تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کامعاملہ؛ حالیہ دنوں میں اظہار رائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا

نئی دہلی 8/اکتوبر (پریس ریلیز) ”حالیہ دنوں میں اظہار رائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے اور یہ کہ مرکزکی طرف سے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا گیا ہے وہ نامکمل ہے اور حیلہ سازی وڈھٹائی پر مبنی ہے“چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے نے یہ سخت تبصرہ آج اس پٹیشن پر سماعت کے دوران کیا جو کروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں ومسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے، اس پٹیشن پر آج چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے سماعت کی چیف جسٹس آف انڈیا نے اس بات کیلئے بھی مرکزکو زبردست لتاڑ لگائی کہ اس نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اسے خراب یا منفی رپورٹنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا، چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشارمہتاسے سوال کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونماہی نہیں ہوا، عدالت نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتاسے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے جونیئر افسران کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کیسے لکھ دیاگیا کہ عرضی گذار(جمعیۃ علماء ہند) نے بغیر کسی واقعہ اور حوالہ کے یعنی فیک نیوز کی تفصیلات دیئے بغیر پٹیشن داخل کردی، عدالت نے تشار مہتا کو کہاکہ عرضی گذار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت درج کئے ہیں۔چیف جسٹس نے تشار مہتا سے کہاکہ آپ عدالت سے اس طرح سے نہ پیش آئیں جس طرح آپ اپنے ماتحت افسران سے پیش آتے ہیں اور حلف نامہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ حقائق پر مبنی داخل کریں جس پر تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر سینئر افسر کے ذریعہ تیار کردہ تازہ حلف نامہ داخل کریں گے جو ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔عدالت نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشارمہتا سے یہ بھی کہا کہ حلف نامہ میں یہ خصوصی طور پر تحریر کریں کہ ماضی میں ایسی شکایتوں پر مرکزی حکومت نے کن قوانین کے تحت کیا کارروائی کی ہے نیز کیا حکومت کو ٹیلی ویژن پر پابندی لگانے کا اختیار ہے؟ چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشارکو مہتا کو حکم دیا کہ دو ہفتوں کے  اندروزارت نشریات واطلاعات کے سیکریٹری کی جانب سے حلف نامہ داخل کرکے یہ بتائیں کہ ایسے نیوز چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ آزادی ئ اظہار رائے کا حالیہ دنوں میں بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے،یعنی کہ چیف جسٹس یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آزادیئ اظہار رائے کے نام پر جانب داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اسی درمیان جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے آج چیف جسٹس  اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کوبتایا کہ یونین آف انڈیا کی جانب سے داخل کیا گیا حلف نامہ عدالت کو گمراہ کرنے والا ہے نیز ہماری جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں سیکڑوں خبروں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا تھا۔ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت کے حلف نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ عرضی گذار نے پٹیشن داخل کرکے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اس کے برخلاف ہماری عدالت سے گذارش ہے کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کوبدنام کرنے والے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی جائے۔اس معاملے کی سماعت بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ہوئی جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول (ایڈوکیٹ آن ریکارڈ) اور ان کے معاونین وکلاء موجود تھے۔
آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے نے آج کی سماعت کے دوران جو باتیں کہی ہیں اور جن کی انہوں نے وضاحت چاہی ہے اس سے ہمارے موقف کی مکمل تائید ہوگئی انہوں نے کہا کہ عدالت کے استفسار پر مرکزی حکومت کی طرف سے حیلہ سازی پر مبنی ایک نامکمل حلف نامہ کا داخل کیا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے اوروہ متعصب میڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند نے اپنی عرضی میں ثبوت وشواہد کے ساتھ جو کچھ کہا ہے سالیسٹر جنرل آف انڈیا اس کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنا چاہ رہے ہیں اور مرکزکی طرف سے داخل کئے گئے حلف نامہ میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر دینے کی دانستہ کوشش ہوئی ہے کہ عرضی گزارنے اس طرح کی عرضی داخل کرکے اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی بات کہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ عرضی میں اظہاررائے کی آزادی پر پابندی لگانے جیسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو نیوز چینل ایک مخصوص قوم کو منصوبہ بند طریقہ سے اپنی شرانگیز اور یکطرفہ رپورٹنگ کے ذریعہ نشانہ بناکر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہو ادینے کی دن رات سازشیں کرتے ہیں ان پر پابندی لگنی چاہئے اور ان کے لئے کوئی حتمی گائیڈلائن مقررکی جانی چاہئے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس حوالہ سے جمعیۃعلماء ہند کو جو کچھ کہنا چاہئے تھا چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے تبصرے میں کہہ دیا ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے یہ کہہ کر کہ حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے متعصب میڈیا کے کردارپرسے نقاب الٹ دی ہے، مولانا مدنی نے آگے کہا کہ آئین نے ملک کے ہرشہری کو اظہارکی مکمل آزادی دی ہے ہم کلی طورپر اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر اظہاررائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی دل آزاری کی جاتی ہے کسی فرقہ یا قوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ استعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے تو ہم اس کے سخت خلاف ہیں، آئین میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے،انہوں نے ہاتھرس کے حالیہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک مجبورلڑکی کی آبروریزی ہوتی ہے اسے سخت ذہنی وجسمانی اذیت دی جاتی ہے یہاں تک کہ بعد میں وہ اسپتال میں دم توڑدیتی ہے مگر اس واقعہ میں بھی ملک کی فرقہ پرست ذہنیت اور متعصب میڈیا ہندوومسلمان کا رخ تلاش کرنے لگتاہے کہا جارہا ہے کہ اس واقعہ کی آڑمیں اترپردیش میں بڑے پیمانہ پر دنگافسادبرپا کرنے کی بین الاقوامی سازش ہوئی ہے، کیرالاسے ہاتھرس رپورٹنگ کرنے گئے کچھ مسلم صحافیوں کو گرفتارکرکے اب اس سازش کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش ہوئی ہے اور اس کے بعد ہی سے بیشتر نیوزچینلوں کا رویہ بدل چکا ہے، متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کی جگہ فرقہ پرست ذہنیت اوریہ نیوزچینل اب اس پورے واقعہ کو ہندومسلم کا رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی میڈیا راہ راست پر آنے کو تیارنہیں ہے البتہ آج چیف جسٹس آف انڈیا نے جس طرح کے سخت تبصرے کئے ہیں اس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس معاملہ میں جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ آئے گا اورفرقہ پرست ذہنیت اور متعصب میڈیا کے منہ میں لگام پڑجائے گی۔ واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں جس میں عدالت کی توجہ ان ڈیڑھ سو نیوز چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی گئی ہے جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینل شامل ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری کی اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی  ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

Exit mobile version