حیدرآباد: 20؍اگست (عصرحاضر) سٹی جمعیۃ علماء گریٹر حیدرآباد کے زیر اہتمام حضرت مفتی محمد عبدالمغنی مظاہریؒ کے اعترافِ خدمات و تذکرۂ محاسن بتاریخ 19؍اگست بروزِ جمعرات بعد نمازِ عشاء مسجد اکبری اکبر باغ ملک پیٹ میں حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب ناظم ادارہ اشرف العلوم خواجہ باغ سعیدآباد کی زیر صدارت اور مولانا محمد مصدق القاسمی جنرل سکریٹری سٹی جمعیۃ علماء گریٹر حیدرآباد منعقد ہوا۔ مولانا محمد عبدالقوی صدر جلسہ نے اپنے تأثرات میں فرمایا کہ مفتی صاحب نہ صرف میرے بڑے بھائی تھے بلکہ والدِ محترم کی وفات کے بعد سے مثلِ والد بنے ہوئے تھے۔ بڑے تحمل بردباری اور خوردنوازی کے مزاج کے ساتھ اہلِ خاندان کو لیکر چلنے کا بڑا ملکہ حاصل تھا۔ اور بالکل انہی صفات کے ساتھ ملی و سماجی خدمات کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہا کرتے تھے۔ مفتی صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ افرادِ خاندان میں یا ملی مسائل میں کوئی رنجشوں کا سامنا ہوتا تو اس کو کبهی بھی ذاتی تعلقات پر اثر انداز ہونے نہیں دیا۔ لاکھ رنجشوں اور مخالفتوں کے باوجود انتقام تو دور کی بات ہے ان اپنے تعلقات میں ذرہ برابر بھی کمی آنے نہیں دی وہی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔ اصاغر و ماتحتوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ مفتی صاحب اپنی طالبِ علمی کے دور کے بعد سے عظیمت والے کاموں میں ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت محی السنہ ہردوئی علیہ الرحمہ کی ایماء پر اڑیسہ میں انہوں نے کچھ عرصہ خدمات انجام دیں، ہم جب ایک مرتبہ مفتی صاحب کے ساتھ اڑیسہ پہنچے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ اتنے سخت علاقے اور بالکل پسماندہ طبقہ کے درمیان مفتی صاحب ہی کا جگر ہے جو خدمت انجام دے رہے ہیں ہمارے سے تو اس طرح کا تصور بھی محال ہے۔ مفتی صاحب دو مرتبہ فیض العلوم کے نائب ناظم بنائے گئے اور ان دونوں مرتبہ بھی مفتی صاحب نے فیض العلوم میں عالمیت کے درجات کا آغاز کیا جو مفتی صاحب کے دورِ نظامت تک ہی محدود رہا۔ مفتی صاحب کی زندگی میں جتنے بھی طلباء نے ان سے کسبِ فیض کیا وہ ان کی وفات تک ان سے وابستہ رہے۔ جمعیۃ علماء گریٹر حیدرآباد کے پلیٹ فارم سے آپ نے عظمتِ صحابہ و اہلِ بیت اطہار کے عنوان سے جس طرح شعور بیداری کا کام کیا اور ڈٹ کر میدانِ عمل میں جمے رہے یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ چونکہ آخری نظامِ دکن کے چند دنوں کے لیے شیعہ بن جانے سے دکن کی سرزمین میں شیعیت کا اس طرح تسلط ہوچکا تھا کہ یہاں چھوٹے چھوٹے قریوں میں عاشور خانہ مل جاتے تھے لیکن مساجد نہیں ہوتی تھی اور عظمتِ صحابہ کے عنوان سے کسی بھی طرح کا کام کرنا نہایت دشوار گزار مرحلہ تھا۔ ایسی نازک صورتحال میں رفتہ رفتہ عظمتِ صحابہ و اہلِ بیت اطہار کے اجلاس منعقد کرکے عوام میں جو شعور بیدار کیا گیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ ایسے ہی مفتی صاحب مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ و آندهرا کے نائب صدر کی حیثیت سے بے مثال خدمات انجام دیں۔ ردِّ قادیانیت و عیسائیت کے حوالے سے جہاں کہیں ضرورت پڑتی شخصی طور پر وہاں حاضر ہوکر اُس سے نمٹنے کی تدبیریں کیا کرتے تھے۔ بہر حال حضرت مفتی صاحب نے اپنی زندگی مکمل کرکے ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئے۔ یہاں حضرت حکیم اختر صاحب علیہ الرحمہ کی یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ الله رب العزت نے جب تک چاہا ان کو زندگی بخشی اور جب الله تعالی کو ان کی زندگی منظور نہیں تو پھر ہم کون ہے جو ان کی مزید زندگی کی خواہش کرسکیں۔ جب الله تعالی نے اپنی رضا سے انہیں موت عطا فرمادی تو اب ہمیں ان کی زندگی کا ایک لمحہ بھی منظور نہیں ہے۔ مولانا نے کہا کہ ان کے انتقال کی خبر سُن کر جس طرح تلنگانہ کے مختلف اضلاع اور پڑوسی ریاستوں سے جوق در جوق عوام و علماء نے شرکت کی یہ محض عند الله و عندالناس مقبولیت کی ایک مثال ہے۔ جنازہ لے جانے کے لیے ہم نے گاڑی کا انتظام کیا تھا لیکن محبین و تلامذہ نے اس کو منظور نہیں کیا اور یہ کہہ کر کہ ہم اتنی دور سے کیوں آئے ہیں ہمیں بھی کاندھا دینے کا موقع دیجیے۔ تقریبا ساڑھے تین کیلو میٹر اپنے ہی کاندھوں پر جنازہ لیکر قبرستان پہنچے۔ صداراتی خطاب سے پہلے ریاست کے مؤقر علماء کرام نے اپنے اپنے جذبات کا تأثرات کا اظہار فرمایا بہ طورِ خاص حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند مفتی عبدالرحمن محمد میاں قاسمی نے اپنے والدِ گرامی کے محاسن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ والدِ محترم سادہ زندگی گزارنے کے عادی رہے اپنی راحت کا کہیں بھی کوئی انتظام نہیں کیا نہ مدرسہ میں کوئی آپ کی خصوصی آرام گاہ یا آسائش کی جگہ تھی نہ گھر میں بہت پُر تکلف کمرہ تھا بہت سادہ زندگی تھی معیاری کپڑے اور چیزوں کے بالکل بھی عادی نہیں رہے۔ جو ہم لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔ پُر تکلف زندگی کے تمام اساب موجود تھے اور شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ممالک میں بھی مقیم ہیں مفتی صاحب ایک اشارہ پاکر آپ کے لیے کسی بھی طرح کا انتظام و انصرام کے لیے تیار رہا کرتے تھے لیکن آپ نے کبهی بھی ان سے اس طرح کا کوئی کام نہیں لیا۔ مولانا محمد میاں نے اپنے والد مرحوم کے شاگردوں کے ساتھ حسنِ تعلقات کے ایک دو واقعات بھی سنائے اور مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی۔ مولانا محمد مصدق القاسمی نے اپنی نظامت کے دوران مختلف واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سامعین کو اشکبار کیا اور اپنے گہرے جذبات کا اظہار کیا۔ اس اجلاس میں شہر حیدرآباد کے مؤقر علماء کرام حافظ پیر شبیر احمد، مولانا غیاث احمد رشادی، مولانا حسام الدین ثانی عامل جعفر پاشاہ، مولانا محمد فصیح الدین ندوی، مولانا حافظ محمد غوث رشیدی، مولانا محمد بانعیم مظاہری، مفتی محمد تجمل حسین قاسمی، مولانا محمد ارشد علی قاسمی‘ مفتی معراج الدین علی ابرار، حافظ پیر خلیق احمد صابر، مولانا عمر عابدین مدنی، مولانا نذیر احمد یونس قاسمی، حافظ شیخ شبیر فیضی، مولانا شاہد ندیم ایڈووکیٹ کے علاوہ متعدد شخصیات نے شرکت کی اور اپنے اپنے دلسوز جذبات و تاثرات کا اظہار فرمایا۔