Site icon Asre Hazir

کتاب میلہ، صنعتی نمائش اور ترجیحات

کسی مفکر کا قول ہے کہ جو پڑھنا جانتا ہوں؛ وہ نہ پڑھے تو ایسا ہی ہے جیسے جو پڑھنا نہ جانتا ہوں اور کچھ نہ پڑھے۔ یکم جنوری کو حیدرآباد میں دو خاص میلوں کا اہم موڑ ہے۔ آج 35 ویں حیدرآباد نیشنل بک فیئر کا آخری دن ہے۔ آج سے 82 ویں کل ہند صنعتی نمائش کا آغاز بھی ہوگا۔ ان دونوں میلوں میں سماج کے مختلف طبقات کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ADVERTISEMENT

پی ڈی ایف اور ای بک کے دور میں بھی کتاب میلے میں کئی لوگوں نے فزیکل کتابیں خریدیں۔ کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ کتاب کے اوراق سے نکلنے والی خوشبو قاری کو خوشگوار احساس فراہم کرتی ہے، پڑھنے میں توجہ برقرار رہتی ہے۔ جب کہ ای بک سے توجہ منتشر ہونا کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ اسکرین سے نکلنے والی الکٹرانک شعاعیں آنکھوں کے لیے گراں بار ہوتی ہیں۔ شاید ان ہی وجوہات کی بنا پر کتاب میلے میں کتابوں کو پڑھ چڑھ کر خریدا کیا۔ کئی لوگوں کے ہاتھ میں دس سے بارہ خریدی ہوئی کتابیں دیکھی گئی۔ اس بار کتاب میلے میں بوڑھوں سے زیادہ نوجوان نظر آئے۔ تقریباً ستر تا اسّی فیصد میلہ میں شرکت کرنے والے 20 تا 35 سال کی عمر کا گروپ رہا۔ کتاب میلے کے منتظمین کا تجربہ ہے کہ جنتی کتابیں، میلے کے شروعاتی دنوں میں فروخت ہوتی ہیں؛ اس سے زیادہ کتابیں میلے کے آخری تین دنوں میں فروخت کی جاتی ہیں۔ میلے کے آخر دنوں میں خصوصی آفر کی بھرمار ہوتی ہے۔ پچاس سے پچھتر فیصد کی رعایت دی جاتی ہے، کئی جگہ تو مہنگی مہنگی کتابیں صرف سو تا دو سو روپیے میں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

کتاب میلہ میں داخلہ فیس دس روپیے ہیں، جب کہ صنعتی نمائش میں داخلہ فیس چالیس روپیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نمائش میں اشیاء کی خرید و فروخت کے دوران آن لائن رقم کی منتقلی کے لئے مفت انٹرنیٹ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ دونوں میلوں کا عوام سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ نمائش میں اشیاء و خدمات باہر کی عام دکانوں کی بہ نسبت مہنگی ہوتی ہیں۔ یہاں سامانِ تعیش کی بھی بھرمار ہوتی ہیں۔

کتاب میلہ میں خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد شریک رہی۔ جب کہ مسلم خواتین کی شرکت نہ کے برابر تھی۔ خواتین کی شرکت و عدم شرکت کے تجزیہ سے سماج کے طبقات کی الگ الگ ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کتاب میلے کے منعقدہ مقام این ٹی آر گرونڈ تا نمائش کے منعقدہ مقام نامپلی ایگزیمشن گرونڈ میں بہت زیادہ فاصلہ بھی نہیں ہے؛ اس کے باوجود نمائش میں مسلم خواتین، مردوں سے زیادہ شریک ہوتی ہیں۔ اس تجزیہ سے خاص طور پر مسلم خواتین کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سوشیالوجی سے متعلق لوگ ان ترجیحات کی وجہ سے سماج پر پڑھنے والے اثرات کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ وہ اس کو بھی اپنی کاوش کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

اب نیا سال شروع ہوچکا ہے۔ لوگ نئے مقاصد، نئی ترجیحات اور اپنے عزائم کا از سر جائزہ لیتے ہیں، کچھ منصوبے بناتے ہیں۔ امید ہے کہ کتاب کو بھی اس سال اپنی ترجیحات میں جگہ دی جائے گی، تاکہ ایک صحت مند، پڑھا لکھا اور خوش حال سماج بنے اور اس میں سب کی شرکت ہو۔

Exit mobile version