اکثر مذاہب میں اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق قربانی کا تصور رہا ہے ، یہودیوں کے مختلف تہواروں میں قربانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور بائبل میں متعدد مواقع پر اس کا ذکر موجود ہے ، یہاں تک کہ بعض وہ قومیں جو اپنے آپ کو ’ ذبح حیوان ‘کا مخالف کہتی ہیں ، وہ بھی مذہبی قربانی کی قائل ہیں ، جیسے ہندو بھائی ، کہ ان کے یہاں بعض تہواروں میں اور بعض استھانوں پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے ، عربوں میں اسلام سے پہلے اُن باطل دیویوں اور دیوتاؤں کے نام پر قربانی دی جاتی تھی ، جن کو وہ خدائی میں شریک تصور کرتے تھے ، حج کے موقعہ پر بھی قربانی کی قدیم روایت چلی آرہی ہے اور اسلام سے پہلے بھی منیٰ میں قربانیاں کی جاتی تھیں ، اسلام نے ان غلط تصورات اور اعتقادات کی تردید کی ، جو قربانی سے وابستہ کرلئے گئے تھے ، اور طریقہ کار کی بھی اصلاح کی ، فکر و عقیدہ کی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے قربانی کو ایک مشرکانہ عمل بنا رکھا تھا ، اسلام نے اس کو عقیدۂ توحید کا مظہر بنادیا ، اور طریقۂ کار کی اصلاح یوں فرمائی کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں جو تکلیف دہ اور اذیت رساں طریقے مروج تھے ، ان سے منع فرمادیا گیا ۔
قربانی ایک ایسی عبادت ہے کہ سال بھر میں ایک بار واجب ہوتی ہے ، خود قرآن مجید میں اس کا حکم فرمایا گیا: ’’ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘ (کوثر : ۲) کہ اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے ، رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ جس کو گنجائش ہو ، پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے ، ( ابن ماجہ ، کتاب الأضاحی ، حدیث نمبر :۳۱۲۳، عن ابی ہریرۃؓ ) مسافر کے لئے بہت سے احکام میں سہولت ہے ؛ لیکن رسول اللہ ا نے سفر کی حالت بھی قربانی فرمائی ، حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ ایک سفر میں ہم لوگ رسول اللہ ا کے ساتھ تھے ، بقرعید آئی تو ایک گائے میں سات لوگوں نے شرکت کی ، (ترمذی ،کتاب الحج، باب ماجاء فی الاشتراک فی البدنۃ ، حدیث نمبر : ۹۰۵) — اسی لئے فقہاء قربانی کے ضروری ہونے پر متفق ہیں ، اس ضروری ہونے کو فقہاء احناف نے واجب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور دوسرے فقہاء نے ایسی سنت قرار دیا ہے جس کا ترک کرنا درست نہیں ہے ۔
ادھر اُمت کے ایک گروہ کا مزاج یہ بنتا جارہا ہے کہ ملت کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے الگ سے کوئی رقم خرچ نہ کی جائے ؛ بلکہ دینی واجبات کے طورپر جن رقوم کی ادائیگی ضروری ہے ، ان ہی کو ایسے ملی کاموں میں صرف کردیا جائے ، جیسے زکوٰۃ و قربانی ، صدقۃ الفطر ، ان ہی سے بچوں کو عصری تعلیم دی جائے ، بے روزگار نوجوانوں کو فنی تربیت دی جائے ، ٹی وی چینل قائم کئے جائیں ، میڈیا سے متعلق سرگرمیوں کو انجام دیا جائے ، ہاسپیٹل تعمیر کئے جائیں ، غرض کہ یہ حقیر سی رقم جو غرباء کی حاجت روائی کے لئے شریعت نے مقرر کی ہے ، سارے کام اسی سے لئے جائیں ۔
اس وقت کورونا کی وجہ سے پوری قوم پر جو مصیبت آئی ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرنا یقینا ایک اسلامی اور انسانی فریضہ ہے ؛ لیکن بعض گوشوں سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ لوگ اس سال قربانی نہ دے کر یہی پیسہ غریبوں پر خرچ کر دیں، جوقربانی واجب ہے اس کی جگہ صدقہ کافی نہیں ہے اور یہ نہایت ہی مریضانہ سوچ ہے ، اگر اس کے بجائے یہ تحریک چلائی جاتی کہ آئندہ تین ماہ میں جتنی شادیاں ہوں ، لوگ ان میں سے دس فیصد اخراجات کم کرکے اس فنڈ میں دے دیں ، یا یہ کہا جاتا کہ ہر شخص خواہ وہ سرکاری ملازم ہوں یا پرائیوٹ ،بزنس مین ہوں یا مزدور ، اپنی تین دنوں کی آمدنی