مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈے سنگھ پریوار والوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور اس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، ان میں ایک یہ ہے کہ اسلام میں غزوۂ ہند کی پیشین گوئی کی گئی ہے کہ مسلمان آئیں گے، ہندوستان کے ہندوؤں کوقتل کریں گے، یہاں کی مال ودولت پر قابض ہو جائیں گے، اس کو لوٹ لیں گے اور جو یہاں کے حکمراں ہوں گے، ان کو قید کر کے ہتھکڑیاں ڈال کر یہاں سے لے جائیں گے، اس پروپیگنڈہ کو مسلمانوں اور غیر مسلم بھائیوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لئے بہت ہی شدت کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ مسلمان ہندوؤں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں؛ لہٰذا اس کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں تین نکات پر غور کرنا چاہئے:
(۱) اس سلسلہ میں جو حدیثیں منقول ہیں، وہ فنی اعتبار سے معتبر ہیں یا معتبر نہیںہیں، ان کا درجہ کیا ہے؟
(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ’’ ہند‘‘سے کون سا علاقہ مراد تھا؟
(۳) یہ واقعہ پیش آچکا ہے یا پیش آنے والا ہے؟
ان تینوں نکات پر غور کیا جائے تو مسئلہ اچھی طرح واضح ہو جائے گا اور اس اعتراض کی حقیقت معلوم ہو جائے گی، جہاں تک احادیث کی بات ہے تو اس سلسلہ میں بحیثیت مجموعی چار حضرات سے روایتیں منقول ہیں:
(۱) حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۲) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۳) صفوان بن عمرو ؒ
(۴) کعب احبارؒ
غزوۃ الہند سے متعلق حدیثیں:
الف: اس سلسلہ میں بعض راویوں پر کلام کے باوجود جو روایت فی الجملہ معتبر تسلیم کی گئی ہے، وہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی ہے ،اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا، ایک وہ گروہ جو ہندوستان سے غزوہ میں شریک رہے گا، دوسرے: وہ جو (دجال کے مقابلہ) حضرت عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ہوگا۔(مسند احمد۵:۲۷۸، حدیث نمبر: ۲۲۴۴۹، نسائی، حدیث نمبر: ۳۱۷۵)
اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو الگ الگ واقعات کی پیشین گوئی فرمائی ہے، ایک واقعہ ہندوستان سے متعلق ہے، اور دوسرا:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد آپ کے ساتھ جہاد سے، اس سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان پر فوج کشی ہوگی؛ لیکن یہ فوج کشی کیوں ہوگی؟ کیا مسلمان اس میں حملہ آور ہوں گے، یا یہاں کے کسی حکمراں کی زیادتی کی وجہ سے مسلمان فوج کشی پر مجبور ہوں گے، جیسا کہ راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسمؒ کو قدم اٹھانا پڑا تھا؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے، دوسرے: اس روایت میں حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کو حملہ کرنا چاہئے؛ بلکہ صرف خبر ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو جائے گی کہ مسلمان فوج کشی کریں گے، اُس وقت اس میںشرکت باعث ثواب ہوگی۔
ب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا، تو اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو بہترین شہداء میں ہوں گا، اور اگر لوٹ آیا تو ابو ہریرہ دوزخ سے آزاد ہوگا ۔(مسند احمد:۲؍۲۲۹۔ نسائی، ۳۱۷۳، ۳۱۷۴، باب غزوۃ الہند)
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے؛ کیوں کہ اس میں ایک راوی جَبربن عَبیدہ آئے ہیں، اور ان کے بارے میں اہل فن جیسے: علامہ مزیؒ کا خیال ہے کہ وہ معتبر نہیں ہیں، علم رجال کے بڑے ماہر حافظ ذہبیؒ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں بھی ان کی حدیث کو منکر یعنی ناقابل قبول قرار دیا ہے، (دیکھئے :۱؍۳۸۸) اور موجودہ دور کے دو بڑے محدثین نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، ایک تو علامہ ناصر الدین البانیؒ ، انھوں نے ضعیف سنن النسائی میں حدیث نمبر: ۲۰۲۔۲۰۳ کے تحت اس کا ذکر کیا ہے، دوسرے: ڈاکٹر شعیب ارناؤ ط، جنھوں نے مسند امام احمدؒ پر تحقیق کی ہے، انھوں نے بھی مسند احمد کی تخریج میں جلد:۱۲؍صفحہ :۲۹ پر لکھا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
