ’’ قیمۃ الزمن عند العلماء‘‘ میں سلف صالحین کے ایسے کتنے ہی واقعات لکھے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ سب وقت کی قدر جاننے اور اس کی قیمت پہچاننے کا نتیجہ ہے ، جو لوگ وقت کوسستی اور بے قیمت شیٔ سمجھتے ہیں اور اس کی قدر دانی نہیں کرتے ، وہ زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے ، اسلام نے وقت کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے تمام عبادات کو وقت سے جوڑ رکھا ہے ، نمازوں کے اوقات مقرر ہیں، روزہ متعین وقت سے شروع ہوتا ہے اور متعین وقت پر ختم ہوتا ہے ، حج کے افعال بھی متعین ایام و اوقات میں انجام دیئے جاتے ہیں ، قربانی بھی متعین دنوں میں ہوتی ہے ، زکوٰۃ میں بھی مال پر ایک سال گذرنے کا وقت مقرر کیا گیا ہے اورشریعت میں کتنے ہی احکام ہیں، جو وقت سے مربوط ہیں ؛ لیکن افسوس کہ یہ اُمت اپنے وقت کو جس قدر ضائع کرتی ہے اور اس کو جتنا بے قیمت سمجھتی ہے ، شاید ہی اس کی کوئی مثال مل سکے ، مسلمان نوجوانوں کی یارباشی ، ہوٹل بازی اور بے مقصد سیر و تفریح ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے ؛ بلکہ ضرب المثل بنتی جا رہی ہے ، شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات میں جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ اوقات ضائع کئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ دینی جلسوں اور اجتماعات میں بھی اوقات کی پابندی کے معاملہ میں جوبے احتیاطی روا رکھی جاتی ہے ، وہ کس قدر افسوس ناک ہے !
آئیے ! نئے سال کا استقبال کرتے ہوئے ہم عزم مصمم کریں کہ وقت کی پوری قدر دانی کریں گے، اور اپنے ایک ایک لمحہ کو ضائع ہونے سے بچائیں گے، اگر ہم سب اس کا عزم کریں اور اپنے آپ کو اس پر قائم رکھیں تو کون ہے جو اس اُمت مرحومہ کی سر بلندی کو روک سکے ؟؟