1) سوال/ اس ڈرامے پر اعتراض کیوں؟
(1) جواب
خود ہی اس کو ڈرامہ، کہا جاۓ، اور پھر خود ہی یہ سوال کیا جاۓ کہ ڈرامہ پر اعتراض کیوں؟ آج تک جتنےڈرامے اور جتنی بھی فلمیں دیکھی گئیں، کیا کبھی کسی کے متعلق شرعی حکم جاننے کی کوشش کی گئ؟ جب حرام کو حرام سمجھتے ہوۓ، حرام کا ارتکاب کیا گیا، جب فلمیں فلمیں سمجھ کر اور ڈرامے ڈرامے سمجھ کر دیکھے گئے، تو پھر آج حرام کو حرام سمجھ کر حرام کا ارتکاب کرنے میں دقت کیوں؟ ہمیں اعتراض اس لئے ہے کہ ایک ڈرامے کو اب ڈرامہ نہیں بلکہ اسلامی تہذہب و تمدن کو فروغ بخشنے والی تحریک قرار دیا جا رہا ہے؛
(2) سوال
خود ترکی صدر کو اسکی سرپرستی حاصل ہے، پھر یہ غیر شرعی کیسے؟
(2)جواب
ترکی صدر کا قول و فعل، شرعی دلیل نہیں ہے، نہ وہ امیرالمؤمنین ہیں، جو انکا حکم مسلمانوں پر واجب ہو، اور امیر کا بھی حکم تب تک مانا جاتا ہے جب تک شرع کی حد میں ہو، شرع مخالف افعال و اقوال میں امیر وقت کا حکم بھی دیوار پر مار دیاجاتاہے؛
(3) سوال
جب نوجوان، اس طرف تیزی سے راغب ہورہے ہیں، اور انکو عثمانیوں کی تاریخ سے واقفیت ہورہی ہے، پھر یہ اچھا ہے یا برا؟
(3) جواب
ہمارا دین، کسی خزاں رسیدہ درخت کا کوئی ورق نہیں، جسے ہوائیں جدھر چاہیں اڑا لے جائیں، ہمارا دین وہ مستکم دیوار ہے جسکی بنیاد ساتوں زمین کی گہرائیوں سے زیادہ نیچے ہے، اگر اللہ نے کتاب و سنت ہمیں عطا کیا ہے، تو انہیں پھیلانے کا طریقہ بھی عنایت فرمایاہے، جوانوں کی رہنمائی کے لئے زمین کی پشت پر نہ جانے کتنے لاکھ علماۓ دین اور نہ جانے کتنے کروڑ کتابیں موجود ہیں، ایسے میں کسی ڈرامے کی حاجت نہیں رہ جاتی، کیا دنیا کے کسی اور علم و فن کے سیکھنے کے لئے یہ فلسفہ بیان کیا جاتاہے کہ آج سوشل زمانہ ہے لہذا ہر تعلیم اسی طرح ڈرامے کے ذریعہ ہوگی،ڈاکٹری، انجینیرنگ، وکالت، ہر فن اب ڈراموں کےڈریعہ پڑھایاجاۓگا تاکہ جوانوں کو جلد سمجھ میں آجاۓ، کیا ایسا فلسفہ کبھی کسی کے دماغ شریف میں آیا؟ نہیں آیا اور نہ کبھی آۓ گا، بلکہ ان علوم کےلئے بڑی بڑی یونیورسیٹیاں جدید طرز پر تعمیر ہورہی ہیں؛ پھر ایک عثمانیوں کی تاریخ ہی ایسی گئ گزری تھی جس کےلئے ڈراموں کی ٹوٹی ہوئی بیساکھی کی ضرورت پڑ گئ؟ جس طرح مذکورہ تمام علوم ، علوم ہیں، اسی طرح تاریخ بھی ایک علم ہے عثمانیوں کی تاریخ کےلئے ضرورت ہےکہ ہر شہر میں ہر قریہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا جاۓ اور جوانوں کےلئے آسان فہم زبان میں اسلامی تاریخ پر مشتمل کتابیں فراہم کی جائیں، لٹیچر تقسیم کئے جائیں، رسالے ترتیب دۓ جائیں، نہ کہ تاریخ پھیلانے کے نام پر اس طرح تماشا کیا جاۓ اور حقیقت کے نام پر ڈرامہ رچا جاۓ؛
"حقیقت خرافات میں کھوگئ
یہ امت روایات میں کھوگئ "
یہ تین سوال تھے، جو اکثر مغربیت زدہ، اور ڈرامہ ساز لوگ کرتے پھرتے ہیں، ہم نے مضمون کی طوالت کے باعث مختصر جواب، سپرد قرطاس کردیاہے، مگر ہم جانتے ہیں، شیطانی زہر اس قدر کم عیار نہیں کہ جس کے حق میں ہماری تحریر تریاق ثابت ہو، وہ لوگ جنکے جسم میں موسیقیت کا زہر اور ڈرامائیت کا سحر لہو کےساتھ گردش کرتا ہے، وہ اب بھی یہی کہیں گے کہ، یہ کیوں؟ یہ کیا؟ یہ کیسے؟ یہ کیونکر؟
یاد رکھاجاۓکہ کہ ہمارے دادا اور دادی (آدم و حوا علیھماالسلام) کو اپنی جال میں جکڑنے سے قبل شیطان قسمیں کھا کھا کر انکو اپنی سچائی کا یقین دلا رہاتھا، قرآن اعلان کرتا ہے:
وَقَاسَمَهُمَاۤ اِنِّىۡ لَـكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيۡنَۙ /الاعراف۲۱۞
شیطان نے قسم کھا کر کہا تھا کہ ارے” میں تو تم لوگوں کا خیر خواہ ہوں”
آج پھر ایک مرتبہ شیطان قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی کا یقین دلا رہاہے اور کہہ رہا ہے کہ اس ڈرامے میں یہ فضیلت ہےاور وہ فضیلت ہے، اور ہماری قوم کا ایک ناعاقبت اندیش طبقہ اسکی قسم پر یقین کررہاہے، بلکہ ایمان لا رہا ہے؛
ان کم نصیبوں اور ان کوتاہ نظروں کو دنیا بھر کے اسلامی کتب خانے نظر نہیں آتے، دعوت و تبلیغ،اور تعلیم و تعلم کا اسلامی طریقہ نظر نہیں آتا، چودہ صدیاں بیت گئیں دعوت دیتے دیتے مگر ہماری قوم کو اپنی تاریخ کے لئے ڈراموں کی ضرورت پھر بھی باقی رہ گئ تھی ، سوچ سوچ کر دل روتا ہے اور کلیجا منہ کو آتا ہے؛
"ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق”