نئی دہلی: 29؍اکتوبر (پریس ریلیز) فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے حوالہ سے جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ پچھلے دنوں فرانس میں جو کچھ ہوا اوراب بھی ہورہا ہے اسے بھی کچھ لوگ اظہاررائے کی آزادی سے تعبیر کررہے ہیں اور اس کی حمایت بھی کررہے ہیں، لیکن کیا ایک مذہب معاشرہ میں اس طرح کے رویہ کو درست ٹھہرایا جاسکتاہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی جتنی بھی مذہبی اورمقدس شخصیات ہیں ان سب کا احترام کیا جانا چاہئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوہمیں ہمارے نبی کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی مذہبی شخصیت کو برامت کہو، پوری دنیا کے مسلمان اس نصیحت پر عمل پیراہیں کسی بھی مذہب کاماننے والا یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ کسی مسلمان نے اس کے مذہب کی کسی مذہبی شخصیت کی کبھی گستاخی کی ہویا اس کا مضحکہ اڑایا ہو، انہوں نے فرانس کے صدرکی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی عمومی اشاعت اور اس ناپاک حرکت کی حمایت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل برداشت عمل ہے، مزیدبرآں ایسے لوگوں کی حمایت کرناجو آزادی رائے کی بنیادپر کروڑوں لوگوں کی ہی نہیں بلکہ اربوں لوگوں کی ناقابل تحمل تکلیف کا سبب بنیں، جوکہ نہایت دلآزاری کا سبب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔
کیونکہ ایسے گستاخ لوگوں کی دلآزاری سے شدت پسندانہ ردعمل کو بڑھاواملتاہے اور دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے، خاص کر کسی حکمراں کی طرف سے ایسی ناپاک حرکتوں کی تائید بدترین جرم ہے اورناقابل معافی عمل ہے، اگراسلامی دنیا اس طرح کی حرکت پر برافروختہ ہوکر سخت اسٹینڈ لیتی ہے تواس کو معذورسمجھنا چاہئے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو دوسرے کسی بھی مذہب کے مقدس شخصیات کی استہزاکو ہرگز پسند نہیں کرتااور تمام مذہبی طبقات کے جذبات کاپاس ولحاظ رکھتاہے، مگر دنیاکی کچھ طاقتیں باربار مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اوردلآزاری کرتی ہیں یہ بات قطعا ناقابل قبول ہے، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں، آخرمیں مولانا مدنی نے کہا کہ کوئی بھی مسلمان اپنے محبوب، پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرسکتاتاہم تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جذباتیت سے اوپر اٹھ کر حسن تدبیراور تحمل سے اس کا مقابلہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت نے فرانس کے موقف کی تائید کی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھوکرمارکر دلوں کو ٹھیس پہنچانے والے قانون اور جذبے کی تائید کررہی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوداپنے ملک کے اندرحکومت کا رخ کیا ہے اوروہ بیس کروڑ مسلمانوں کے سلسلہ میں کیا نظریہ رکھتی ہے؟ ہماراخیال ہے کہ فرانس کے موقف کی تائید کے مقابلہ خاموش رہنا زیادہ بہترہوتا۔