حیدرآباد: 9؍جون (عصرحاضر) مولانا حسام الدین ثانی عامل جعفر پاشاہ کے ساتھ افضل گنج پولیس اسٹیشن حدود میں پیش آئے واقعہ کے بعد پوری ریاست و بیرون ریاست میں شدید مذمتوں نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ وزیر داخلہ محمود علی، ڈی جی پی اور کمشنر پولیس وغیرہ سے مسلسل مطالبات کیے جارہے ہیں کہ وہ خاطی پولیس اہلکار کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اب یہ واقعہ اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر آپسی مخاصمت کی شکل اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ کیوں کہ آج ایک نئی کال ریکارڈنگ منظر عام پر آئی جس میں وزیر داخلہ محمود علی سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ خاطی پولیس اہلکار کے خلاف آپ کیوں بیان نہیں دیتے اور اس کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کیوں نہیں کرتے ؟۔ اس پر وزیر داخلہ نے جواب دیتے ہوئے پہلے تو ہلکی سی لاعلمی ظاہر کی۔ پهر مولانا کے بیانات سے ناراض وزیر داخلہ نے کہا کہ مولانا نے میری شخصیت پر حملے کیے ہیں اور میرے مرنے کے وقت بھی کلمہ کی جگہ کے سی آر کی تعریف نکلنے کی بات کہی جو ناقابل برداشت ہے۔ زائد از آٹھ منٹ کی گفتگو میں وزیر داخلہ اس بات کو متعدد مرتبہ دہراتے نظر آئے اور کہا کہ انہوں نے مجھے ڈمی ہوم منسٹر کہا ہے جو کہ نامعقول بات ہے۔ دورانِ گفتگو محمود علی نے مولانا پر شخصی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جاہل مولانا ہے ان کے پاس کونسی ڈگری ہے مولانا کی؟ کون بولتا ان کو مولانا۔ مولانا لوگاں ایسے کاماں نہیں کرتے۔ اس طرح کے جملہ وزیر داخلہ نے کہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس والوں کو قبل از وقت اس طرح روکنے کی کوئی اجازت نہیں ہے اور نہ انہیں قبل از وقت روکا گیا ہے ہمارے پاس سارے ریکارڈ موجود ہے۔ ہم کارروائی کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ کی اس کال ریکارڈنگ کو سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیا جارہا ہے اور لوگوں میں چہ می گوئیوں کا ایک سلسلہ چل رہا ہے اور بعض گوشوں سے وزیر داخلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کہ پولیس والا ہی کم تھا کہ وزیر داخلہ بھی اب اس طرح کی گفتگو کرنے لگے ہیں اور بجائے پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی کرنے کے وزیر داخلہ خود مولانا جعفر پاشاہ کے خلاف نظر آرہے ہیں۔