ج:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے میرے خلیل صادق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اس امت میں ایک فوج سندھ اور ہند کی طرف جائے گی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو اگر میں نے اس کو پالیا (اور اس میں شہید، آزاد ہوگیا) تو یہی مقصود ہے، اور اگر میں واپس آگیا تو میں ابو ہریرہ ہوں گا، جس کو اللہ نے دوزخ سے آزاد کر دیا۔( مسند احمد، ۲؍۳۶۹)
اس روایت میں دو خامیاں ہیں، ایک تو اس میں ایک راوی ہیں براء بن عبداللہ غنوی ، ان کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، یحیٰ بن معین نے کہا ہے : لم یکن حدیثہ بذاک، یعنی ان کی حدیث قابل قبول نہیں ہے، اور ضعیف کا لفظ بھی ان کے لئے استعمال کیا ہے، امام نسائیؒ بڑے پایہ کے محدث اور ناقد رجال ہیں، انھوں نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے، اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی تقریب التہذیب میں ان کا ضعیف ہونا نقل کیا ہے، دوسرے: اس روایت کو حسن بصریؒ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں؛ لیکن ایک بڑے پایہ کے محدث امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حسن بصریؒ کا سماع ثابت نہیں ہے، گویا اس کی سند میں درمیانی واسطہ کا ذکر نہیں ہے؛ اس لئے یہ روایت بھی قابل قبول نہیں ہے ، اسی بنیاد پر ڈاکٹر شعیب ارناؤط نے مسند امام احمد کی تعلیق میں کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے ( مسند احمد:۱۴؍۴۱۹)اور ضعف کی وہی دو جہتیں بیان کی ہیں، جن کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
لیکن اگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دونوں روایتوں کو دیکھا جائے تو اس میں ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قریبی دور میں پیش آنے والا تھا؛ اسی لئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے منتظر تھے کہ اگر ان کی زندگی میں ہندوستان کی طرف فوج کشی ہوئی تو وہ اس میں شریک ہوں گے، دوسرے: اس میں ایک لفظ ہے: بعث إلی السند والھند، ایک فوج ’’ سندھ اور ہند‘‘ بھیجی جائے گی ، تو اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس میں’’ ہند‘‘ سے ہندکا وہ علاقہ مراد ہے جو اس وقت مغربی پاکستان کا حصہ ہے، یعنی دریائے سندھ کے دونوں کنارے۔
د: صفوان بن عمر کی روایت اس طرح نقل کی گئی ہے:
صفوانؒ ایک صاحب سے روایت کرتے ہیں، جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ’’ ہند‘‘ میں جہاد کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کو فتح عطا فرمائیں گے، یہاں تک کہ وہ ہند کے راجاؤں سے اس حال میں ملیں گے کہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے، اللہ تعالیٰ اُن (مجاہدین) کے گناہوں کو معاف کر دیںگے، پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے تو شام میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کو پائیں گے۔(نعیم بن حماد فی الفتن، حدیث نمبر: ۱۱۸۲)
بعض سندوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی روایت ہے، اس کو تین ذریعوں سے نقل کیا گیا ہے، ایک: ولید سے، اور ولید محدثین کی اصطلاح میں ’’ تدلیس‘‘ کیا کرتے تھے، یعنی اپنے استاذ کا نام حذف کر کے اگلے شخص سے روایت نقل کر دیتے تھے، اب جس شخص کا نام نہیں لیا گیا، ہو سکتا ہے کہ وہ معتبر راوی نہ ہو؛ اس لئے ایسے شخص کی روایت محدثین کے یہاں اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی، جب تک کہ وہ براہ راست اپنے استاذ سے روایت سننے کی صراحت نہ کر دے، اور یہ کیفیت اس روایت میں نہیں ہے، دوسرا ذریعہ بقیہ بن ولید کا ہے، ان کی بھی یہی کمزوری ہے، یہ بھی تدلیس کرنے والے راویوں میں ہیں، تیسرا ذریعہ ’’ ارطاۃ‘‘ ہیں، ان کی سند میں اتصال نہیں ہے، یعنی: بعض واسطے ذکر نہیں کئے گئے ہیں، نیز صفوان نے کس کے واسطہ سے روایت لی ہے؟ ان کا نام مذکور نہیں ہے، وہ واسطہ صحابی کا بھی ہو سکتا ہے اور بعد کے راوی کا بھی؛ اس لئے یہ تینوں ذریعے اہل فن کے نزدیک غیر معتبر ہیں۔