اس فنڈ میں دے دیں تو کیا بہتر بات ہوتی ! اس سے پریشان حال لوگوں کی مدد کا مقصد زیادہ بہتر طور پر حاصل ہوجاتا اور اُمت میں یہ مزاج پیدا ہوتا کہ وہ اپنی ذاتی آمدنی اور بچت سے ملت کے کاموں کو انجام دیا کریں ، نہ یہ کہ زکوٰۃ اور قربانی کی اس معمولی سی رقم سے سارے کام انجام دیئے جائیں، اور ان شرعی واجبات کے علاوہ جیب سے ایک کوڑی بھی نہ نکالی جائے، اس مزاج سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضور اکو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگ آپ سے پوچھتے ہیں (وہ کار خیر میں) کیا خرچ کریں ؟ آپ فرمادیجئے: کہ جو کچھ بھی بچ جائے ’’وَیَسْأَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘ (البقرۃ : ۲۱۹) اسی طرح قرآن مجید نے مسلمانوں کی یہ شان بتائی کہ چاہے وہ خود فاقہ سے دوچار ہوں ؛ لیکن اپنے بھائیوں کے سلسلہ میں ایثار سے کام لیا کریں : ’’ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ‘‘ (الحشر : ۹) قرآن مجید کی ان تعلیمات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ مزاج نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ساری ملی ضروریات کے لئے زکوٰۃ ، صدقات واجبہ اور قربانی جیسی عبادتوں پر انحصار کرنے لگیں ؛ بلکہ ان کو ایسے کام خصوصی عطیات کے ذریعہ کرنے چاہئیں ۔
قربانی کی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو کھانے کے لئے گوشت میسر ہوجاتا ہے اور غریب سے غریب شخص بھی اس نعمت سے محروم نہیں ہوتا ؛چنانچہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جانور کے خون اور گوشت اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے ؛ بلکہ تمہارا جذبۂ اطاعت اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے :’’ لَن یَنَالَ اﷲ ُلُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰـکِن یَنَالُہُ التَّقْویٰ مِنکُمْ‘‘ (الحج : ۳۷) کیوںکہ یہ ایک علامتی عمل ہے ، جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خود سپردگی اور فدائیت کے جذبات سے ہم آہنگی ظاہر کرنا اور اس عہد کو تازہ کرنا مقصود ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے اور اللہ کی خوشنودی کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں گے ، جو عمل علامتی طورپر کیا جاتا ہے ، دل و دماغ اور فکر سازی میں اس کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے ، اس سے سوئے ہوئے جذبات بیدار ہوتے ہیں ، خوابیدہ اُمنگیں کروٹیں لینے لگتی ہیں ، ساکت و جامد قوت ِارادی میں ولولہ اور ایک نئی حرکت پیدا ہوجاتی ہے ، غور کیجئے ہر ملک میں قومی دن منائے جاتے ہیں ، خود ہمارے وطنِ عزیز میں ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍اگست قومی دن ہیں ، تو غور کیجئے ان دو دنوں میں جو تقریبات ہوتی ہیں ، جو جھنڈے بنائے اور لہرائے جاتے ہیں اور ملک کے تمام شہریوں کی خصوصی تعطیل رہتی ہے ، ان پر کیا کچھ خرچ نہ آتا ہوگا ؟ اگر اس سلسلہ میں تمام اخراجات کا حساب کیا جائے تو بہت سے عوامی کام اس رقم سے کئے جاسکتے ہیں ؛ لیکن کیا ہمارا ملک یا کوئی بھی ملک اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ ان تقریبات کو روک دے اور جو بچت ہو اس سے غریبوں کے لئے کھانے اورکپڑے کا انتظام کرے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں ! کیوںکہ یہ تقریبات حب الوطنی کے جذبہ کو اُبھارتی ہیں ، ان پروگراموں کے ذریعہ ملک سے وفا داری کے عہد کی تجدید ہوتی ہے ، قومی بھائی چارہ پروان چڑھتا ہے ، لوگ اپنے بزرگوں کی قربانی کو یاد کرتے ہیں ، خود اپنے اندر ناموسِ وطن کے لئے قربانی کا جذبہ اُبھرتا ہے ، یہ اتنے عظیم مقاصد ہے کہ کچھ لوگوں کو کھانا کھلانے اور کپڑے پہنانے سے کہیں زیادہ ان کی اہمیت ہے ۔
اسلام میں دو اہم سالانہ تہوار رکھے گئے ہیں ، ایک رمضان المبارک اور اس کے ساتھ عید الفطر ، اور دوسرے عیدالاضحی — رمضان المبارک کے روزے اور اس کے اختتام پر عید الفطر اور اس کے ساتھ ساتھ صدقۃ الفطر نزولِ قرآن مجید کی یاد گار ہے ، اسی لئے رمضان المبارک کے آتے ہی پورے مسلم معاشرے میں قرآن مجید کا غلغلہ بلند ہونے لگتا ہے ، تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے ، تلاوتِ قرآن کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے ، عظمت ِقرآن پر اجتماعات ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ قرآن مجید کے نسخوں کی خریداری میں بھی خاصا اضافہ ہوجاتا ہے ، بعض اہل خیر قرآن اور اس کے نسخے تقسیم کرتے ہیں ، یہ سب کچھ اسی علامتی عمل کی دین ہے ، اس کے بغیر بڑے سے بڑا اجتماع اور تحریک بھی یہ بات پیدا نہیں کرپاتی ۔
’ بقرعید اور قربانی ‘ بھی ایک علامتی عمل ہے ؛ اسی لئے رسول اللہ ا نے قربانی کے بارے میں فرمایا کہ یہ محض جانور کو ذبح کرنا نہیں ہے ؛ بلکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے : ’’ سنۃ ابیکم اِبراہیم ‘‘ ( مستدرک حاکم ، کتاب التفسیر ، حدیث نمبر : ۳۴۶۷) اوراسی لئے رسول اللہا نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دن سب سے افضل عمل یہ ہے کہ انسان قربانی کرے : ’’ماعمل آدمی فی ھذا الیوم أفضل من دم یھراق اِلا أن یکون رحما مقطوعۃ توصل ‘‘ ( معجم الکبیر، حدیث نمبر: ۱۰۹۴۸، عن ابن عباسؓ) رسول اللہا کو قربانی کا اِس درجہ اہتمام تھا کہ آپ انے مدنی زندگی کے پورے دس سالوں میں سے ہر سال قربانی فرمائی : ’’ أقام النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی‘‘ (ترمذی ، کتاب الأضاحی ، حدیث نمبر : ۱۵۰۷ ، عن عبداللہ ابن عمر ؓ) اس عمل کی اہمیت کی وجہ سے آپ انے اپنی لخت ِجگر حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا کہ قربانی کے وقت تم وہاں موجود رہو ، اس کا اجر یہ ہے کہ ہر قطرہ خون کے بدلہ تمہارے پچھلے گناہ معاف کئے جائیں گے : ’’ فإن لک بکل قطرۃ من دمھا أن یغفر لک ما سلف من ذنوبک‘‘ ۔( مستدرک حاکم ، کتاب الأضاحی ، حدیث نمبر : ۷۵۳۵)
قربانی کا یہ مقصد صدقہ اور لوگوں کی اعانت کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتا ، پھر غور کیجئے تو قربانی میں غرباء کی مدد کا پہلو بھی نمایاں ہے ، اس موقعہ سے لاکھوں کی تعداد میں جانور خرید کئے جاتے ہیں اور بہت سے مویشی پالنے والے یا اس کی تجارت کرنے والے غریب لوگوں کو کثیر آمدنی حاصل ہوجاتی ہے ، ایک ہی وقت میں قربانی کرنے کی وجہ سے بہت سے ایسے غرباء کو گوشت پہنچ جاتا ہے اور وافر مقدار میں میسر آتا ہے ، جنھیں گوشت کھانے کے لئے پندرہ دن اور ایک مہینہ کا انتظار کرناپڑتا تھا ، آج بھی دیہاتوں اور شہر کے غریب محلوں میں ایسے بہت سے گھر ہیں ، جن کے لئے گوشت خریدنا دشوار ہوتا ہے ، پھر ان جانوروں کے چمڑوں کی فروخت سے کثیر آمدنی ہوتی ہے ، جس سے غریبوں ، بیواؤں اور دینی مدارس کے نادار طلبہ و طالبات کی مدد ہوتی ہے ؛ البتہ موجودہ غیر معمولی حالات کے تحت واجب قربانی کے بعد مزید نفل قربانی کی بجائے اس رقم سے غرباء بالخصوص دینی مدارس کا تعاون کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے؛ بلکہ موجودہ حالات میں یہ ایک بہتر صورت ہوگی۔
بہر حال ہمیں اُمت کو تعمیری پیغام دینا چاہئے اور اس کی ایسی سوچ بنانی چاہئے کہ وہ مختلف مقاصد کی لئے اپنی ذاتی آمدنی میں سے خرچ کریں ، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل ہو کر کہا جانے لگے کہ لوگ فلاں مقصد کے لئے حج کرنا چھوڑ دیں اور نماز میں اپنے اوقات کو صَرف کرنے کے بجائے اتنے ہی اوقات کاروبار میں لگائیں اور اس کی آمدنی فلاں کارِ خیر میں خرچ کردیں ، اس طرح ملت کی خدمت اور اُمت کی حاجت بر آری کے نام پر دین کے بنیادی تصور کوٹھیس پہنچے گا۔ اعاذنا اﷲ منہ۔