ہ:
حکم بن نافع اس شخص سے نقل کرتے ہیں، جس نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ’’ بیت المقدس‘‘ کا ایک حکمراں ہندوستان کو فوج بھیجے گا، جو اس ملک کو فتح کرلے گی، وہ ہندوستان کو روند ڈالے گی، وہاں کے خزانے لے لے گی، وہ بادشاہ اس سے بیت المقدس کو آراستہ کرے گا، یہ فوج ہندوستان کے حکمرانوں کو ہتھکڑیوں میں لے کر آئے گی، اور مشرق ومغرب کے درمیان کے تمام علاقے اس کے لئے فتح کر لئے جائیں گے، اور دجال کے نکلنے تک اس فوج کا ہندوستان میں ہی قیام رہے گا۔(اخرجہ نعیم بن حماد فی الفتن، حدیث نمبر: ۱۲۱۴)
یہ روایت بھی ضعیف ہے، اولاََ تو یہ کعب احبار کا قول ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، یہ صحابی بھی نہیں ہیں، تابعی ہیں، یعنی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا ہے؛ البتہ آپ کے صحابہ سے ان کی ملاقات ہے، ان کا شمار پہلے یہود کے بڑے علماء میں تھا، پھر مسلمان ہوگئے، تورات پر ان کی گہری نظر تھی؛ اس لئے یہ بہ کثرت تورات کی روایات نقل کیا کرتے تھے؛ اس لئے مفسرین اور محدثین ان کے اقوال کو قبول کرنے میں کافی احتیاط کرتے ہیں، بہ ظاہر یہ روایت بھی اسی طرح کی ہوگی، دوسرے: حکم بن نافع نے کن کے واسطہ سے یہ روایت سنی ہے، اور ان کے اور کعب کے درمیان کس کا واسطہ ہے؟ اور وہ واسطہ معتبر ہے یا نہیں؟ یہ بھی واضح نہیں ہے؛ اس لئے یہ بھی غیر معتبر روایت ہے، اور صرف اسی ایک روایت میں ہندوستان کے حکمرانوں کو ہتھکڑی پہنا کر لانے کا ذکر ہے۔
ہند سے مراد:
دوسرے نکتہ کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو ہند کا علاقہ تھا، وہ اس سے بہت مختلف تھا، جسے اس وقت ہم ’’بھارت‘‘ کہتے ہیں، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے جب آریہ اس ملک میں آئے تو انھوں نے اس خطہ کا نام ’’ سندھو‘‘ رکھا؛ کیوں کہ وہ اپنی زبان میں دریا کو ’’ سندھو‘‘ کہتے تھے، ابتدائََ وہ اس ملک کو سندھو کہتے رہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اسے سندھ کہنے لگے، ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھ کو’’ ہند‘‘ کر ڈالا اور یونانیوں نے ’’ھ‘‘ کو اس کے قریب المخرج حرف ہمزہ سے بدل کر ’’اند‘‘ کر دیا، رومن میں یہ لفظ’’ اند‘‘ سے’’ اندیا‘‘ ہوگیا، اور انگریزی زبان میں چوں کہ ’’ دال‘‘ نہیں؛ اس لئے وہ انڈیا بن گیا (تاریخ سندھ: ۲۴، تالیف: اعجاز الحق قدوسی، طبع لاہور، ۱۹۷۶)وہ ’’ ہند‘‘ موجودہ پاکستان کا علاقہ تھا، دریائے سندھ کے ایک طرف کا علاقہ سندھ اور دوسری طرف کا ہند کہلاتا تھا؛ لہٰذا حدیث میں جس ہند کا ذکر آیا ہے، وہ موجودہ ہندوستان نہیں ہے، جس میں اس وقت ہم لوگ رہتے ہیں، اور جس کی راجدھانی دہلی ہے؛ بلکہ یہ علاقہ اِس وقت پاکستان کی شکل میں موجود ہے، جہاں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں اور جہاں ایسی ہندو آبادی نہیں ہے، جس کو زیر کرنے کے لئے کسی فوجی کارروائی کی ضرورت ہو اور نہ اُس خطہ میں ہندو راجاؤں کی حکومت ہے۔
غزوۂ ہند ہو چکا!
تیسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ مہم انجام پا چکی ہے یا مستقبل میں انجام پانے والی ہے؟ تو بظاہر اس سے وہی فوج کشی مراد ہے، جو سنہ ۹۰ھ مطابق ۷۱۲ء محمد بن قاسم نے کی تھی؛ کیوں کہ یہی عربوں کی پہلی فوج کشی تھی اور اس طرح کی پیشین گوئی میں پہلی فوج کشی ہی مراد ہوتی ہے، مسلمان اس ملک پر صدیوں حکمراں رہے، اب بھی افغانستان اور پاکستان (جو گذشتہ زمانہ کا ہند تھا) میں مسلم حکومتیں قائم ہیں، موجودہ بھارت کی مشرقی جانب بنگلہ دیش ہے، اور قریب ترین سمندری پڑوسی مالدیپ ہے، یہ سب مسلم ممالک ہیں، خود بھارت میں ۲۰؍ کروڑ مسلمان آباد ہیں، جو اس ملک کے چپہ چپہ پر بسے ہوئے ہیں، نیز بھارت میں ہندو راجاؤں کی حکومت نہیں ہے؛ بلکہ ایک سیکولر حکومت ہے، جس میں مسلمان بھی شریک ہیں اور وہ یہاں کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں پر فائز رہے ہیں؛ لہٰذا یہ دعویٰ کہ غزوۃ الھند ہونے والا ہے اور اس میں مسلمان یا کوئی مسلم ملک موجودہ بھارت پر حملہ کرے گا، جس سے یہ پیشین گوئی پوری ہوگی، ایک بے معنیٰ بات ہے۔